"DLK" (space) message & send to 7575

کوبانی: لہو سے رنگے کتنے ہاتھ؟

غزہ سے لے کر کوبانی تک، صہیونیت اور مذہبی بنیاد پرستی کی تباہ کاریاں سرمایہ دارانہ نظام کے اس بحران کی علامت ہیں جو پورے خطے کو بربادی، اذیت اور بربریت کی آگ میں جھونکتا چلا جارہا ہے۔شام اور عراق میں ''اسلامک اسٹیٹ‘‘ (سابق ISIS)نامی وحشی بنیاد پرست گروہ کا ابھار ثابت کرتا ہے کہ اس متروک نظام کی حدود میں رہتے ہوئے انسانی سماج آگے بڑھنے کی بجائے ماضی بعید کی نفسیات، فرسودہ عقائد اور تعصبات میں غرق ہورہا ہے۔ پوری دنیا کی نظریں اس وقت ترکی کے بارڈر پر واقع شام کے چھوٹے سے قصبے ''کوبانی‘‘ پر جمی ہوئی ہیں جو اس وقت اسلامک اسٹیٹ کے حملے کی زد میں ہے۔ قصبے میں موجود YPG(پیپلز پروٹیکشن یونٹس، شام میں بائیں بازو کی ڈیموکریٹک یونین پارٹی کا مسلح ونگ ) کے کرد جنگجو، جن میں بڑی تعداد خواتین کی بھی شامل ہے، گزشتہ 24دنوں سے ہلکے ہتھیاروں اور محدود وسائل کے ساتھ اسلامک اسٹیٹ کی وحشت کے خلاف سیسہ پلائی دیوار بنے ہوئے ہیں۔قصبے کی گلیوں اورسڑکوں پر لڑائی جاری ہے،کرد ملیشیا کے پاس اسلحہ ختم ہورہا ہے اور ہلاک ہونے والوں کی تعداد کم از کم 500ہو چکی ہے۔کرد جنگجوئوں کے لئے خوراک اور دوسرا امدادی سامان لانے کے لئے ترکی جانے والے ہزاروں بے بس افراد کو طیب اردوعان کی رجعتی حکومت نے واپسی پر کوبانی میں داخل ہونے سے روک رکھا ہے۔کوبانی پر اسلامک اسٹیٹ کے مکمل قبضے کے صورت میں جس پیمانے پر قتل عام ہوگا، فی الوقت اس کا تصور بھی محال ہے اور اس کی براہ راست ذمہ داری طیب اردوعان کی عوام دشمن حکومت پر عائد ہو گی۔
یورپ سمیت پوری دنیا میں کرد عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لئے ترک حکومت اور امریکی سامراج کے خلاف مظاہرے جاری ہیں۔ خود ترکی میں طیب اردوعان حکومت کے خلاف ہونے والے پر تشدد مظاہروں میں اب تک 20سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ مظاہرین ترک حکومت سے بارڈر کھولنے اور YPGکے کرد جنگجوئوں کے لئے اسلحہ اور دوسرا سامان کوبانی بھیجنے کی اجازت دینے کا مطالبہ کررہے ہیں۔ طیب اردوعان حکومت کی جانب سے اسلامک اسٹیٹ کی پشت پناہی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ اردوعان کوبانی میں اسلامک اسٹیٹ کے ہاتھوں YPGکے کچلے جانے کا متمنی ہے اور اس ضمن میں ہزاروں بے گناہوں کی بَلی چڑھانے کو بھی تیار ہے تاکہ ترک ریاست کو آقا نہ ماننے والے کرد محنت کشوں اور نوجوانوں کو ''سبق‘‘ سکھایا جاسکے۔
ترک ریاست سے کوبانی میں مداخلت اور کرد عوام کی مدد کی اپیل بالکل بے سود ہے۔ اردوعان پہلے ہی واضح کر چکا ہے کہ وہ یکجا اور آزاد کردستان پر اسلامک اسٹیٹ کے پھیلائو کو ترجیح دے گا۔ اردوعان نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ اس کی نظر میں اسلامک اسٹیٹ اور PKK(بائیں بازو کا رجحان رکھنے والی کردستان ورکرز پارٹی) میں کوئی فرق نہیں ہے۔ لہٰذاترک پارلیمنٹ کی طرف سے پاس کی جانے والی مبہم سی قرارداد میں جن ''دہشت گرد‘‘ عناصر کے خلاف ترک فوج کے استعمال کی منظوری دی گئی ہے، اس سے اسلاملک اسٹیٹ کی بجائے کرد مسلح ملیشیا ہی مرادہے۔ 
''اسلامک اسٹیٹ‘‘ محنت کش عوام اور بائیں بازو کے ہر رجحان کی کھلی دشمن ہے اور تہذیب و ثقافت کا ہر نشان مٹا دینے کے درپے ہے۔یہ بربریت ان جہادی گروہوں میں سے برآمد ہوئی ہے جنہیں امریکی سامراج اور اس کے علاقائی چیلوں نے بشارالاسد کے خلاف پراکسی کے طور پر استعمال کرنے کے لئے اسلحہ، ٹریننگ اور مالی امداد دے کر پروان چڑھایا ہے۔ اب اسلامک اسٹیٹ میں منظم جہادی گروہ اپنے آقائوں کے قابو سے باہر ہو کر درد سر بن گئے ہیں۔امریکی اور یورپی سامراج کو اسلامک اسٹیٹ کے خلاف اپنی لڑائی میں YPGیا PKKکے بطور مہرہ استعمال میں کوئی مضائقہ نہیں ہے لیکن وہ کوبانی کے چند ہزار کردوں کے لئے نیٹو کے ایک ممبر (ترکی) کو ناراض نہیں کرنا چاہتے ہیں۔ دوسری طرف ترکی اور امریکہ کے خلیجی اتحادی بدستور ''ممنوعہ‘‘ اور ''برے‘‘ جہادی گروہوں کی مالی امداد جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ترکی اور دوسرے ''اتحادی ممالک‘‘ کی جانب سے اسلامک اسٹیٹ کی کھلی حمایت پر نام نہاد ''انٹرنیشنل کمیونٹی‘‘ مجرمانہ خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے۔ عبداللہ اوجالان اور PKKکے دوسرے رہنمائوں کی اردوعان سے متعلق خوش فہمی کو وقت نے انتہا کی حماقت ثابت کیا ہے۔ اردوعان ترکی کی متعلق العنان سرمایہ دارانہ ریاست کا مکار اور بے رحم سیاسی نمائندہ ہے جو کہ عراقی کردستان کے تیل پر اپنی گرفت مضبوط کرنے اور شمالی عراق میں ترکی کی کٹھ پتلی کرد ریاست قائم کرنے کیلئے وہاں کے کرد رہنمائوں سے ''خوشگوار تعلقات‘‘ استوار کرنے کا ڈھونگ رچاتا رہا ہے۔
فی الوقت اردوعان اور اس کے حواریوں کی پوری خواہش ہے کہ جلد از جلد کوبانی پر قابض ہو جائے۔اس کے بعد ترک فوج کوبانی اور گرد و نواح پر قبضہ کرے گی اور ترکی کی سرپرستی میں ''بفر زون‘‘ قائم کر دیا جائے گا۔اس بفر زون کا سیدھا مطلب شام کے وسیع علاقے پر ترکی کا قبضہ ہوگا۔ واشنگٹن، لندن، پیرس اور برلن کے ایوانوں میں بیٹھے منافقین اعظم پہلے ہی ''بفر زون‘‘ کے قیام پر ''غورو فکر‘‘ کر رہے ہیں۔ ایسا بفر زون یقینا شام کی قومی خود مختیاری کی کھلی خلاف ورزی ہو گی لیکن عراق اور افغانستان سمیت ملک کے ملک برباد کردینے والوں کو ایسی چھوٹی موٹی خلاف ورزی سے کیا فرق پڑتا ہے؟ مغربی سامراج ترکی کے سامنے ہڈی پھینک کر وہ حاصل کرے گا جو وہ چاہتا ہے: شام کی سرزمین پر اپنے استعمال کے لئے ترکی کی فوجیں۔ ترک فوج شامی یا کرد آبادی کو ''آزاد‘‘ کروانے نہیں جائے گی بلکہ اس کا مقصد کردعلاقوں کی نیم خودمختاری کو نیست و نابود کرنا ہو گا۔ شام میں خونریز خانہ جنگی سے جبر کا ایک نیا باب شروع ہو جائے گا۔ 
شام کی طرف اردوعان اور اس کے بلوائیوں کا جارحانہ رویہ نہ صرف شام بلکہ ترکی کے عوام کے لئے بھی تباہ کن ثابت ہوگا۔ اردوعان کے سامراجی عزائم اور انتشار سے دوچار ہمسایہ ملک میں براہ راست مداخلت کے نتیجے میں شام کی خانہ جنگی ترکی میں باآسانی سرایت کر سکتی ہے۔ مزید برآں کوبانی اور شام کے دوسرے کرد علاقوں میں اسلامک اسٹیٹ کے مذہبی جنونیوں کے ہاتھوں ممکنہ قتل و غارت گری کا رد عمل ترکی میں کرد عوام کی دھماکہ خیز بغاوت کی شکل میں برآمد ہو سکتا ہے۔
تین ہفتوں کی لڑائی کے بعد امریکی جہازوں نے اگرچہ کوبانی کے گرد و نواح میں اسلامک اسٹیٹ کے ٹھکانوں پر بمباری کا آغاز کیا ہے لیکن یہ بمباری اپنی اساس اور اثرات میں ''بے ضرر‘‘ قسم کی ہے۔ امریکی دونوں اطراف کے لڑنے اور مرنے کا تماشا دیکھنا چاہتے ہیں۔ امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے صاف الفاظ میں کہا ہے کہ کوبانی پر اسلامک اسٹیٹ کے قبضے کو روکنا امریکہ کے اسٹریٹجک مفادات کا حصہ نہیں ہے۔ برطانوی سیکرٹری خارجہ فلپ ہیمنڈ کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیری نے کہا ہے کہ ''کوبانی میں جو کچھ ہورہا ہے وہ یقینا خوفناک ہے... (لیکن بعض اوقات) اسٹریٹجک مقاصد کو سمجھتے ہوئے پیچھے بھی ہٹنا پڑتا ہے۔‘‘
کردعوام کی قومی آزادی کی جدوجہد میں سامراجیوں سے کسی امداد کی امید لگانا سراسر بیوقوفی ہے۔ سامراج نے کردوں کو ہمیشہ اپنے مکروہ عزائم کے لئے ٹشو پیپر کی طرح استعمال کیا ہے۔ قتل و غارت گری اور ریاستی جبر میں ماہر ترک ریاست اور اشرافیہ سے ''مذاکرات‘‘ سامراجی امداد سے بھی بڑا دھوکہ ہیں۔ کرد عوام کو اپنے حقوق اور قومی آزادی کی جدوجہد میں اپنے زور بازو پر انحصار کرنا ہو گا۔ سامراج اور جابر ریاستوں کے خلاف اس لڑائی میں ان کے فطری اور حقیقی اتحادی ترکی اور دنیا بھر کے مظلوم اور محنت کش عوام ہیں۔صرف کرد ہی طیب اردوعان اور کے گینگ سے تنگ نہیں ہیںبلکہ پچھلے سال موسم گرما میں اردوعان حکومت کے خلاف شروع ہونے والی ملک گیراحتجاجی تحریک اتار چڑھائو کے ساتھ اب بھی جاری ہے۔ ترکی میں قومی مسئلے کا حل سرمایہ دارانہ ریاست اور نظام کے خاتمے سے مشروط ہے۔ اس ملک میں محنت کشوں اور نوجوانوں کی انقلابی تحریک کا نیاابھار پورے خطے پر اپنے اثرات مرتب کرے گا۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں