سٹیٹ بینک کی تازہ رپورٹ بھی بری خبر لائی ہے۔ ملک میں پہلے بھی کوئی اچھی خبر سننے کو کم ہی ملتی ہے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بری خبروں کا تواتر اور شدت بڑھتی چلی جارہی ہے۔ حالیہ رپورٹ میں انتباہ کیا گیا ہے کہ تجارتی خسارے سے ادائیگیوں کا توازن بے قابو ہے، آنے والے عرصے میں بجلی اورگیس سمیت تمام ضروریات زندگی کی قیمتوں میں اضافے کی شرح مزید بڑھ جائے گی، مہنگائی مزید خوفناک ہو جائے گی ۔ عوام کے مجروح ذہنوں پر اس خبر نے ایک اور وار کر ڈالا ہے۔ جمہوریت، آمریت، دھرنوں اور مارچوں کے ناٹک میں اس نظام کا معاشی کشت و خون جاری ہی نہیں بلکہ تیز تر ہوتا جارہا ہے۔
حکمران طبقے کی روایتی پارٹی کا یہ اقتدار ایک طرف سرمایہ داروں کے شرح منافع میں مزید اضافے کے لئے عوام پر ایک کے بعد دوسرا معاشی حملہ کر رہا ہے تو دوسری طرف اپنے مالی اور سیاسی مفادات کے تحفظ کے لئے عوام کو مزید ذلتوں میں دھکیلا جارہا ہے۔ میٹرو بس جیسے بھاری منافعوں کے منصوبوں پر اتنے اخراجات کئے جاچکے ہیں کہ کسی دوسرے کام کے لئے رقم ہی نہیں بچی۔ لیکن منافع کی ہوس بھلا کب مٹتی ہے ، نئے نمائشی منصوبوں کے لئے مزید قرضے لئے جارہے ہیں۔ بھاری سود اور سخت شرائط پر ملنے والے یہ قرضے حکمرانوں نے تو واپس نہیںکرنے ، محنت کشوں کی آنے والی نسلوں کو معاشی بوجھ میں دبایا جارہا ہے۔ ملک میں پیدا ہونے والا ہر بچہ کم و بیش ایک لاکھ روپے کا مقروض ہو کر دنیا میں آتا ہے۔ ان منصوبوں کے چمکیلے مگر زہریلے دکھاوے پر کھربوں روپے خرچ کر دیے گئے لیکن انگریز کے بنائے گئے خستہ حال نظام آبپاشی کی مرمت کے لئے ''فنڈ نہیں ہیں‘‘۔ وزارت خزانہ جی ڈی پی کی3.3فیصد شرح نموکو 4.3فیصد کرتی پھر رہی ہے۔ غربت اور بے روزگاری کو اپنی موجودہ سطح پر برقرار رکھنے کے لئے بھی 8سے 10فیصد کی شرح سے معاشی نمو درکار ہے۔ خود اسحاق ڈار کے مطابق 60فیصد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔
محکمہ آبپاشی کے کئی سینئر اور تجربہ کار انجینئرز کے مطابق حالیہ سیلاب میں کئی مقامات پر بند توڑنے کی سرے سے ضرورت ہی نہیں تھی۔متعلقہ افسران وضاحت کرتے رہ گئے لیکن حکمرانوں نے اپنی ملوں، جاگیروں اور فیکٹریوں کو صرف خطرے سے بچانے کے لئے کئی بند توڑ دینے کے احکامات صادر فرما دیے۔ غریبوں کی آبادیاں برباد ہوگئیں، لاکھوں لوگ بے گھر ہوگئے، زندگیاں اجڑ گئیں اور ذمہ داران مگر مچھ کے آنسو بہا کر فوٹو سیشن کرواتے اور سیاست چمکاتے رہے۔ اب کبھی چھوٹے میاں صاحب پانی میں کودتے پھر رہے ہیں، کبھی عمران خان کنٹینر پر براجمان ہوکر متاثرین کی مدد کررہے ہیں اورکبھی بلاول زرداری پانی کے جوہڑ میں کھڑا ہوکر غریب عورتوں سے پیار لینے کے سکرپٹ کو عملی جامہ پہنا رہا ہے۔ مقامی بیوروکریسی دورہ کرنے والے ان مسیحائوں کے لئے تین تین لاکھ روپے کے ہیلی پیڈبناتی پھر رہی ہے۔ معاشی اور سیاسی طور پر مہلک بحران سے دوچار اس معاشرے میں برباد ہونے والی دہقانوں کی یہ بستیاںبھلا کیسے آباد ہوسکیںگی؟ تباہ کاری کے بہت سے واقعات دانستہ طور پر کروائے جاتے ہیں تاکہ خودکو''اچھا‘‘، ''شریف‘‘ اور ''ہمدرد‘‘ حکمران بنا کر پیش کیا جاسکے۔ حکمران طبقے کا ہر ''ترقیاتی‘‘ منصوبہ
محنت کش عوام کی زندگیوں کو مزید تنزلی سے دو چار کردیتا ہے۔
درد بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی!
سرمائے کی اس جمہوریت کا پول حالیہ سیاسی بحران میں کھل گیا ہے۔ پارلیمنٹ میں بیٹھی سرمایہ داروں کی تمام سیاسی پارٹیوں کی لوٹ مار میں ''مفاہمت‘‘ اور ''مصالحت‘‘ بے نقاب ہو گئی ہے۔ حکمران طبقے کا ایک دوسرا دھڑا اس مال غنیمت میں بڑی حصہ داری کے لئے بے صبرہوکر''انقلاب‘‘ بپاکرتا پھر رہا ہے۔ نورا کشتی کے اس دنگل میں محروم اور مظلوم ہی کچلے جارہے ہیں۔ اس انقلابی مارچ اور دھرنوں کا مقصد دراصل انقلاب کو اتنا ذلیل و رسوا کرنا ہے کہ لوگ اس کے نام سے ہی تنگ آ جائیں۔ عوام کو کسی حقیقی تحریک اور انقلابی عمل سے اس قدر بیزار کر دیا جائے کہ وہ بہتر زندگی کی آرزو کو خود ہی کچل دیں۔ سکڑتی ہوئی مڈل کلاس تذبذب کے عالم میں ''انقلاب‘‘ کا نعرہ سن کر ایک یاس بھری آس سے ٹیلیوژن سکرینوں پر یہ سرکس دیکھتا ہی چلا جارہا ہے۔
عمران خان کی ''آزادی‘‘ ہر مشکل اور تکلیف کا بار بار ذکر تو کرتی ہے لیکن سرمائے کی جن زنجیروں نے عوام کو ذلتوں میں جکڑ رکھا ہے انہیں توڑ دینے کا ذکر کرنے سے قاصر ہے۔ انسان اور انسانی سماج کی آزادی کا نقطہ آغاز ہی معاشی آزادی ہے۔ جب تک انسان روٹی، تعلیم، علاج، رہائش جیسی بنیادی ضروریات کی فکر سے آزاد نہیں ہوتا تب تک ہر آزادی جھوٹی ہے۔ اس سماج میں یہ تمام ضروریات دولت سے میسر آسکتی ہیں جو سماج کی وسیع اکثریت کے پاس نہیں ہے۔ دولت کے انباروں پر پھن پھیلائے بیٹھے ناگ، جو رات کے کنسرٹ میں عمران خان کے ارد گرد کھڑے بھی نظر آتے ہیں، بھلا سرمائے کی حاکمیت اور جبر کا خاتمہ چاہیں گے ؟ انتخابات میں دھاندلی اس وقت تک ختم نہیں ہو سکتی جب تک انتخابی عمل میں سے سرمائے کا زہریلا کردار ختم نہیں ہوتا۔ جب تک دولت کا راج رہے گا انتخابات کبھی ''شفاف‘‘ نہیں ہو سکتے۔
''فوج کا کردار‘‘ بے معنی اور لامتناہی بحث اور چہ میگوئیوں کا مرکز بنا ہوا ہے۔ فوجی آمریت ہو یا ''جمہوریت‘‘، مالیاتی سرمائے کی آمریت ہمیشہ برقرار رہتی ہے۔ شرح منافع میں مسلسل اضافے کی یہ جارحیت محنت کرنے والے انسانوں کے لہوکا آخری قطرہ تک نچوڑنے پر تلی ہوئی ہے۔ یہاں سیاست، آئین، قانون اور انصاف، سب سرمائے کی لونڈیا ں ہیں جنہیں تبدیل کر دینے سے ''تبدیلی‘‘ آسکتی ہے نہ سرمایہ دار حکمرانوں اور سامراج کا کردار بدل سکتا ہے۔ استحصالی نظام معیشت کی حدود و قیود کو مقدس مان کر سطحی اصلاحات کرنے کے مطالبات اصلاح پسندی کہلاتے ہیں، انقلاب نہیں۔ لیکن ایسا نظام جب گل سڑ کر اس حد تک بوسیدہ ہوچکا ہو کہ اپنے قوانین کے مطابق بھی نہ چل پائے تو اصلاح اور بہتری کی گنجائش ہی ختم ہوجاتی ہے ۔ پھرکیا تبدیلی اور کیسی ترقی؟
حکمران طبقہ ہمیشہ نان ایشوزکے ذریعے عوام کے حقیقی ایشوزکو دبانے اورا نہیں اس نظام زرکا تابع رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ سیاست دان، نام نہاد دانش ور، مُلّا، خود ساختہ تجزیہ نگار، ٹی وی اینکرز اور سماجی شعور پر اثر انداز ہونے والے دوسرے پیشے اور شخصیات حکمران طبقے اور سامراج کے زر خرید غلام ہوتے ہیں۔ عوام کو اس نظام کی فیوض و برکات سمجھانے اور اسے ازلی و ابدی ثابت کرنے والوں کے اپنے مفادات اور مراعات اس نظام سے وابستہ ہوتے ہیں، لیکن تاریخ گواہ ہے کہ جنگوں اور قومی شاونزم سے لے کر جعلی سیاسی لڑائیوں اور دھرنوں تک ، عوام کو گمراہ رکھنے کے ہتھکنڈے صدا کامیاب نہیں ہوسکتے۔ محنت کشوں کو ہمیشہ ان تماشوں میں الجھانا ممکن ہوتا تو تاریخ میں کبھی انقلابات برپا ہی نہ ہوتے، غلام داری سے سرمایہ داری تک سماجی و معاشی نظام نہ بدلتے اور انسانی سماج ارتقاء پذیر نہیں ہوتا۔
بظاہر جمود اور یکسانیت کے طویل ادوار کے بعد ایسے عہد بھی آتے ہیں جب دہائیوں کا تسلسل ایک دھماکہ خیز انداز میں ٹوٹ کر بکھر جاتا ہے، حکمران طبقات کے تمام حربے ناکام و نامراد ہوجاتے ہیں، محنت کش اور نوجوان تاریخ کے میدان میں اترکراپنا مقدر خود تراشنے لگتے ہیں۔ مارکس کے بقول ''انقلابات تاریخ کا انجن ہوتے ہیں‘‘۔ آج حکمرانوں کے تمام دھڑے، ان کے تمام فنکار اور شعبدے باز اپنی تمام چالیں چل چکے ہیں۔ یہ کچھ کر لیں،کتنے ناٹک رچا لیں، ناکامی ان کا مقدر بن چکی ہے کیونکہ جس نظام زر کو بچانے کی کوشش وہ کررہے ہیں اس کا وقت گزر چکا ہے۔ تاریخ کا پہیہ واپس نہیںمڑ سکتا۔ شاید وہ لمحے قریب آن پہنچے ہیں جن کے بارے میں ساحر نے کہا تھا:
کون جانے کس گھڑی وقت کا بدلے مزاج!