19اکتوبر کی صبح بلوچستان کے اہم صنعتی شہر حب کے مضافاتی علاقے سکران میں ایک مرغی خانے کے 11مزدوروں کو پہلے اغوا کیا گیا پھر شناخت کے بعد ان میں سے 9 پر گولیوں کی بوچھاڑکر دی گئی۔ 8جائے وقوعہ پر ہی دم توڑ گئے جبکہ ایک شدید زخمی حالت میں اپنے ساتھیوں کی لاشوں کے بیچ پڑا ملا۔ لسبیلہ سے تعلق رکھنے والے دونوں مزدوروں کو چھوڑ دیا گیا۔ بچ جانے والے انہی دو بلوچ محنت کشوں نے اپنے ساتھیوں پر ڈھائی جانے والی بربریت کی خبر انتظامیہ کو دی۔ مرنے والے محنت کشوں کا تعلق رحیم یار خان اور مظفر گڑھ سے ہے جنہیں شاید پنجاب سے تعلق رکھنے کی بنیاد پر قتل کیا گیا ہے۔ یہ مزدور سیلاب کی تباہ کاریوں سے برباد ہوکر سیکڑوں میل دور ایک پہاڑی علاقے میں نوکری کرنے آئے تھے۔ بچنے والے مزدور نے بتایا کہ ''ہم سیلاب متاثرین ہیں اور مزدوری کے لیے سکران آئے تھے۔ وہ ہمیں اغواکر کے نامعلوم مقام پر لے گئے اور ہمارے شناختی کارڈ چیک کئے اور ہم پر گولیوں کی بوچھاڑ کر کے فرار ہو گئے۔ وہ سمجھے کہ سب مر گئے ہیں لیکن میں بچ گیا‘‘۔ 'متحدہ بلوچ فرنٹ‘ تنظیم کے موسیٰ سرباز نامی نمائندے نے خفیہ مقام سے صحافیوں کو فون کر کے واقعے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔
یہ واقعہ جتنا المناک ہے اتنا ہی تشویشناک بھی ہے اور عکاسی کرتا ہے کہ بلوچستان کا قومی مسئلہ کس حد تک پیچیدہ، پُرتشدد اور رجعتی شکل اختیار کر گیا ہے۔ بے گناہ انسانوں کے اس بہیمانہ قتل نے ایک بار پھر تنگ نظر قوم پرستی اور طبقاتی جدوجہد کے درمیان ان مٹ لکیرکو واضح کر دیا ہے۔ لسانی بنیادوں پر کی جانے اس دہشت گردی کا سب سے زیادہ نقصان اپنے معاشی، قومی اور معاشی حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والے مخلص بلوچ نوجوانوں اور محنت کشوں کو ہورہا ہے۔ مظلوم قومیں بھلا غریب محنت کشوں کو قتل کر کے آزادی حاصل کرتی ہیں؟
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ گزشتہ سات دہائیوں سے بلوچ عوام، خصوصاً نوجوان معاشی استحصال اور ریاستی جبر کے خلاف نسل در نسل جدوجہد کرتے آئے ہیں۔ اس تحریک میں سیاسی طریقہ کار کے ساتھ ساتھ مسلح جدوجہد کے ادوار بھی آتے رہے ہیں۔ ریاست نے بلوچستان میں تین بڑے فوجی آپریشن کیے جن میں 1974ء کا فوجی آپریشن شاید سب سے بڑا تھا۔ ماضی میں بلوچستان کی قومی تحریک کے نظریات اور فکر میں طبقاتی نقطہ نظر بہت واضح تھا۔ یہ کسی ایک ریاست یا حاکمیت کے خلاف جدوجہد نہ تھی بلکہ بحیثیت مجموعی پورے استحصالی نظام اور معاشی ڈھانچے کو اکھاڑ پھینکنے کا عزم تھا۔ لیکن پچھلے کچھ عرصے میں نئی ابھرنے والی قیادت نے اس جدوجہد کو تنگ نظر سرمایہ دارانہ قوم پرستی اور تعصب تک محدود کرنے کی جو کوشش کی ہے اس کا نتیجہ نوجوانوں میں پھیلنے والی بددلی اور معاملے میں سامراجی قوتوں کی بڑھی ہوئی مداخلت کی شکل میں برآمد ہوا ہے۔ یہ سامراجی ہزاروں ارب ڈالر کے ان معدنی ذخائر کو نوچنے کے لیے بے تاب ہیں جن کا تخمینہ مختلف جیولاجیکل تجزیوں میں لگایا گیا ہے۔ امریکہ سے لے کر چین، بھارت سے لے کر ایران اور خلیجی بادشاہتوں تک سامراجی عزائم رکھنے والی مختلف ریاستوں کی مداخلت، بلوچ عوام کی جدوجہد میں دراڑیں ڈال رہی ہے۔
قومی اور لسانی منافرت ابھارکر محنت کشوں کو تقسیم کرنا تاریخی طور پر حکمرانوں کا آزمودہ طریقہ کار رہا ہے، مظلوم تو نسل اور قوم سمیت ہر فرسودہ تعصب کو رد کر کے دوسرے مظلوموں کو اپنے ساتھ جوڑتے ہیں۔ سرمایہ دار، جاگیر دار حکمران اس طرح کے واقعات پر مگر مچھ کے کتنے ہی آنسو بہا لیں لیکن اپنے مظالم کو جواز ملتے دیکھ کر خوش ہوتے ہوں گے۔ اس واقعے کے بعد بھی نسلی پراپیگنڈے کے ذریعے اپنی جارحیت کی حمایت میں اضافہ کیا جائے گا۔ بلوچستان کی جس تنظیم نے ''بلوچ کے حقوق‘‘ کے نام پر یہ ظلم کیا ہے اس نے بلوچستان کے محنت کشوں اور نوجوانوں کی پیٹھ میں خنجر گھونپا ہے، ان کی قربانیوں کو رائیگاں کرڈالنے کی مکروہ کوشش کی ہے۔ بلوچستان کے قومی استحصال کے ذمہ دار کیا پنجاب میں سیلابوں سے اجڑکر پردیس میں روزی کمانے والے یہ مزدور تھے؟ کارل مارکس اور فریڈرک اینگلز نے کمیونسٹ مینی فیسٹو میں لکھا تھا:''مزدوروں کا کوئی وطن نہیں ہوتا اور جو ان کے پاس ہے ہی نہیں وہ ان سے کوئی چھین نہیں سکتا‘‘۔ پاکستان کی کون سی قومیت ایسی ہے جس کے محنت کش روزی روٹی کمانے اور نوجوان تعلیم حاصل کرنے کے لیے ملک کے اندر یا باہرہجرت پر مجبور نہیں ہیں؟ ہر دیس کے مزدور روزگارکی تلاش میں پردیس کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔
اس قسم کی رجعتی قوم پرست تنظیموںکو ابھارنے اور فنانس کرنے والے بیوقوف نہیں ہیں۔ ان جرائم اور قتل عام کا مقصد بلوچ قوم کے حقوق یا آزادی کا حصول نہیں بلکہ بلوچستان کے انتشارکو بڑھاوا دینا اور مسلسل قائم رکھنا ہے تاکہ اس خطے کے وسائل پر ڈاکہ زنی کو آسان کیا جاسکے۔ آج کی صورت حال پر غورکیا جائے تو بلوچستان کی معدنی دولت وہاں کے باسیوں کے لیے عذاب مسلسل بن گئی ہے۔ مقامی، علاقائی اور عالمی گدھ ان معدنی ذخائرکو نوچنے کے لیے ایک دوسرے سے لڑ رہے ہیں اور اس لڑائی میں مختلف پراکسی گروہوں کا استعمال کیا جارہا ہے۔ بلوچستان کا حکمران طبقہ اور قبائلی سرداروں کے بیشتر دھڑے اس خونی کھیل میں مختلف سامراجی قوتوں کے اتحادی ہیں۔ ان حکمرانوں کے محلات میٹروپولیٹن شہروں کے ان پوش علاقوں میں ہی واقع ہیں جہاں بڑے حکمران رہتے ہیں۔ قوم پرستی کی سیاست کرنے والے یہ لیڈر اپنا زیادہ تر وقت ان پرتعیش آماج گاہوں میں اپنی''دشمن قوم‘‘کی اشرافیہ کے ہمراہ عیاشی کرتے ہوئے گزارتے ہیں۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ بلوچستان وسیع قدرتی وسائل رکھنے کے باوجود اس ملک کا سب سے محروم خطہ ہے۔ یہاں کے باسی طبقاتی استحصال کے ساتھ ساتھ قومی اور سماجی استحصال کے بھی شکار ہیں۔ مختلف ادوار میں کبھی مفاہمت، کبھی مذاکرات تو کبھی مسلح جدوجہد کے ذریعے اس استحصال سے نجات حاصل کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ پاکستان کے حکمران طبقات کبھی ریاستی جبر تو کبھی بلوچ بالادست طبقے کو دولت اورطاقت کے عوض خریدکر اپنی کارروائی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ جبر بھی جاری رہا ہے اور آئینی ترامیم کے ذریعے کھوکھلی اصلاحات بھی کی گئی ہیں۔ ایک کے بعد دوسرے ''بلوچستان پیکج‘‘ کی جعل سازی بھی جاری رہی لیکن بلوچ عوام کی محرومی کم ہونے کی بجائے بڑھتی ہی گئی ہے۔ قومی سوال حل ہونے کی بجائے زیادہ شدت سے بھڑکنے لگا ہے۔ اتنی جدوجہد اور قربانیوں کے باوجود بھی کچھ حاصل نہیں ہوا۔
سوال یہ ہے کہ دوسری قوم یا صوبوں کے غریب لوگوں کو قتل کرنے سے ملکی، علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر بلوچ عوام کی جدوجہدکی حمایت بڑھے گی یا لوگ اس سے متنفر ہوںگے؟ تاریخ کا سبق یہ ہے کہ طبقاتی بنیادوں پر دوسری قوموں اور قومیتوں کے مظلوم طبقات کو اپنے ساتھ جوڑکر ہی حکمران طبقے کی سیاسی اور ریاستی طاقت کو شکست دی جاسکتی ہے۔ قومی آزادی یا خودمختاری کی جدوجہدکو طبقاتی جدوجہد کے ساتھ منسلک کر کے ہی وہ انقلابی تحریک برپا کی جاسکتی ہے جو اس نظام زر کا خاتمہ کر سکے۔ محنت کش عوام جب تاریخ کے میدان میں اترتے ہیں تو رائج الوقت معیشت، معاشرت، سیاست اور ریاست کو مفلوج کر کے پورے نظام کو اکھاڑ پھینکتے ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام کی اساس ہی ملکیت کا تصور اور پھر اس ملکیت کی بنیاد پر استحصال اور لوٹ مار ہے۔ اس نظام کے خاتمے سے جب ملکیت کا تصور مٹے گا تو دوسری قوموں اورخطوں کو اپنے تسلط میں رکھنے اور اثاثوں کے انبار لگانے کی انسان دشمن نفسیات بھی مٹ جائے گی۔