حکمران طبقے کی سیاست کا بازار آج کل خوب گرم ہے۔ حکمرانوں کا وہ دھڑا اقتدار میں ہے جس نے اپنی کاروباری مہارت استعمال کرتے ہوئے انتخابات میں ریاست کے پرزوں کو کامیاب طریقے سے استعمال کیا۔ اقتدار نہ حاصل کر سکنے والا دوسرا دھڑا اپنی سرمایہ کاری ڈوبنے پر ماتم کناں ہے اور برسر اقتدار دھڑے کی راہ میں رخنہ ڈال رہا ہے۔ اس کاروباری سیاست کے''حزب اقتدار‘‘ اور ''حزب اختلاف‘‘ داخلی طور پر بھی بالکل اسی طرح ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں جیسے دہشت گردی کے کاروبار میں ''طالبان‘‘کے مختلف دھڑے آپس میں برسرپیکار۔
عوام میں مقبولیت حاصل کرنے کے لئے طرح طرح کے روپ دھارے جارہے ہیں لیکن تمام تر بہتان زنی اور چرب زبانی کے باوجود حکمران طبقے کے سیاسی نمائندگان کے معاشی نظریات اور اقتصادی پروگرام یکساں ہیں۔ عوام مایوس ہیں لیکن اس سے کہیں زیادہ ششدر۔ سماجی جمود کے ایسے ادوار میں بالادست طبقے کی اخلاقیات اور اقدار معاشرے کی ثقافت اور سیاست پر حاوی ہوتی ہیں۔ حکمران بڑی بڑی گاڑیوں سے دولت اور ''پارسائی‘‘ کی نمائش کرتے ہیں۔ محلات، پرتکلف ضیافتوں، ذاتی محافظوں کی فوج اور اسلحے کی دہشت سے اپنی دھاک سماج پر بٹھاتے ہیں۔ دوسری طرف محنت کش عوام کو رجعت کے ایسے تاریک ادوار میں امید کی کوئی کرن نظر نہیں آتی تو وہ طرح طرح کے سماجی تعصبات میں سہارے تلاش کرنے لگتے ہیں۔ کبھی خاندان کے ادارے کا سہارا لیتے ہیں اور اپنے دکھ ان رشتوں میں بانٹنے کی کوشش کرتے ہیں جن کے اپنے بڑے دکھ ہوتے ہیں۔ معاشی بدحالی اور محرومی کا سب سے زیادہ شکار بننے والے زیریں متوسط اور محنت کش طبقے کے خاندانوں میں مصائب اور غم کے سوا کیا مل سکتا ہے؟
خاندان جب سہارا نہیں بن پاتا تو نسل اور برادری میں پناہ تلاش کی جاتی ہے۔ ریاستی بیورو کریسی اور کاروباری طبقے میں ذات برادری کی بنیاد پر ایک دوسرے سے کام نکلوانے کا رواج ہے۔ جاگیر داری کی باقیات رکھنے والے پاکستان جیسے پسماندہ ممالک کے حکمران ویسے بھی اپنے ''خاندانی‘‘ ہونے کا بڑا چرچا کرتے ہیں۔ مراعات یافتہ طبقات کی یہ نفسیات جب محنت کش طبقے میں سرایت کرتی ہے تو وہ ذات پات اور قبیلے کو لاشعوری طور پر اپنی پہچان بنا لیتے ہیں۔ پنجاب میں کوئی بٹ، کوئی راجپوت تو کوئی گجر بن جاتا ہے۔ بلوچستان میں مری، مینگل، اچکزئی اور بزنجو وغیرہ کے لاحقوں کو پہچان بنا لیا جاتا ہے۔ پختونخوا میں کوئی درانی تو کوئی خٹک ہوجاتا ہے۔ سندھ میں مہاجر اور سندھی کی تقسیم ہے اور پھر موخرالذکر میں چانڈیو، پلیجو، لنگاہ اور نہ جانے کتنے ہی قبیلے اور برادریاں ہیں۔ حکمران ہر جگہ نسل، قبیلے اور ذات کی اس تفریق کو اپنے سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ انتخابی مہمات میں تو اس بنیاد پر باقاعدہ ووٹ لئے جاتے ہیں۔ مظلوم قومیتوںکے محنت کش قومی حقوق یا آزادی کی تحریکوں سے آس لگاتے ہیں لیکن حاکم اور محکوم طبقات کی تفریق یہاں بھی موجود ہے۔ قوم پرستی بھی طبقاتی نظام کے جبر کے سامنے ڈھیر ہوجاتی ہے۔
تقسیم اور تعصب یہیں ختم نہیں ہوتا۔ پہلے چند ایک بڑے مسالک ہوا کرتے تھے لیکن مذہبی فرقوں کے منافع بخش کاروبار کے ساتھ فرقوں کی تعداد بھی بڑھی ہے۔ فرقوں کے اندر سے فرقے برآمد ہورہے ہیں۔ خاندان اور قبیلہ برادری کی پہچان جب زندگی میں کوئی آسودگی نہیں دے پاتی تو محنت کش فرقہ واریت کا رخ کرتے ہیں۔ ان ہی میں عافیت تلاش کی جاتی ہے۔ یہ راستہ نوجوانوں کو کہیں سے کہیں لے جاتا ہے۔ پیروں فقیروں کی بھی کمی نہیں جو اپنے مریدوں کو مالی اور سیاسی مفادات کے لئے خوب استعمال کرتے ہیں۔ حکمران اس فرقہ واریت سے اپنی رعایا کو تقسیم رکھتے ہیں تو مذہب کے ٹھیکیدار اپنے کاروبار چلاتے ہیں۔ آگ تھوڑی ٹھنڈی پڑنے لگے تو فرقہ وارانہ فسادات کا تیل چھڑک دیا جاتا ہے۔
تاریخی طور پر سرمایہ دار طبقے کا سب سے پہلا اور اہم فریضہ ایک یکجا قوم اور جدید قومی ریاست کی تشکیل تھا۔ یورپ اورکچھ دوسرے خطوں میں سرمایہ دارانہ نظام نے اپنے ''شباب‘‘کے دوران( 18ویں اور 19ویں صدی میں) اس فریضے کو بڑی حد تک پورا کیا۔ پاکستان جیسے ممالک کے سرمایہ دار ہی جعلی تھے۔ یہ
انگریز سامراج کا پیوند کردہ طبقہ تھا جو مغرب کی طرح جاگیرداری کے خلاف صنعتی یا قومی جمہوری انقلاب برپا کر کے سماج پر غالب نہیں ہوا تھا۔ اسی لئے تاریخی طور پر تاخیرزدہ، معاشی طور پر نحیف، تکنیکی طور پر پسماندہ اور نفسیاتی طور پر رجعتی یہ حکمران طبقہ جدید صنعتی سماج اور قومی ریاست کی تعمیر میں ناکام رہا۔ رنگ برنگ کی مسلم لیگوں سے لے کر آج کی تحریک انصاف تک، سرمایہ دار طبقے کی مختلف دھڑوں کی نمائندہ سیاسی جماعتیں ''پاکستانیت‘‘ کا پرچار کرتی ہیں، اس نظریے کو ریاستی آشیر آباد بھی ہمیشہ حاصل رہی ہے لیکن جس معاشی نظام کی بنیاد پر یہ سیاست اور ریاست کھڑی ہے وہ ملک کے مختلف حصوں میں درکار صنعتکاری، مساوی ترقی اور بہتر معیار زندگی فراہم کرنے سے قاصر ہے۔
محنت کش طبقے نے پاکستانی بن کے دیکھ لیا ہے۔ نواز شریف، آصف زرداری اور عمران خان بھی پاکستانی ہیں اور بھٹے پر سولہ گھنٹے مشقت کرنے والا بھی پاکستانی ہے۔ لیکن حالات زندگی کو دیکھیں تو محسوس ہوتا ہے کہ یہ دو طبقات ایک ملک میں نہیں دو مختلف سیاروں پر بستے ہیں۔ ضیاء الحق بھی پاکستانی تھا اور ذوالفقار علی بھٹو بھی، تو پھر جھگڑا کیا تھا؟ جھگڑا یہ تھا کہ ضیاء الحق سرمایہ دارانہ نظام کے جارحانہ جبرکو جاری رکھنے کی سوچ کا نمائندہ تھا جبکہ بھٹو ایک دھماکہ خیز انقلابی تحریک میں انقلابی پارٹی کے خلا کو پر کرتے ہوئے سماج کو یکسر تبدیل کر دینے کی عوامی امنگوں کا ترجمان بن کر مسند اقتدار پر بیٹھا تھا۔ اور پھر
ایک دوسرے کے ہاتھوں شکار ہو گیا۔
جب بھی ماضی کے ان تعصبات اور گروہ بندیوں کو نئے طریقوں اور ''جدید‘‘ رنگ میں ابھارا جاتاہے، اس کا مقصد محنت کشوں کی یکجہتی کو توڑنا ہی ہوتا ہے۔ دوسری طرف محنت کش طبقے کے سامنے نجات کا کوئی راستہ، لائحہ عمل اور منزل واضح نہ ہوتو وہ ان جعلی پہچانوں اور فروعی تقسیموں میں بٹا رہتا ہے۔ لیکن گراوٹ اور پسپائی کا یہ عمل ہمیشہ جاری نہیں رہ سکتا۔ سماج بھلے ظاہری طور پر متحرک نہ ہو لیکن یہ سائنسی حقیقت ہے کہ انسانی شعور سمیت مادی کائنات کی ہر شے، ہر مظہر مسلسل ارتقا کی کیفیت میں ہے۔ مارکس کے بقول تبدیلی وہ واحد قانون ہے جو تبدیل نہیں ہوسکتا ؛ تاہم تغیر کبھی یکسانیت اور ایک ہی رفتار سے وقوع پذیر نہیں ہوتا۔ لمبے عرصے کی چھوٹی چھوٹی مقداری تبدیلیاں ایک مقام پر آکر یک لخت معیاری جست کی شکل میں اپنا اظہار کرتی ہیں۔ سماجی سائنس میں اس معیاری تبدیلی کو انقلاب کہتے ہیں۔ 1968-69ء میں پاکستان کے سماج نے بھی ایسی ہی انقلابی جست لگائی تھی اور ماضی کے تعصبات قصہ ماضی ہوگئے تھے۔ محنت کرنے والے محنت کے رشتے میں جڑ گئے تھے۔ محنت کشوں کو ان کی حقیقی طبقاتی پہچان مل گئی تھی کہ وہ آخر کون ہیں؟سماج کی تمام تر دولت پیدا کرنے والے، زندگی کو زندگانی دینے اور تہذیب و تمدن کو مادی بنیادیں فراہم کرنے والے انسان جن کا لہو، پسینہ اور آنسو حکمران طبقات اور سامراج صدیوں سے نچوڑ رہے ہیں۔ محنت کی طاقت اور طبقاتی جڑت کے اسی ادراک نے اس ملک میں اب تک کی سب سے عظیم بغاوت کو جنم دیا تھا جسے انقلابی فتح سے سرفراز کرنے کا فیصلہ کن معرکہ آج کی نسل پر ان کے پرکھوں کا قرض ہے!