پشاور میں سکول کے بچوں کے قتل عام نے جہاں انسانی سماج کو لرزا کے رکھ دیا‘ وہاں غربت اور استحصال کے مارے اس ملک کے محنت کش عوام کی روح واحساس اور بھی گھائل ہو گئے ہیں۔ حکمران کو بھی شاید ''صدمہ‘‘ پہنچا ہو لیکن ان کی روش بدلی ہے نہ بدل سکتی ہے۔ اس طبقے کے عیش و عشرت اور شان و شوکت پرکوئی آنچ نہیں آئی۔ سرکاری محلات میں ''آل پارٹیزکانفرنس‘‘ اور دوسرے نمائشی اجلاسوں اور''اقدامات‘‘ پر کروڑوں روپے اڑائے جارہے ہیں۔ بجلی اورگیس کی لوڈ شیڈنگ کی اذیت کا اس اشرافیہ کو کوئی احساس نہیں ۔ مہنگائی کی تکلیف تو ویسے بھی غریبوں کے لیے ہوتی ہے۔ اعلیٰ ترین علاج سے لے کر مہنگی سے مہنگی تعلیم حکمرانوں اور ان کی اولادوں کی دسترس میں ہے، مصائب اور دکھ محنت کشوں کے لیے ہیں۔
ایک طرف بارودی دہشت گردی سماج کو تاراج کر رہی ہے تو دوسری طرف آبادی کی بھاری اکثریت معاشی اور سماجی دہشت گردی کا شکار ہے۔ نام نہاد جمہوریت ہو یا کوئی فوجی حکومت، معاشی دہشت گردی کرنے والے سرمایہ دار اور جاگیر دار طبقے کی حاکمیت ہمیشہ برقرار رہتی ہے۔ مدعی بھی وہی ہیں اور منصف بھی۔ غریبوں کے خون، پسینے اور آنسوئوں کے آخری قطرے نچوڑکر بھی اپنی تجوریاں بھرتے چلے جارہے ہیں۔ ''ترقی‘‘کے دعوے سنیں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ حکمران کسی اور ہی سیارے کی مخلوق ہیں۔ زمینی حقائق یہ ہیں کہ امیر، امیرتر ہو رہے ہیں اورکروڑوں انسان محرومی کی اتھاہ گہرائیوں میں دفن ہوتے چلے جارہے ہیں۔
پچھلے ہفتے جب مذہبی جنونیوں کی بارودی دہشت گردی کا دل سوز واقعہ پیش آیا تو معاشی دہشت گردی کی ایک رپورٹ بھی خبروں کے انبار میں کہیں گم ہوگئی۔ نیم سرکاری این جی اوزکے اعداد و شمار بھی حکومتی رپورٹوں کی طرح بڑی ''احتیاط‘‘ سے جاری کئے جاتے ہیں لیکن SDPIکی رپورٹ کے مطابق اس ملک میں 30 لاکھ انسان ہر سال خط غربت سے نیچے گر رہے ہیں، یعنی یہ نظام زر 8219 انسانوں کو ہر روز غربت میں غرق کر رہا ہے۔ اسی رپورٹ کے مطابق پچھلے سال آٹے اور بنیادی غذائی ضرورت کی قیمتوں میں 50فیصد اضافہ ہوا۔ ''دنیا نیوز‘‘ کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 413000 بچے ہر سال غربت اور قابل علاج بیماریوں سے مرتے ہیں یعنی معاشی دہشت گردی 1132بچوں کا قتل عام روزانہ کرتی ہے۔ ان بچوں کی مائوں میں بھی مامتا ہوتی ہے، ان کے سینے میں بھی دل دھڑکتاہے۔ کِھلنے سے پہلے مرجھا جانے والے یہ پھول اپنے والدین کے مستقبل کا سہارا ہوتے ہیں۔
اس المناک ملک میں 82 فیصد آبادی غیر سائنسی علاج کروانے پر مجبور ہے۔ 78 فیصد آبادی دو ڈالر یومیہ سے کم پر زندہ رہنے کی سزا کاٹ رہی ہے۔ غریب طبقات کی 265000 خواتین زچگی کے دوران نئی زندگی کو جنم دیتے ہوئے اپنی زندگی کی بازی ہار جاتی ہیں۔ ڈھائی کروڑ بچوں نے سکول کی شکل نہیں دیکھی۔ نظام تعلیم ایسا ہے کہ جو بچے سکول تک پہنچ بھی جاتے ہیں ان کی اکثریت پرائمری سے پہلے ہی بھاگ جاتی ہے۔ لاکھوں بچے بانڈڈ لیبر پر مجبور ہیں کیونکہ ان کے خاندان اپنے پرکھوں کا قرض اتارنے کے لیے نسل در نسل سود خوروں کے زنجیروں میں جکڑے ہیں۔ فروغ تعلیم اور بانڈڈ لیبر سے آزادی کے نام پر دیا گیا ''نوبل انعام‘‘ اس نظام میں بچوں کو تعلیم دلا سکتا ہے نہ ہی یہ گروی بچے اس جبری مشقت سے آزاد ہو سکتے ہیں۔ نوبل انعام دینے والے سامراجی آقا، وحشت پر مبنی اس نظام کے سب سے بڑے علمبردار اور محافظ ہیں۔
کشکول توڑنے کی باتیں کرنے والے یہ حکمران خود چلتے پھرتے کشکول بن چکے ہیں اور ان کشکولوں کی گہرائی کسی بلیک ہول سے بھی زیادہ ہے۔ ساری دنیا کی دولت بھی ان کی ہوس نہیں مٹا سکتی ۔ ورلڈ بینک اور دوسرے سامراجی مالیاتی اداروں سے قرض لینے کی انتہا کر دی گئی ہے جس سے اپنی تجوریاں بھری جارہی ہیں۔ SDPIکی رپورٹ کے مطابق ''حکومت پاکستان نے ورلڈ بینک سے قرضے صرف 'میگا پراجیکٹس‘ کے لیے حاصل کیے ہیں اور عوامی فلاح، سماجی بہتری اور غربت سے خاتمے کو پس پشت ڈال دیا گیا ہے۔۔۔۔۔گلوبل معیشت شدید زوال سے نکلنے کی کوشش کر رہی ہے اور غریبوں کے حالات بتدریج بد سے بد تر ہو رہے ہیں۔‘‘ (بحوالہ انگریزی اخبار، 14دسمبر 2014ء)
23دسمبر کو مشہور انگریزی روزنامے میں شائع ہونے والی تفصیلی رپورٹ کے مطابق بیرونی قرضہ 47 ارب ڈالر ہوچکا ہے اور ہر شہری 82627 روپے کا مقروض ہے۔ داخلی قرضہ اس کے علاوہ ہے جسے اگر شامل کیا جائے تو پاکستانی قرضہ فی کس دو لاکھ تک پہنچ جاتا ہے۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ نئے پراجیکٹس کے لیے قرضے لیے جارہے ہیں تو موٹر وے جیسے پرانے پراجیکٹ گروی رکھ کے ''سکوک بانڈز ‘‘ بیچے جارہے ہیں تاکہ خزانے کا خسارہ کم کیا جاسکے۔ یہ بانڈ دراصل قرضے کی ہی ایک شکل ہیں۔کون پوچھنے والا ہے؟ فیصلے بھی ان کے، معاشی پالیسیاں بھی ان کی اور کمیشن بھی انہی کے۔ ٹھیکے دینے والے خود ٹھیکیدار بھی ہیں!
میڈیا ہے کہ ایک انتہا سے دوسری انتہا تک جانے میں دیر نہیں لگاتا۔ مالی مفادات اور ''اوپر‘‘سے ملنے والی لائن ہی اس آزاد میڈیا کی پالیسی بن جاتی ہے۔ آج کل ریاست کے قصیدے یوں پڑھے جارہے ہیں گویا فرشتوں پر مشتمل ہو۔ چند روز پہلے تک یہی میڈیا پولیس سے لے کر رینجرز اور ریاست کے ہر ادارے کی کرپشن کا کچا چٹھا کھول رہا تھا۔ ایسا کون سا معجزہ ہوا ہے کہ ایک ہفتے میں ساری ریاستی مشینری پاک اور پرہیزگار ہوگئی ہے؟
ریاست بھی وہی ہے اور اس کے اندھے اہلکار اندھی طاقت کا استعمال بھی ویسے ہی کر رہے ہیں۔کچھ مہروںکو تختہ دارکے ذریعے کھیل سے باہرکر دیاگیا ہے لیکن دولت مند آقائوں میں سے کوئی پکڑا بھی نہیں گیا۔ دہشت کے کاروبارکا کوئی سرمایہ کار بھی کبھی گرفتار ہوا ہے؟ آلہ کاروں کو لٹکایا جارہا ہے اورآقائوںکو چھوڑا جارہا ہے۔ دہشت گردی کرنے والے تو پہلے ہی موت کو جنت کا راستہ سمجھتے ہیں۔ پھانسی اور ریاستی جبر سے دہشت گردی ختم نہیں ہوگی۔ تھانوں میں بے کسوں پر تشدد اور بھی زیادہ شدت سے ڈھایا جائے گا۔ منہ سونگھنے والے پولیس، ناکوں پر، عام لوگوں کو ہی ذلیل و خوار کر رہی ہے۔ شریفوں کی شرافت کا آخرکوئی تو مظاہرہ ہونا چاہیے۔ ٹریفک کا نظام پہلے ہی درہم برہم ہے جسے یہ ''چیک ‘‘پوسٹیں اور بھی پرانتشار بنا رہی ہیں۔
دہشت گردی کی براہ راست ترغیب دینے والوں کے لائوڈ سپیکر بدستورگرجتے رہیں گے، فرقہ واریت کا زہر پھیلتا رہے گا اور شہریوں کا سکون برباد ہوتا رہے گا۔ لیکن شریفوں کی حکومتوں میں یہ سب چلتا ہے کیونکہ ان کے ہمنوا ملا اور سرپرست یہی چاہتے ہیں۔ سرمایہ دارانہ ریاست اپنے تزویراتی اثاثوںکی''ڈانٹ ڈپٹ‘‘ سے آگے نہیں بڑھے گی۔ اس کی اصل درندگی محنت کشوں کی تحریکوں کے خلاف ہی بے نقاب ہوتی ہے۔ اس جذباتی اور نازک کیفیت میں ریاست کو دہشت گردی کے نام پر جو کھلی چھوٹ دی گئی ہے وہ ایسی ہی کسی ممکنہ تحریک کی تیاری ہے۔ دہشت گردی کو بھی یہ حکمران اپنے مقاصد کے لیے کس عیاری سے استعمال کرتے ہیں! حکمرانوں کو اپنی معاشی دہشت گردی کے ردعمل میں عوامی انتقام اور بغاوت کا خوف کھائے جارہا ہے ، لیکن تاریخ گواہ ہے کہ محنت کش عوام جب انقلابی جرأت کے ساتھ استحصالی طبقے اور اس کے نظام کے خلاف ابھرتے ہیں تو جابر سے جابر ریاستیں بھی ڈھیر ہوجاتی ہیں۔ یہاں کے حکمران طبقے کے سیاسی و ریاستی اوزار تو تاریخی متروکیت سے زنگ آلود ہوکر پہلے ہی بکھر رہے ہیں۔ محنت کش عوام کا وقت آج خراب ہے، ہمیشہ تو نہیں رہے گا۔۔۔۔!