"DLK" (space) message & send to 7575

’’تحریکوں‘‘ تلے دبی تحریکیں

عجب بے معنی شور نے پہلے سے معاشی اور سماجی عذابوں میں گھرے عوام کے کان مائوف کر دیے ہیں۔ ان جعلی تحریکوں کو بھلا کارپوریٹ میڈیا کے زور پر کب تک زندہ رکھا جا سکتا ہے؟ قادری صاحب فی الوقت ایک طرف ہو گئے ہیں‘ لیکن عمران خان حدود سے آگے بڑھ سکتے ہیں‘ نہ ہی واپسی اتنی آسان ہے۔ بھاری سرمایہ کاری سے تیارکردہ یہ سیاسی بُلبلہ وقت سے پہلے پھٹ جانے کے خطرات سے دوچار ہے۔ مذاکرات ابھی شروع نہیں ہوتے کہ تصادم ہو جاتا ہے‘ جس کے بعد پھر مذاکرات کی بات ہونے لگتی ہے۔ ریاست کا داخلی بحران جتنا پیچیدہ ہے، حکمران طبقے کی سیاست اتنی ہی لاحاصل۔ لوگوں نے اس بے وجہ کی سنسنی سے تنگ آ کر خبریں اور ٹاک شو دیکھنا ہی چھوڑ دیے ہیں۔ متن سے خالی اور بڑھکوں سے لبریز لمبی چوڑی تقاریر اور پریس کانفرنسیں سننے کے بعد انسان سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ ''موصوف کہنا کیا چاہتے تھے؟‘‘ سلگتے مسائل اور حقیقی ایشوز کا تذکرہ شاید ہی کبھی ہوتا ہو۔ مزدوروں، کسانوں اور نوجوانوں کی کتنی ہی تحریکیں ایسی ہیں‘ جنہیں میڈیا دفن کر دیتا ہے۔ 
پچھلے چند برسوں کے دوران محنت کش طبقات نے ملک کے طول و عرض میں کئی تحریکیں برپا کی ہیں۔ گلگت بلتستان میں گندم کی سبسڈی کے خاتمے کے خلاف لاکھوں افراد کے مظاہرے ہوئے۔ نوجوان ڈاکٹرز، نرسز اور لیڈی ہیلتھ ورکرز نے تنخواہوں میں اضافے، مستقل روزگار اور دوسرے مطالبات کے لئے جرأت مندانہ لڑائی لڑی۔ نجی اور سرکاری اداروں میں درجنوں بڑی ہڑتالیں ہوئیں۔ او جی ڈی سی ایل کے محنت کشوں نے نجکاری کے خلاف کامیاب بغاوت کی۔ شمالی وزیرستان کے ہزاروں پناہ گزین خوراک کی قلت کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے۔ کسانوں نے گنے کی قیمتوں میں اضافے کے لئے شوگر مل مافیا کے خلاف شاندار جدوجہد کی‘ لیکن محنت کشوں کی ان تحریکوں کو کارپوریٹ میڈیا مسلسل نظر انداز کرتا رہا۔ ''لانگ مارچ‘‘ دھرنوں اور ''انقلابات‘‘ کو ابھی تک ریاست کے پکے ہاتھ نہیں لگے۔ انہیں خبر ہی نہیں کہ ریاست کی سختی ہوتی کیا ہے۔ اسلام آباد میں جب محنت کشوں کے خلاف طاقت کا استعمال کیا جا رہا تھا تو یہ دھرنے تماشائی بنے بیٹھے تھے۔ لاہور اور پنجاب کے دوسرے شہروں میں نرسوں پر جو وحشیانہ لاٹھی چارج ہوا وہ ان ''انقلابیوں‘‘ پر ہوتا تو انہیں لگ پتا جاتا۔
