پچھلے ڈیڑھ سال کے دوران اس ملک میں معیشت اور معاشرت کی طرح سیاست کی تنزلی بھی بڑھی ہے۔ چوہدری شجاعت اور قائم علی شاہ جیسے چند ایک سیاستدان ہی ایسے رہ گئے ہیں جن کے مزاح میں تھوڑا دم باقی ہے۔ سنجیدہ بات کرنے والوں کی بات کو سنجیدگی سے نہیں لیا جاسکتا، ان کے وعدوں، دعووں اور پالیسیوں پر سے عوام کا اعتماد عرصہ پہلے اٹھ گیا ہے۔ عوام کی سیاست میں دلچسپی بڑی سطحی سی ہے، کوئی غیر معمولی سیاسی تحرک موجود نہیں ہے اور جعلی تحرک پر سماج کی وسیع اکثریت توجہ نہیں دیتی۔
اس نظام کی حدود و قیود میں ہونے والی سیاسی تبدیلیوں سے عوام اکتا سے گئے ہیں۔ٹھوس اصلاحات ممکن ہی نہیں رہی ہیں۔ مختلف سیاسی رہنمائوں کی مجوزہ اصلاحات بعض اوقات مذاق معلوم ہوتی ہیں، سماج کی کچھ پرتوں نے ان سے جو امیدیں وابستہ کی ہیں ان میں بھی تڑپ اور بے چینی کا عنصر زیادہ غالب ہے۔ مئی 2013ء کے انتخابات میں سیاسی گرما گرمی بھی بڑی نحیف سی تھی،نظرئیے سے عاری انتخابی مہم زیادہ تر پیسے کے بل پر چلائی گئی تھی جس میں سیاسی کارکنان اور عوام کی شمولیت نہ ہونے کے برابر تھی، جیتنے والوں کی خوشی کھوکھلی تھی اور ہارنے والوں صرف ''سرمایہ کاری‘‘ ڈوبنے کا غم تھا۔
اقتدار سنبھالنے کے کئی دنوں بعد ہی نواز شریف اپنے چہرے پر مصنوعی مسکراہٹ سجا پائے۔ پہلی نشری تقریر میں ان کی باڈی لینگویج فراز کے اس مصرعے کے مصداق تھی کہ ''اڑنے سے پیشتر بھی میرا رنگ زرد تھا۔‘‘پانچ سال پورے ہونے پر زرداری کی مسکراہٹ میں ضیاالحق کا عکس بڑا واضح تھا، یہ اطمینان کی ہنسی تھی جیسے کوئی شخص واردات کرکے صاف بچ نکلا ہو۔ پھر مطلوبہ حصہ داری نہ ملنے پر اس کاروبارِ سیاست میں شریک کچھ دھڑوں کی بے صبری پھٹ پڑی۔ لانگ مارچ اور دھرنوں کا کھیل شروع ہوا۔ اقتدار حاصل نہ کر سکنے والے سرمائے کے جغادریوں نے عجلت میں اپنی تجوریوں کے منہ کھول دئیے۔ اشتہار سازی،ٹینٹ سروس، ،لائوڈ سپیکر، ٹرانسپورٹ اور بینڈ باجے والوں کی خوب چاندی ہوئی۔ اسی بہانے الیکٹرانک میڈیا، موبائل کمپنیوں اور ہائوسنگ سکیموں کے علاوہ بھی کوئی کاروبار چالو ہوا۔ دھرنوں کے شرکا بھی خوب پکنک مناتے رہے۔
اس نظام کا اقتدار بھی اتنا کھوکھلا ہو گیا ہے کہ برسر اقتدار حکمران اس جعلی سی تحریک سے بھی ڈر گئے۔جبر کرنے کی صلاحیت تھی نہ اقتدار چھوڑ سکتے تھے۔ دوسری طرف دھرنوں میں بھی حکومت کو اکھاڑنے کی طاقت موجود نہ تھی، کنٹینر ہٹا کر کنٹینر آگے بڑھتے رہے، میڈیا گروپوں کی آپسی لڑائی سے برآمد ہونے والی مبالغہ آرائیوں نے جنگ کا سا نقشہ کھینچ دیا۔ کھودا پہاڑ، نکلا چوہا۔آخری کنٹینر ہٹے تو ویران ایوان بھوت بنگلوں کا منظر پیش کر رہے تھے۔ اندر بیٹھے حکمران ایسے ''خفیہ اجلاس‘‘ کر رہے تھے جیسے ضیاالحق کے دور میں مارکسسٹ سٹڈی سرکل ہوا کرتے تھے۔ دھرنے کروانے والے شاید حکومت سے زیادہ پریشان تھے کہ اس سے آگے کرنے کو کچھ بچا نہیں تھا۔ حکومت اگر جبر کرنے کے قابل نہ تھی تو دھرنے کسی ریاستی جبر سے ٹکرا نہیں سکتے تھے۔ ایک تماشا تھا سو چلتا رہا۔ ہر عہد کے صدا بہار شاعر مرزا اسداللہ خان غالب نے مدتوں پہلے کیا خوب تناظر بنایا تھا کہ ؎
بازیچہ اطفال ہے دنیا مرے آگے
ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے
ریاستی دھڑوں کی اس سیاسی پراکسی وار میں بہت کچھ پہلے سے ہی طے تھا۔ ریاستی مشینری دھرنوں کو کچلنے نہیں بلکہ تحفظ فراہم کرنے آئی تھی کیونکہ ریاست اور نظام کو ان سے کوئی خطرہ لاحق نہ تھا۔ منڈی کی معیشت عمران خان اور طاہرالقادری کو بھی نواز لیگ یا حاوی سیاست کی کسی دوسری پارٹی کی طرح ہی دل و جان سے عزیز ہے۔دھرنے والوں کا نسخہ بھی تو ''بیرونی سرمایہ کاری‘‘ہی ہے اور سرمایہ کاری کی اس پالیسی کو نجکاری کی اتنی ہی ضرورت ہے جتنی مچھلی کو پانی کی۔ لہٰذا ریاست نے اس وقت بھی جبر نہیں کیا جب اشتعال انگیزی کے لئے پولیس کی حراست سے ''بزور بازو‘‘ کارکنان کو آزاد کروایا گیا۔ لیکن کسی اور طبقے کی طرف اسی ریاست کا رویہ بڑا مختلف تھا۔ او جی ڈی سی ایل کی نجکاری کے خلاف اسلام آبادمیں احتجاج کرنے والے محنت کشوں پر ریاستی اداروں نے جس سفاکی سے تشدد کیا اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ اس حاکمیت کا طبقاتی کردار اور مقاصد کیا ہیں۔ بچے کھچے دھرنے والے اس تشدد کے تماشائی تھے۔
یہ لانگ مارچ، دھرنے، جلسے ، بڑھکیں اور بہتان دراصل دولت کی بندر بانٹ پر ایک ہی حکمران ٹولے کے مختلف دھڑوں کی آپسی لڑائی کا اظہار ہیں جو سکڑتی ہوئی معیشت میں شدت اختیار کرتی جارہی ہے۔ پاکستان کے حکمران طبقے اور ریاست کو شاید ان تماشوں کی ضرورت بھی ہے۔ اگر دھرنوں کا ناٹک نہ رچایا جائے، پارلیمنٹ میں بے مقصد بحثیں نہ ہوں، جوڈیشل ایکٹوزم کی پھلجھڑیاں نہ چھوڑی جائیں اور سب سے بڑھ کر میڈیا ان تماشوں کی یلغار کے ذریعے سماجی شعور کو مسلسل مسخ نہ کرے تو ذلت، اذیت اور محرومی کے خلاف عوام کے دل و دماغ میں پکنے والا لاوا پھٹ بھی سکتا ہے۔
محنت کش طبقے کے سلگتے ہوئے مسائل کو دبانے کے لئے مڈل کلاس کے ایشوز دانستہ طور پر ابھارے جاتے ہیں۔ اس وقت ملکی سیاست کے موضوعات، انداز اور طریقہ کار پر درمیانے طبقے کی چھاپ واضح ہے۔ دوسرے الفاظ میں ڈھائی تین کروڑ لوگوں کے گرد سیاست کا یہ بازار گرم ہے اور باقی کے 17کروڑ ان سیاسی تماشوں سے بے بہرہ بھی ہیں‘ اس نظام زر کے ہاتھوں برباد بھی۔ بجلی اور گیس کے بلوں اور لوڈ شیڈنگ نے ہی آبادی کی اکثریت کو نڈھال کررکھا ہے۔ حکمران طبقے اور ''سول سوسائٹی‘‘ کی نظر میں یہ ان پڑھ اور ''جاہل‘‘ محنت کش عوام اعلیٰ یونیورسٹیوں کے بہت سے ڈگری یافتگان سے زیادہ باشعور اور عقل مند ہیں۔ لیکن ان کی سوچ اور پرکھ کو نکھار کر میدان عمل میں اتارنے والی سیاسی قوت اس وقت افق پر نمایاں نہیں ہے، جو تھی اس کے لیڈر انہیں بے یارومددگار چھوڑ کر دولت اور مراعات کے لئے مفاد پرستی اور اصلاح پسندی کی دلدل میں غرق ہوگئے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ حکمران طبقے کے یہ تماشے، جعلی گرفتاریاں اور ''قربانی‘‘ کے ناٹک کب تک چل سکیں گے؟ اس ملک کی سیاست اور میڈیا میں محنت کشوں کے مسائل کو صرف استعمال کیا جاتا ہے۔ ان ذلتوں سے نجات دینے والے نظریات کو گالی اور تضحیک بنا دیا گیا ہے اور پھر شکوہ کیا جاتا ہے کہ ''عوام اٹھتے کیوں نہیں۔‘‘محنت کش عوام بے شعور ہیں نہ بے غیرت ہوئے ہیں۔وہ اپنی روایت کے مارے ہوئے ہیں، غداریوں کے زخموں سے گھائل ہیں لیکن ہمیشہ نہیں رہیں گے۔ جانتے سب کچھ ہیں، کچھ کر گزرنے کی ہمت صرف اس لئے نہیں کر پا رہے ہیں کہ نجات کی منزل تک کا راستہ اور رہنمائی ابھی آشکار نہیں ہوئی ہے۔
محنت کش طبقہ مڈل کلاس کی طرح بے صبرا اور موقع پرست نہیں ہوتا۔ وہ روز روز پارٹیاں تبدیل کرتا ہے نہ تحریکیں برپا کرتا ہے۔ معاشی جبر اور حالات اسے اجازت نہیں دیتے کہ مشغلے اور ''ایڈونچر‘‘ کے طور پر سیاست کرتا پھرے۔طبقاتی نظام کا استحصال اور جبر اسے وہ پیش بینی اور ادراک عطا کرتے ہیں جو دنیا کی کسی یونیورسٹی میں نہیں سیکھا جاسکتا۔ محنت کشوں کے جذبے سچے، رشتے مضبوط اور ارادے غیر متزلزل ہوتے ہیں۔ یہ عزم اور ارادہ لے کر غیر معمولی ادوار میں جب وہ میدان سیاست میں بطور طبقہ اترتے ہیں تو آخری وقت تک لڑتے ہیں اور تاریخ کے دھارے موڑ دیتے ہیں۔ انقلابات کی تاریخ اس مظہر کی گواہ ہے۔یہ درست ہے کہ آج کے نیم رجعتی عہد میں جمود اور مایوسی نے سماج کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ کوئی بھی سماجی و معاشی نظام اپنی متروکیت کے عہد میں ایسی ہی کیفیات کو جنم دیتا ہے۔ لیکن سیاسی جمود، معاشی زوال اور معاشرتی پراگندگی کی یہ صورتحال زیادہ عرصہ تک برقرار نہیں رہ سکتی۔ شب و روز کے یہ تماشے بہت ہوگئے۔پچھلے کچھ عرصے کے دوران مختلف اداروں میں چلنے والی تحریکیں پتہ دیتی ہے کہ حالات محنت کش عوام کو جھنجھوڑ رہے ہیں۔ یہ محنت کش جب تاریخ کے میدان عمل میں اتریں گے تو روز روز کی موت کے خلاف زندگانی کی جدوجہد کا آغاز ہوگا۔معروض کی حدت اور انقلابی واقعات کی ضربوں سے ہی انقلاب کا وہ سیاسی اوزار تیار ہو گا جو سرمائے پر فیصلہ کن ضرب لگا کر اس معرکے میں محنت کش کو فتح یاب کرے گا۔