جعلی اعداد و شمار کی گردان سے بھوکا پیٹ بھرتا ہے نہ موٹر سائیکل کی ٹینکی۔ پٹرول کی بندش سے ایک کہرام مچا ہوا ہے۔ ملک میں زندگی ہی کہرام بن کے رہ گئی ہے۔ حکمرانوں کااپنا ''المیہ‘‘ ہے، مرتے ہوئے نظام میں لوٹ مار بڑھانے کے لئے انہیںبے حسی کی آخری حد تک جانا پڑتا ہے۔ حکمران طبقے کے سیاسی ڈھانچے میں عوام کی نمائندگی بھلا کیسے ممکن ہے؟ حاوی سیاست کے کسی رہنما، پارٹی یا رجحان کے پاس ان مسائل کا کوئی حل ہے نہ لائحۂ عمل۔
میڈیا کے اپنے معاملات ہیں ۔چھوٹے سے واقعے کو بھی اس طرح پیش کیا جاتا ہے کہ لوگ چینل دیکھنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ ''ریٹنگ‘‘ ایسے بڑھتی ہے۔ نان ایشو کو ایشو بنانے کی دوڑ میں ایک دوسرے کو پچھاڑنے کے لئے اتنا زور لگایا جاتا ہے کہ اصل ایشو دب جاتا ہے ۔ درمیانے طبقے کی خواتین کے پسندیدہ دیومالائی کہانیوں پر مبنی ڈراموں کی طرح نیوز چینل بھی اتنا سسپنس پیدا کرتے ہیں کہ دیکھ دیکھ کر بیزار ہوجانے والے ناظرین بھی پھر دیکھنے بیٹھ جاتے ہیں، لیکن سلگتے ہوئے مسائل کی بنیادی وجوہ کو روپوش کردیا جاتا ہے۔ اس نظام زر کو بے نقاب کرنا جرم بنا دیا گیا ہے جس کی بیماری کی علامات یہ سارے سماجی اور معاشی عذاب ہیں۔ میڈیا چینل آپس میں جتنا لڑتے رہیں لیکن اس پر اتفاق ضرور موجود رہتا ہے کہ حقائق بے نقاب نہ ہونے پائیں۔واقعہ کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو، بالآخر معاملہ گول کردیا جاتا ہے۔ سانحہ پشاورکی مثال سامنے ہے۔ بحث و تکرار کی بھرمار اور حکمرانوں کی شعلہ بیانیاں عروج پر رہیں۔ سیاستدان اورسفارت کار زخمی بچوں کی عیادت کے فوٹو سیشن کرواتے رہے۔ عوام کو سوگ اور یاس میں غرق کرنے کی واردات کو عروج پر لے جاکر سیاست دانوں نے حل یہ نکالاکہ سکولوں کی دیواریں اونچی کر دی جائیں۔ دہشت گردی کی مالیاتی سپلائی لائن کاٹنا تو دورکی بات ، اسے ہاتھ بھی نہیں لگایا گیا۔ لگایا بھی کیسے جاسکتا ہے؟ انتہا اپسندی کے ناسورکو سرمائے کا خون فراہم کرنے والے مقامی سرمایہ دار اورکچھ ممالک ہمارے حکمرانوں کے ان داتا بھی تو ہیں۔ روٹیوں کی تعداد سے دہشت گردوں کی شناخت کرنے والے وزیر داخلہ نے تو مسئلہ ہی حل کردیا ہے۔ اب مدارس ہی دہشت گردی میں ملوث مدارس کے بارے میں معلومات دیں گے!
پٹرولیم کے بحران کے بارے میں اعداد و شمارکی بھول بھلیوں سے ذرا باہر نکل کر دیکھا جائے تو مسئلہ یہ ہے کہ پی ایس او کے پاس اتنے پیسے نہیں کہ عالمی منڈی میں تیزی سے سستا ہوتا ہوا پٹرول خرید سکے۔ اس نے اگر 215 ارب روپے کا قرض ادا کرنا ہے تو587 ارب روپے کا قرض وصول بھی کرنا ہے۔ 587 ارب میں سے 434 ارب روپے، یعنی 73 فیصد نجی شعبے میں بجلی کی پیداوار اور دوسری صنعتوں کے ذمے واجب الادا ہے۔ غریب کو تو ایک بوند تیل ادھار نہیں ملتا لیکن کھرب پتی سرمایہ داروں کو ہزاروں لاکھوں لٹر تیل کاغذی ضمانت پر فراہم کردیا جاتا ہے۔ 2005ء میں پرائیویٹائز ہونے والی کراچی الیکٹرک سپلائی کمپنی کے ذمے بھی 32ارب روپے واجب الادا ہیں۔نجکاری کے طریقہ واردات کی یہ ایک کلاسیکی مثال ہے۔''ٹارگٹ‘‘ پر موجود
سرکاری اداروں کو کرپٹ افسر شاہی اور سرمایہ داروں کے سامنے پھینک دیا جاتا ہے جو ان کی بوٹیاں نوچتے چلے جاتے ہیں۔ دیوالیہ ہوجانے کے بعد یہ ادارے کوڑیوں کے مول انہی کارپوریٹ گِدھوں کے حوالے کردیے جاتے ہیں۔ سرمایہ داروں اور سامراجی اجارہ داریوں کو پوچھنے والا کوئی نہیں ۔ یہاں کی سیاست اور ریاست ان کی باندی ہے۔ ہر سیاسی پارٹی پر حکمران طبقے اور سامراج کے وظیفہ خوار یا حصہ دار براجمان ہیں ۔ سرمایہ دارمافیا کی ڈاکہ زنی کو ریاست نے کیا روکنا ہے جو خود اس کا حصہ بن چکی ہے۔
مسئلہ یہ ہے کہ محنت کش عوام کا خون اتنا چوسا جاچکا ہے کہ مزید چوسنے کی گنجائش ختم ہوتی جارہی ہے۔ ریاستی ڈھانچے بوسیدہ ہوکر لڑکھڑا رہے ہیں۔ سرکاری ادارے اس قدر دیوالیہ ہیں کہ پٹرولیم جیسی بنیادی ضرورت پوری نہیں کرسکتے۔ ذخیرہ اندوزی جیسے ''حقیر‘‘ طریقے قصۂ ماضی ہوچکے ہیں۔ ایسی ہلکی واردات سے بھاری بھرکم سیٹھ حضرات کے پھولے ہوئے پیٹ اب نہیں بھرتے۔ موٹا مال اوپر ہی اوپر ہڑپ ہوجاتا ہے۔ چھوٹے موٹے جیب کتروںکو ذمہ دار قرار دے کر اصل مجرم چھپا دیے جاتے ہیں۔ ذرائع ابلاغ پر برا جمان ''ماہرین‘‘ بھی ذمہ داروں پرآنچ نہیں آنے دیتے۔ سب سے بڑے چور سب سے نیک بنا دیے جاتے ہیں۔کسی نے کبھی پوچھا ہے آئی پی پیز جس قیمت پر بجلی بناتی اور جس پر فروخت کرتی ہیں اس میں فرق اور منافع کی شرح کیا ہے؟ ''کارگر نجی شعبے‘‘ سے ہونے والے حکومتی معاہدے آج تک کبھی منظر عام پر آئے ہیں؟ جتنا زور یہ سیاسی اشرافیہ ''بیرونی سرمایہ کاری‘‘ پر دیتی ہے اسی سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ اس کا تاریخی کردار سامراج کے کمیشن ایجنٹ سے زیادہ نہیں ہے۔ حکمران طبقے کے مختلف سیاسی دھڑوں کی لڑائیاں بھی سامراجی اجارہ داریوں کا زیادہ ''کمیشن یافتہ‘‘ ایجنٹ بننے کے لئے ہی ہوتی ہیں۔
میاں صاحب نے چار اعلیٰ بیوروکریٹ معطل کر دیے ہیں۔ عمران خان اور دوسرے سیاستدان بھی وزرا کے استعفوں کا مطالبہ کررہے ہیں۔ استعفے دینے سے کیا مسئلہ حل ہوجائے گا؟ میاں نواز شریف کی جگہ عمران خان، بلاول زرداری یا کسی اورکو وزیر اعظم بنا دیا جائے تو کیا استحصال پر مبنی معاشی نظام کا جبر ختم ہوجائے گا؟ قرضوں کی بھرمار، کالی معیشت کا پھیلتا ہوا کینسر، پراکسی جنگوں کی وحشت، آئی ایم ایف کی دھونس، سٹاک مارکیٹ کی سٹہ بازی، ازلی ٹیکس چوراور بدعنوان حکمران طبقہ، سامراجی اجارہ داریوں کی لوٹ کھسوٹ اور اس سارے کھلواڑ پر جنم لینے والے تنازعات کو یہ سیاسی کٹھ پتلیاں ختم کریں گی؟ یہ تو خود اس نظام کا ''ادنیٰ‘‘ سا حصہ ہیں جس کے وجود کے لئے یہ ساری وحشت ناگزیر ہے۔ دولت جتنی بڑھتی ہے انسان اتنا ہی تنگ دل، تنگ نظر، حریص اور ظالم ہوتا چلا جاتا ہے۔ یہی وہ نفسیات ہے جسے سرمایہ داری پروان چڑھاتی ہے۔ زر کی یہ ہوس وہ بیماری ہے کہ بقول میر :
درد بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی
''گڈ گورننس‘‘ کو بھی نسخہ کیمیا بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ یہ ''گڈ گورننس‘‘ درحقیقت بستر مرگ پر پڑے ضعیف العمر مریض کے سر پر خضاب لگانے والی بات ہے جس کے سارے اعضا جواب دے چکے ہوں۔ پیسے کی سیاست میں پیسے والے ہی پیسہ کمانے کے لئے گورننس میں آتے ہیں۔ ''جمہوریت‘‘ ہو یا فوجی حکومت، سیاسی طریقہ کار بدل جاتے ہیں لیکن سرمائے کا جبر بدستور قائم رہتا ہے۔
مسئلہ غربت، بیروزگاری، مہنگائی کا ہے اور سیاست آئینی شقوںکی پیچیدگیوں پرہورہی ہے۔ لڑائی امیر اور غریب کی ہے لیکن سماج پر ''لبرل ازم‘‘ اور بنیاد پرستی ، شیعہ اور سنی، مسلم اور غیر مسلم، سندھی اور پنجابی کی بحث مسلط کی جا رہی ہے۔ تیل جب بند ہوجائے، بجلی نایاب اورگیس غائب ہو، چولہے ٹھنڈے ہوجائیں، ہسپتال موت بانٹ رہے ہوں اور سکول کھنڈر ہو جائیں تو واضح ہوجاتا ہے کہ مسئلہ گمبھیر ہے۔ اصل مسئلہ خود یہ مرتا ہوا نظام ہے جس میں اصلاحات کی گنجائش عرصہ پہلے ختم ہوچکی ہے۔ تبدیلی کی بات ہرکوئی کرتا ہے لیکن تبدیل کرنا کس چیز کو ہے اس پر مجرمانہ خاموشی اختیار کر لی جاتی ہے۔ ''تبدیلی‘‘ والے تو سرمایہ داری کا نام لینے سے بھی انکاری ہیں۔ محنت کش عوام کو ''جاہل‘‘ سمجھنے والے جانتے نہیں کہ وہ سب دیکھ رہے ہیں، پرکھ رہے ہیں، سمجھ رہے ہیں۔ نظام زر نے ان کا اتنا خون چوسا ہے کہ وہ پتھر ہوگئے ہیں۔ پتھر سے خون نہیں نچوڑا جاسکتا۔ پتھر صرف برس سکتا ہے!