خیبر پختونخوا میں جماعت اسلامی کے ہمراہ ''نیا پاکستان‘‘ بنانے میں مصروف تحریک انصاف کی صوبائی حکومت پولیس کو ''ٹھیک‘‘ کرنے کے دعوے تو بہت کرتی ہے لیکن 6 دسمبر کی صبح ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹانک اڈا کے غریبوں کے لئے کسی قیامت سے کم نہ تھی‘ جب ضلع کونسل نے قبضہ گروہوں کی ایما پر ''ریاستی رٹ‘‘ قائم کرنے کے لئے دہشت گردوں اور طالبان کی بجائے غریب ریڑھی بانوں کے خلاف آپریشن شروع کر دیا تھا۔ جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے وزیر بلدیات عنایت اللہ اور وزیر مال علی خان کی آشیرباد سے انتظامی افسران اور پولیس اہلکار عمارات گرانے والے ایکسی ویٹرز، ٹریکٹر ٹرالیوں، بندوقوں اور لاٹھیوں سے لیس ہو کر ریڑھی بانوں پر ٹوٹ پڑے۔ ''ناجائز تجاوزات‘‘ کے خلاف آپریشن کروانے والے یہ حضرات اس 84 کنال اراضی کو خود ہتھیانا چاہتے ہیں‘ جو بلدیہ نے وزیرستان کے پناہ گزینوں کو 2015ء تک لیز پر دے رکھی ہے اور کرایہ بھی وصول کیا جا چکا ہے۔ یہ جگہ کسی بھی قانون کے تحت ناجائز تجاوزات کے زمرے میں نہیں آتی۔ اس کے برعکس ضلع کونسل اور تحصیل کونسل کی کھربوں روپے کی اراضی پر سرکاری مُلّا، تحریک انصاف کی صوبائی حکومت کے چہیتے اور ارب پتی سرمایہ دار غیر قانونی طور پر قابض ہیں مگر کوئی پوچھنے والا نہیں۔
آپریشن کا آغاز چھوٹی دکانوں اور ریڑھی بانوں کے سامان کو بلدیہ کی گاڑیوں میں ڈالنے سے کیا گیا۔ سرکاری اہلکاروں اور ڈی سی او نے لیز کے کاغذات اور 2015ء تک جمع کرائے گئے کرائے کی رسیدیں دیکھنے سے انکار کر دیا اور دکانوں کو مسمار کرنے کا حکم دیا۔ چھوٹے دکانداروں نے جب اپنی اور اپنے بچوں کی روزی کو یوں لٹتے دیکھا تو خود کو دکانوں کے اندر محصور کر لیا اور کہا کہ وہ ان کے ملبے میں دفن ہو کر مرنا پسند کریں گے‘ مگر پیچھے نہیں ہٹیں گے‘ جس پر مسلح پولیس نے تشدد کا بازار گرم کر دیا۔ اس کی اطلاع جب محنت کش رہنما علی وزیر تک پہنچی تو وہ فوراً جائے وقوعہ پر پہنچ گئے اور ڈی سی او سے آپریشن معطل کرنے کا کہا‘ جس پر تلخ کلامی اور تصادم شروع ہو گیا۔ یاد رہے کہ علی نے 2013ء کے انتخابات میں این اے 42 وانا سے آزاد امیدوار کی حیثیت سے ''امن، تعلیم، روزگار‘‘ کے نعرے پر الیکشن جیتا تھا‘ لیکن بعد ازاں کچھ ''فیصلہ کن عناصر‘‘ کی ایما پر انہیں تین سو ووٹوں سے ہرا دیا گیا۔ عدالت میں چیلنج ہو جانے کے بعد یہ نتیجہ ابھی تک متنازع ہے۔
مقامی نوجوانوں اور محنت کشوں کی بڑی تعداد نے صوبائی حکومت کی کھلی ناانصافی اور پولیس گردی کے خلاف احتجاج شروع کر دیا اور حالات ضلعی انتظامیہ کے قابو سے باہر ہونے لگے۔ صورتحال کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے مذاکرات کے نام پر علی وزیر اور ان کے ساتھیوں کو گرفتار کر لیا گیا‘ جس کے رد عمل میں عوام نے پولیس پر پتھرائو شروع کر دیا۔ گرفتار ہونے والوں کو پہلے تھانے اور بعد ازاں دہشت گردوں کے لئے مخصوص ٹارچر سیل میں منتقل کر دیا گیا۔ گومل یونیورسٹی اور دیگر تعلیمی اداروں کے طلبہ کو جب علی وزیر کی گرفتاری کی اطلاع ملی‘ تو انہوں نے شہر کی شاہراہوں کو بند کر دیا اور احتجاج کا دائرہ وسیع ہونے لگا‘ جس سے خوفزدہ ہو کر ضلعی انتظامیہ نے انہیں ٹارچر سیل سے کہیں اور منتقل کر دیا اور سنگین جرائم کی ناقابل ضمانت دفعات کے تحت مقدمہ درج کر لیا گیا۔ اتوار کی چھٹی اور ناقابل ضمانت دفعات کے باوجود عدالت کے باہر جمع عوام اور وکلا کے جم غفیر کی جانب سے شہر کو مکمل بند کر دینے اور عدالتوں کے بائیکاٹ کی دھمکی کے باعث ضمانت منظور کرنا پڑی۔ ضلعی انتظامیہ کو بھی پسپائی اختیار کرنا پڑی جس کے بعد ریڑھی بان اور چھوٹے دکاندار مسمار ہونے والی املاک کی تعمیر نو کر رہے ہیں۔ صوبائی حکومت کی سرپرستی میں سرگرم بنیاد پرستوں کا لینڈ مافیا فی الوقت اپنے زخم چاٹ رہا ہے مگر یہ غریب دشمن رجعتی عناصر پلٹ کر وار ضرور کریں گے۔ 
یہ ہے ''کرپشن سے پاک نیا خیبر پختونخوا‘‘۔ پنجاب میں نواز لیگ کی حکومت ہو یا دوسرے صوبوں میں ''لبرل‘‘ اور ''سیکولر‘‘ پارٹیوں کا اقتدار، عوام کے مسائل کے ساتھ ساتھ ان کی تذلیل میں اضافہ ہی ہوتا چلا جا رہا ہے۔ ارب پتی خواتین و حضرات، جاگیرداروں، سرمایہ داروں، رجعتی ملائوں اور لینڈ مافیا پر مشتمل ''تبدیلی‘‘ کا نعرہ لگانے والی حکومت کا رویہ دوسری حکومتوں سے مختلف بھلا کیسے ہو سکتا ہے؟ یہ وہی ہے جس نے روٹی کا مطالبہ کرنے والے آئی ڈی پیز پر 13 نومبر کو گولی چلوائی‘ جس سے دو مظاہرین ہلاک ہو گئے۔ 
مقامی اور عالمی سطح پر ایسی بے شمار مثالیں ہیں‘ جب حکمران طبقے اور ریاست نے حقیقی تحریک کو زائل کرنے کے لئے کارپوریٹ میڈیا اور مڈل کلاس کے کچھ حصوں کے ذریعے جعلی تحریکیں پیدا کیں۔ پاکستان میں مارچ 2007ء کی وکلا تحریک کا مقصد اور کردار بھی یہی تھا‘ لیکن یہ مصنوعی تحریک ایک حقیقی تحریک کو روکنے میں ناکام رہی۔ 18 اکتوبر کو بینظیر کی وطن واپسی پر میڈیا کی ''مرضی و منشا‘‘ کے برخلاف طبقاتی بنیادوں پر ایک حقیقی تحریک ابھری اور لاکھوں افراد سڑکوں پر امڈ آئے۔ یہ الگ بات ہے کہ انقلابی قیادت اور پروگرام میسر نہ آنے پر بینظیر کے قتل کے بعد یہ تحریک زائل ہو گئی۔ 
ڈیرہ اسماعیل خان کا یہ واقعہ اپنے اندر بہت سے اسباق سمیٹے ہوئے ہے۔ محنت کش عوام اور نوجوان جب طبقاتی بنیادوں پر یکجا ہو کر استحصالی طبقے سے ٹکراتے ہیں‘ تو ریاست کا ننگا جبر بھی پاش پاش ہو جاتا ہے۔ انقلابی تحریکیں حکمران طبقے کی دانش اور ذرائع ابلاغ کے بل بوتے پر نہیں بلکہ ان کو چیر کر ابھرتی اور آگے بڑھتی ہیں‘ لیکن ایک خاص مقداری اور معیاری سطح پر پہنچ جانے کے بعد کارپوریٹ میڈیا بھی ان تحریکوںکو نظر انداز نہیں کر سکتا کیونکہ مقابلہ بازی کی منڈی میں منافع کمانے کے لئے یہ بھی ضروری ہو جاتا ہے! 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں