"DLK" (space) message & send to 7575

صدر مملکت سے ڈھابے کے ویٹر تک

پاکستان کی سیاست ،نظریات اور سماج کو یکسر بدل دینے کی مقصدیت سے جتنی خالی ہے، جلسوں اور دھرنوں کا شور اتنا ہی زیادہ ہے۔ نظریات سے عاری سیاست محض شعبدہ بازی اور دھوکہ دہی ہوا کرتی ہے۔ ایسے میں ذاتیات کے گرد ہونے والی الزام تراشی، بہتان بازی، ہلڑ بازی اور تیسرے درجے کی طنز ہی ''سیاست‘‘ کا درجہ اختیار کر جاتی ہے۔ 
آج انقلابی سوشلزم، کمیونزم اور مارکسزم کے نظریات کو اس قدر تضحیک، تمسخر اور حقارت سے پیش کیا جاتا ہے کہ زندگی میں ''آگے‘‘ بڑھنے اور ''کیرئیر‘‘ بنانے کے خواہشمند دانشور، لکھاری اور سیاست دان اس ''شجر ممنوعہ‘‘کو ہاتھ نہ لگانے میں ہی عافیت جانتے ہیں۔ ایسے ادوار میں ''حقیقت پسندی‘‘ کے نام پر ''ظاہریت‘‘ کو پیش کیا جاتا ہے، انسان دشمن نظام سے سمجھوتہ کر لینے کی خود غرضی کے لئے''پراگمیٹزم‘‘ جیسی ''ماڈرن‘‘ اصطلاحات گھڑی جاتی ہیں، ضمیر فروش اور مفاد پرست بڑے دھڑلے سے اپنے ''پریکٹیکل‘‘ ہونے پر فخر کرتے ہیں۔ ان حالات کے ساتھ سمجھوتہ کر لینے کا مطلب اس نظام کے سامنے سر تسلیم خم کر دینا ہے جو نسل انسانی کی بھاری اکثریت کو غربت اور ذلت کی اتھاہ گہرائیوں میں دھکیلتا چلا جارہا ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کی بے پناہ صلاحیتوں کے باوجود انسان روٹی، پانی، روزگار، رہائش اور علاج کے لئے ترس رہا ہے۔ امارت اور غربت کی وسیع خلیج کے ہولناک اعشاریے ہر روز شائع ہورہے ہیں اور جریدے ''فوربس‘‘ کی تازہ رپورٹ کے مطابق 67افراد کے پاس دنیا کے غریب ترین 3.5ارب انسانوں سے زیادہ دولت ہے۔انسانی تاریخ میں اس سے قبل امارت اور غربت کی خلیج اتنی وسیع کبھی نہ تھی۔
پاکستان کی بات کی جائے تو 65ارب ڈالر کے بیرونی قرضے سمیت ،کل ریاستی قرضہ 149ارب ڈالر سے تجاوز کر چکا ہے۔ سابقہ قرضوں کا سود اتارنے کیلئے نہ صرف نئے قرضے لئے جارہے ہیں بلکہ عوام پر ایک کے بعد دوسرا معاشی حملہ ہورہا ہے۔
دیوار برلن کے انہدام اور سوویت یونین میں سٹالن ازم کی ٹوٹ پھوٹ کے بعد ''سوشلزم کی ناکامی‘‘کا سامراجی جشن زیادہ عرصہ نہیں چل پایا۔ صرف چھ سال بعد ونزویلا میں ہوگو شاویز نے بھاری اکثریت سے صدر منتخب ہونے کے بعد عالمی سامراج کو چیلنج کر ڈالا۔ 2006ء میں شاویز نے اعلان کیا کہ ''سوویت یونین کے ٹوٹنے کے صرف 16سال بعد 21ویں صدی کے سوشلسٹ انقلاب کا آغاز ہو رہا ہے۔‘‘ریڈیکل بائیں بازو کے ابھار کی یہ لہر آج پورے لاطینی امریکہ میں پھیل چکی ہے۔
پاکستان کے حکمرانوں کو سیاق و سباق سے بے بہرہ ہو کر دوسرے ممالک کی ''ترقی‘‘ کی مثالیں دینے کا بہت شوق ہے، لیکن یہ جس ملک کی بھی مثال دیتے ہیں اس کا بیڑہ جلد ہی غرق ہو جاتا ہے۔ نواز شریف جن ''ایشین ٹائیگرز‘‘ کے بڑا مداح تھے انہیں1990ء کی دہائی میں ہی نجکاری نے بھیگی بلیاں بنا دیا۔ عمران خان شاید 1960ء یا 70ء کی دہائیوں میں زندہ ہیں۔ آج حالات یہ ہیں کہ فن لینڈ اور سویڈن سے لے کر برطانیہ اور فرانس تک،فلاحی ریاست کو تار تار کیا جارہا ہے۔سکاٹ لینڈ کے ریفرنڈم میں برطانیہ ٹوٹتے ٹوٹتے بچا ہے۔ چین کی باتیں بھی بہت ہوتی ہیں لیکن یہ کوئی نہیں بتاتا کہ سرمایہ داری کی تیس سالہ ''ترقی‘‘ کے بعد 82کروڑ چینی بدترین غربت (1ڈالر روزانہ)میں زندگی گزار رہے ہیں۔ 
یہاں ہوگوشاویز کی مثال آج تک کسی نے دی ،نہ ایوو مورالس کی بات کوئی کر سکتا ہے۔ ایوو مورالس بولیویا میں ریڈیکل بائیں بازو کی پارٹی ''تحریک سوشلزم‘‘ کا بانی ہے اور اسی ہفتے 61فیصد ووٹ لے کر مسلسل تیسری بار صدر منتخب ہوا ہے۔صرف آٹھ سال پر محیط ایوو مورالس کے دور حکومت میں بولیویا کی شرح غربت 80 سے کم ہو کر 20فیصد پر آگئی ہے، کم از کم حقیقی اُجرت میں 87فیصد جبکہ فی کس آمدن میں 126فیصد اضافہ ہوا ہے، ناخواندگی ختم ہوگئی ہے، بجٹ خسارے کو سرپلس میں تبدیل کر دیا گیا ہے، عوامی بہبود پر ریاستی اخراجات میں 45فیصد اضافہ ہوا ہے جس سے تعلیم اور علاج کی سہولیات تقریباً مفت ہو گئی ہیں۔ 2012ء میں مورالس حکومت نے بجلی سے وابستہ سامراجی کمپنی کو نیشنلائز کر دیا تھا جس کے بعدلوڈ شیڈنگ ختم اور بجلی کے نرخ 60فیصد کم ہوگئے تھے۔ لاطینی امریکہ میں، جہاں برازیل سے میکسیکو تک، تمام بڑی معیشتیں زوال یا منفی شرح نمو کا شکار ہیں وہاں پچھلے پانچ سالوں میں بولیویا کی معاشی شرح نمو 6.2فیصد رہی ہے۔سامراج اور سرمایہ داری کے علمبردار بھی مورالس کی سوشلسٹ پالیسیوں کی کامیابی تسلیم کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ نیویارک ٹائمز نے اداریے میں لکھا ہے کہ ''مورالس کی معاشی اصلاحات نے بولیویا کو بھکاری سے ایک ایسے ملک میں تبدیل کر دیا ہے جس کی تعریف کرنے پر ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف جیسے مخالفین بھی مجبور ہیں۔‘‘ برطانوی اخبار گارڈین نے ایک خصوصی مضمون ''مورالس نے ثابت کر دیا کہ سوشلزم معیشت کے لئے مضر نہیں ہے‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا ہے جس میں تسلیم کیا گیا ہے کہ بولیویا میں ایوو مورالس کے آٹھ برسوں جتنی ترقی پچھلے 35سال میں نہیں ہوئی، یہ دنیا کے ان چند ممالک میں شامل ہے جہاں غربت اور امارت کی خلیج میں کمی آرہی ہے اور ''اس کارکردگی نے واشنگٹن، آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے منہ بند کر دئیے ہیں۔‘‘یہ وہی ایوو مورالس ہے جس نے غزہ پر حالیہ اسرائیلی جارحیت کے دوران اسرائیل کو سرکاری طور پر دہشت گرد ملک قرار دے دیا تھا۔
چین کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ژینہوا کو انٹرویو دیتے ہوئے مورالس نے کہا ہے کہ ''ملک کے قدرتی وسائل کو قومی تحویل میں لینا اور غریبوں کے حق میں دولت کی تقسیم نو معاشی ترقی کا نسخہ ہیں۔ پہلے سامراجی اجارہ داریاں یہاں سرمایہ کاری کر کے دولت لوٹتی تھیں اب یہ دولت ملک میں ہی رہتی ہے اور بزرگوں، حاملہ خواتین، نومولود بچوں اور طالب علموں پر صرف ہوتی ہے۔‘‘ یہ درست ہے کہ بولیویا ابھی کوئی سوشلسٹ ملک نہیں ہے لیکن تحریک اور جدوجہد جاری ہے۔قابل غور بات یہ ہے کہ اگر اس سمت میں سفر کے آغاز کی حاصلات یہ ہیں تو ایک مکمل منصوبہ بند معیشت میں سماجی خوشحالی اور معاشی آسودگی کس سطح تک جاسکتی ہے۔
حالیہ انتخابات سے پہلے لاطینی امریکہ کے مشہور اخبار 'ایل ڈیبر‘ (El Deber)کو انٹرویو دیتے ہوئے مورالس نے کہا تھا کہ ''یہ میرا آخری دور صدارت ہوگا۔ اس کے بعد میں کسی ریستوران میں ویٹر کی نوکری کرنا پسند کروں گا۔‘‘اس بیان پر سامراجی دانشوروںاور تجزیہ نگاروں نے خوب قہقہے لگائے تھے لیکن مورالس کی بھاری فتح کے بعد ان کی بتیسی اندر ہوگئی ہے۔ 
عمران خان اور قادری صاحب کو شاید ایکوا ڈور، ونزویلا اور بولیویا کے مثالیں دینے سے ڈر لگتا ہے۔ لگنا بھی چاہئے وگرنہ ان کے ''انقلاب‘‘ کی ''فنانسنگ‘‘ ہی بند ہو جائے گی۔ ایوو مورالس کا نام لینے سے ہی ان ''انقلابی‘‘ لیڈروں کی سیاسی ''سپانسر شپ‘‘ اور معاشی مراعات معطل ہو جائیں گی۔ محنت کش طبقے کو کمتر اور ذلیل جاننے والے حکمران طبقے کے یہ سیاسی نمائندے بھلا اس شخص کا ذکر کیسے کر سکتے ہیں جس نے ان کے سامراجی آقائوں کو ذلیل کر دیا ہے اور جو صدارت کے بعد ایک محنت کش کی زندگی گزارنا چاہتا ہے، لیکن پاکستان میں حالیہ سیاسی سرکس بھی زیادہ دیر چلنے والے نہیں ہیں۔ محنت کش عوام کا جم غفیر جب ایک تحریک میں ابھرے گا تو حکمرانوں کو ان کے نظام سمیت مٹا کر ہی دم لے گا۔لاطینی امریکہ میں جو کچھ ہورہا ہے وہ کہیں بلند پیمانے پر یہاں بھی ہوگا۔ انقلابی سوشلزم کے نظریات کو ملکوں اور خطوں کی سرحدیں روک سکی ہیں نہ کبھی روک سکیں گی۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں