سوات پر صوفی محمد اور مولوی فضل اللہ کی ''تحریک نفاذ شریعت محمدی‘‘ کا قبضہ ''سرکاری طور‘‘ پر تو شاید پانچ سال پہلے ختم ہو گیا تھا لیکن یہاں کی سماجی زندگی آج بھی بنیاد پرستوں کے ہاتھ میں یرغمال ہے، خاص طور پر مالاکنڈ میں سرمایہ دارانہ نظام کو چیلنج کرنے والے ہر نظریے، ہر فلسفے کو ''کفر‘‘ قرار دے دیا گیا ہے۔ 20 اکتوبر کو ایک مقامی رہنما نے فتویٰ جاری کیا کہ سوشلزم کا نام لینا کفر ہے۔ فسطائیت کے بھیانک سائے نے ایک 23 سالہ خوبرو نوجوان ساجد عالم کی ٹریفک حادثے میں المناک موت کے بعد علاقے کو پھر سے اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ ساجد عالم نے 7اکتوبر کو ٹریفک حادثے کا شکار ہونے کی کچھ عرصہ قبل ہی سرحد یونیورسٹی سے الیکٹرانک انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کی تھی۔
حادثے میں ساجدکے سر پرگہری چوٹ آئی تھی۔ بروقت طبی امداد کے ذریعے ساجد عالم کی جان بچائی جاسکتی تھی لیکن پورے ضلع کے کسی ہسپتال میں نیورو سرجیکل یونٹ ہی موجود نہ تھا۔ یہ تلخ حقیقت پختونخوا میں ''تبدیلی‘‘ لانے اور ''نیا پاکستان‘‘ بنانے میں مصروف تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کی مخلوط حکومت کا تضاد بے نقاب کرنے کے لئے کافی ہے۔ پشاورکے ایک پرائیویٹ ہسپتال میں صرف وینٹی لیٹر کے لئے ہی لاکھوں روپے درکار تھے۔ اس مہنگے علاج اور تمام تر کوششوں کے باوجودساجد کی زندگی نہیں بچ سکی۔اس کا خاندان اور دوست ابھی صدمے میں ہی تھے کہ مقامی قیادت اور جاگیرداروں نے مرنے والے نوجوان اور اس کے ساتھیوں کے خلاف الزام تراشی کی مہم شروع کر دی۔ مساجد کے لائوڈ سپیکروں اور ایس ایم ایس کے ذریعے پروپیگنڈا کرنے کاسلسلہ تاحال جاری ہے۔
ساجد کا گائوں مولوی فضل اللہ کے سابق ہیڈکوارٹر اور ریڈیو سٹیشن کے نواح میں واقع ہے۔ اسی ریڈیو سٹیشن سے وہ روزانہ کی بنیاد پر ترقی پسند نظریات رکھنے والے مختلف افراد کو قتل کرنے کی دھمکیاں، فتوے اور احکامات جاری کیا کرتا تھا۔ ساجد عالم اور اس کے انقلابی ساتھی مذہبی بنیادپرستی اور امریکی سامراج کے خلاف اپنے بے باک موقف پر قائم رہے۔ یہ لوگ طالبان کی وحشت کے باوجود علاقے سے فرار نہیں ہوئے اور فوجی آپریشن کے دوران بے گھر ہونے والے افراد کی مدد کے لئے دن رات ایک کر دیا۔ یہ وہ وقت تھا جب نام نہاد ''سیکولر‘‘ اور ''لبرل‘‘ پارٹیوں کے لیڈر عوام کو ان کے حال پر چھوڑ کے سوات سے بھاگ نکلے تھے۔
ساجد عالم بہت کم عمری میں مارکسزم کا مطالعہ کر کے انقلابی سوشلسٹ بن گیا تھا۔ پشاور میں اپنی یونیورسٹی تعلیم کے دوران بھی وہ طلبہ کو سرمایہ دارانہ نظام کے جبر و استحصال کے خلاف سیاسی طور پر منظم کرنے کے لئے انتھک جدوجہد کرتا رہا۔ ساجد عالم گھٹن، جمود اور خود غرضی کے اس عہد میں طلبہ کی نظریاتی تربیت کے لئے عالمی معاشی بحران، سامراجیت،فلسفے اور محنت کش طبقے کی سیاست جیسے موضوعات پر سٹڈی سرکل منعقد کرتا جن میں درجنوں طلبہ تبادلہ خیال کرتے۔ یونیورسٹی کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد اس نے مالاکنڈ واپس آکر انقلابی سیاست جاری رکھی۔ ساجد نے اپنی جوانی اور زندگی سوشلسٹ انقلاب کے لئے وقف کر دی تھی۔ انہی سرگرمیوں کی وجہ سے وہ مقامی قیادت اور مذہبی بنیاد پرستوں کو کانٹے کی طرح کھٹکتا تھا۔
ساجد کی المناک موت کے بعد فتووں کا سلسلہ تھمنے کی بجائے زیادہ شدت اختیار کر گیا کیونکہ انتہا پسند اس حقیقت سے اچھی طرح واقف ہیں کہ ایک فرد مرا ہے، نظریہ نہیں۔ ساجد نے سچائی کے جو بیج اپنی زندگی میں بوئے تھے وہ اب تناور درخت بن چکے ہیں۔آج کل مذہب کے یہ بیوپاری ساجد عالم کو ''نشان عبرت‘‘ بنانے کی سرتوڑ کوشش کر رہے ہیں۔ انتہا پسندوں کے تمام تر زہریلے پروپیگنڈے اور دھمکیوں کے باوجود ساجد عالم کے ساتھیوں نے اسی علاقے کے ایک گرائونڈ میں کچھ دن پہلے ایک تعزیتی ریفرنس کا انعقاد کیا جس میں علاقے کے سینکڑوں نوجوانوں اور محنت کشوں نے شرکت کی۔ اس موقع پر مرحوم نوجوان کے استاد محمد صابر نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا تھا کہ ''ساجد کئی طریقوں سے اپنے ہم عمر طلبہ سے مختلف تھا۔ وہ شاعری اور لٹریچر میں دلچسپی رکھنے والا ایک سنجیدہ نوجوان تھا جسے استحصال، معاشی ناہمواری اور ظلم سے شدید نفر ت تھی‘‘۔
ان ہتھکنڈوں کی ایک اہم وجہ پختونخوا کی صوبائی حکومت میں شراکت داری بھی ہے۔ ''تبدیلی‘‘ کے تمام تر نعرے ہوا ہوچکے ہیں، غریب عوام کی غربت، محرومی اور ذلت میں کوئی کمی نہیں آئی ہے اور کرپشن اپنے عروج پر ہے، تحریک انصاف کے ساتھ ساتھ بعض دوسری جماعتوں کی سماجی بنیادیں بھی سکڑتی چلی جارہی ہیں؛ چنانچہ حقیقی مسائل سے عوام کی توجہ ہٹانے اور سماج کی پسماندہ پرتوں کی حمایت حاصل کرنے کے لئے مذہبی جنون اور فرقہ واریت کو ہوا دی جارہی ہے۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد مسلمان آبادی والے ممالک میں ابھرنے والے سوشلزم اور بائیں بازوکے سیاسی رجحانات کو سبوتاژکرنے کے لئے سی آئی اے نے خود بنیاد پرستی کو پروان چڑھایا تھا۔ اس سامراجی پالیسی کا نقطہ عروج افغانستان کا جہاد تھا جس میں منشیات کے اربوں ڈالر لگا کر جہادی گروہ کھڑے کئے گئے۔ لیکن گزشتہ کچھ عرصے میں 'پولیٹیکل اسلام‘‘ کے رجحانات بڑی حد تک ماند پڑ چکے ہیں اور آئی ایس آئی ایس جیسی فسطائی قوتیں منظر عام پر آئی ہیں جن کے سامنے ماضی کے خونخوار جہادی گروہ بھی ''مہذب‘‘ معلوم ہوتے ہیں۔ بعض جماعتیں کسی زمانے میں ایک نظریاتی ہوا کرتی تھی لیکن سرمائے کی سرایت اور اقتدار میں حصہ داری نے دوسرے سیاسی جماعتوں کی طرح اسے بھی ''کمرشلائز‘‘ کر دیا ہے۔ ان حالات میں اپنے نوجوان کارکنان کے زیادہ شدت پسند قوتوں کی طرف بڑھتے ہوئے رجحان سے پریشان ان جماعتوں کی قیادت خاصی پریشان ہے اور مالاکنڈ کے واقعات اسی ''پریشانی‘‘ کا شاخسانہ ہیں۔
ایناتول لیون اپنی کتاب ''پاکستان: ایک مشکل ملک‘‘ میں لکھتا ہے کہ ''تحریک نفاذ شریعت محمدی (ٹی این ایس ایم) کی بڑھوتری میں اہم کردار متحدہ مجلس عمل کی صوبائی حکومت نے ادا کیا تھا۔ ایم ایم اے کا نامزد کمشنر مالاکنڈ طالبان کا حمایتی تھا اور ٹی این ایس ایم کے خلاف ہر راست اقدام کی مخالفت کرتا رہا۔ اسے مئی 2009ء میں طالبان کی مدد کے الزام میں گرفتار کیا گیا لیکن مجھے کچھ لوگوں نے بتایا کہ اسے قربانی کا بکرا بنایا گیا تھا کیونکہ وہ حکومت کی پالیسی ہی نافذ کر رہا تھا۔ اسے اکتوبر 2009ء میں رہا کر دیا گیا‘‘۔ یاد رہے کہ مشرف دور میں جماعت اسلامی متحدہ مجلس عمل حکومت میں اہم حصہ دار تھی۔
ملائوں نے 24 اکتوبر کی نماز جمعہ میں شریک لوگوں کو مشتعل کر کے ساجد عالم کے خاندان اور ساتھیوں پر ہلہ بولنے کی منصوبہ بندی کی تھی لیکن طاقت کا توازن ان کے حق میں نہ تھا۔اس ہزیمت کو چھپانے کے لئے ایک ایسے آدمی کو اس معاملے پر ''غور‘‘ کرنے کو کہا گیا‘ جس کے آبائو اجداد نے برطانوی راج کے دور میں غریب کسانوں کی زمینوں پر قبضے کئے تھے جس کے بعد سے یہ جاگیر دار خاندان جبراور خوف کے ذریعے ریاستی مشینری کی سرپرستی میں اپنا تسلط قائم رکھے ہوئے ہے۔
ساجد عالم کے ساتھیوں اور خاندان کی زندگیاں اور املاک تاحال خطرے میں ہیں۔ جاگیر دار اشرافیہ کی پشت پناہی سے بنیاد پرست اور مذہبی جنونی عناصر پروپیگنڈا اور فتووں کی مہم جاری رکھے ہوئے ہیں۔ لیکن ان تمام تر خطرات اور بہتانوں کے باوجود مالاکنڈ کے انقلابی اس طبقاتی چپقلش کو خون کے آخری قطرے تک لڑنے کے عزم پر قائم ہیں۔