سیاسی و سماجی جمود کے ادوار میں حکمران طبقے کے نظریات سماج پر حاوی رہتے ہیں۔حکمران تاریخ بھی اپنی مرضی کی پڑھاتے ہیں اور اخلاقیات و اقدارکا تعین بھی بالواسطہ یا براہ راست خود کرتے ہیں۔ مظلوم و محکوم عوام کی بغاوت کو کچلنا ہی کافی نہیں ہوتا، حکمران طبقہ اس بغاوت کی ہر یاد کو بھی تاریخ کے صفحات سے مٹا دینا چاہتا ہے۔ وظیفہ خوار مورخ اور دانشور اپنے آقائوں کی یہی خدمت سرانجام دیتے ہیں۔ لیکن سچ کو چھپانے سے حقیقت بدل نہیں سکتی۔ مارکس نے انقلابات کو تاریخ کا انجن قرار دیا تھا۔ یہ محنت کش عوام کی انقلابی تحریکیں ہی ہوتی ہیں جو نہ صرف سیاست اور معیشت کے ڈھانچے بدلتی ہیں ؛ بلکہ تاریخ کا دھارا ہی موڑکے رکھ دیتی ہیں۔ ایسا ہی ایک انقلاب فروری 1946ء کو اُس سرزمین سے پھوٹا تھا جس نے برطانوی سامراج اور اس کے نظام کو لرزا کے رکھ دیا تھا۔
1940ء کی دہائی ایشیا سمیت دنیا بھر میں انقلابات کی دہائی تھی۔ 1946ء ہندوستان میں انقلاب کا سال تھا۔ اس سال تحریک اتنے زوروں پر تھی کہ برطانوی حکمرانوں کو غداری کے الزام میں گرفتار انڈین نیشنل آرمی کے سبھی لیڈروں رہا کرنا پڑا۔ آئی این اے کی بڑھتی ہوئی مقبولیت سے صاف ظاہر تھا کہ لوگ کانگریس کے ''عدم تشدد‘‘ اور عاجزی کے نظریے سے سخت بیزار ہیں۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد سے برطانوی فوج کے اندربے چینی اور اضطراب حددرجہ بڑھ گیاتھا، افسر اورجوان جنگ سے اکتاچکے تھے۔ ہانگ کانگ سے مصر تک بغاوتیں پھوٹ پڑی تھیں۔ عوام کی یہ سرکشی روکے نہیں رک رہی تھی اور اس کی شدت میں دن بدن اضافہ ہوتاجارہاتھا۔ قصبوں اور دیہات میں نسلوں سے خاموش مخلوق نہ صرف جاگ اٹھی بلکہ اتنی متحرک ہوئی کہ سامراجی تسلط کے قدم اکھڑتے چلے گئے۔
18فروری 1946ء کوبمبئی کے ساحل پر لنگر انداز جنگی جہاز''ایچ ایم ایس تلوار‘‘ کے جہازیوں نے ناقص خوراک اور بدتر حالات کے خلاف احتجاجاً ہڑتال کر دی۔ اگرچہ یہ ایک پرامن بھوک ہڑتال تھی؛ تاہم برطانوی راج کے خلاف بڑی اور موثر بغاوتوںکا ابھی انتظار تھا ۔ 19 فروری کو جہازیوں نے ہڑتال کو قلعے اور بیرکوں میں لے جانے کا اعلان کردیا۔ انہوں نے نیوی ٹرکوں پر قبضہ کرتے ہوئے ان کو بندکرکے کھڑا کردیااوران پر سرخ پرچم لہرا دیے اور پھر ان پر بمبئی شہرکی سڑکوں پر مارچ شروع کردیا۔ عوام سے اس ہڑتال میں ساتھ دینے کی اپیل کی گئی جس کے نتیجے میںبرطانیہ اور سامراج مخالف جذبات جنگل کی آگ کی طرح سارے علاقے میں پھیل گئے۔ 19فروری1946ء کی شام تک نیوی کے افسروں اور جوانوںکی بڑی تعداد اس ہڑتال میں شامل ہو چکی تھی۔ بمبئی کے ساحل پر لنگرانداز رائل انڈین بحریہ کے جہازوں پر لگے برطانوی راج کے پرچم پھاڑکر سرخ رنگ کے جھنڈوں سمیت ان پارٹیوںکے پرچم لگا دیے گئے جو آزادی کی جدوجہد میں سرگرم تھیں۔ پہلے بغاوت سرگوشیوںکے ذریعے اور پھر ریڈیو کے ذریعے یونٹس کے اندر پھیلی جس پر ان باغیوں نے اس دوران قبضہ کرلیاتھا۔ یوںیہ بغاوت سارے ملک کی گیریژنوںاور بیرکوں تک پھیل گئی۔ باغی جہازیوںکے کچھ رہنمائوں نے باغیانہ پیغامات کے ساتھ انقلابی نظمیں اورگیت پڑھنے اور سنانے شروع کر دیے اور یوں یہ سلسلہ دن رات چلنے لگا۔ یہ بغاوت سبھی ساحلوں پر موجود 74 بحری جہازوں،20بیڑوں اور22 بیرکوں تک سرایت کر گئی۔ ان نیول سٹیشنوں میں بمبئی،کلکتہ ،کراچی، مدراس، کوچن اور وشاکاپٹنم شامل تھے۔ 20فروری کوہونے والی مکمل ہڑتال میں صرف 10جہاز اور2 نیول سٹیشن شریک نہیں ہوئے۔
کہا جاتا ہے کہ یہ سب خود رو تھا اور اچانک ہوا، مگر یہ مکمل سچ نہیں ہے۔19فروری کی شام کو ایک ہڑتالی کمیٹی کا قیام عمل میں لایا گیا تھا۔ سگنل مین ایم ایس خان اور ٹیلی گراف آپریٹر مدن سنگھ کو اس کا اتفاق رائے سے صدر اور نائب صدر چنا گیا۔ ایک سکھ دوسرا مسلمان اور دونوں کی عمریں 25 سال سے کم تھیں۔ یہ ایک شعوری فیصلہ تھا جس کا مقصد قومی آزادی کی تحریک میں مذہبی تعصب کو پھیلانے کی ان کوششوں کو مسترد کرنا تھا جو مقامی حکمران طبقے کے رہنما اپنے برطانوی آقائوں کے اشارے پر کررہے تھے۔
اس ہڑتالی کمیٹی کے ایجنڈے میں یہ بھی شامل تھا کہ قومی آزادی کی تحریک میں شامل پارٹیوں کے ساتھ رابطے اور بات چیت کر کے ان کی تائید وحمایت حاصل کی جائے۔کمیونسٹ پارٹی برطانوی سامراج کی حمایت کرنے کی تباہ کن پالیسی کے باعث آزادی کی تحریک سے باہر ہو چکی تھی۔ انہی دنوں ہندوستان کا حکمران طبقہ اور ان کے سیاسی نمائندے برطانیہ کے ساتھ ''مصالحت‘‘ اور سمجھوتے کے لیے مذاکرات میں مصروف تھے۔ شاہ سے زیادہ شاہ کے یہ وفادار ہر قسم کی سرکشی اور بغاوت کے دشمن تھے۔گاندھی نے توکھل کر جہازیوں کی مخالفت کر دی جبکہ کمیونسٹ پارٹی بحریہ کے سپاہیوںکی اس بغاوت کو ٹیکسٹائل، ریلوے اور صنعتوں کے دوسرے شعبوں میں ہونے والی ہڑتالوں کے ساتھ جوڑنے میں ناکام رہی جو سارے ملک میں پھیل رہی تھیں۔ اسی طرح سے سبھاش چندر بوس جیسے لیڈر بھی ا س ضمن میں کوئی کردار ادا نہیں کر سکے۔ سبھاش چندر پہلے ہی برطانیہ مخالفت میںدوسری انتہا تک چلا گیا تھا۔ وہ انڈین نیشنل آرمی پر زوردیتا رہا کہ وہ برطانیہ کی فوج کے ساتھ لڑیں اور یوں وہ جرمن فاشزم اور جاپان کی رجعتی حکومت کا ساتھ دیتا رہا۔
کانگریس اور مسلم لیگ خوفزدہ ہوگئے کہ انقلاب اور طبقاتی جد وجہد کے نظریات اس تحریک میں سرایت نہ کر جائیں جسے وہ مذہب کی بنیاد پر چلارہے تھے۔ مقامی حکمرانوں کی پیہم غداریوں اور سازشوں کے باوجود انقلابی سرکشی کا سلسلہ کہیں رکنے کا نام نہیں لے رہاتھا۔ پورا ملک انقلاب زندہ باد کے نعروں سے گونج رہا تھا۔ ا ن نعروں کے حوالے سے پیدا ہونے والے جوش وجذبے اور سرگرمی نے سارے بمبئی کی کیفیت کو بدل کے رکھ دیا تھا۔ اس وقت معروف شاعرجوش ملیح آبادی نے یہ مقبول عام ترانہ لکھا:
میرا نام شہید‘ میرا کام آگے بڑھنا
میرا نعرہ انقلاب‘ انقلاب‘ انقلاب
21 فروری کو برطانوی فوج نے اس وقت جہازیوں پر فائر کھول دیا جب وہ بمبئی قلعے میں اپنی بیرکوں سے باہر نکل رہے تھے۔ اس اشتعال انگیزی نے پر امن سرکشی کو پر جوش بغاوت میں بدل دیا۔ سارا دن جہازیوں اور برطانوی ایلیٹ فورس کے مابین مسلح جھڑپیں ہوتی رہیں۔ پہلے دن بمبئی میں ایک جہازی اور دوسرے دن کراچی میں14جہازی شہیدہوئے۔ برطانوی ایلیٹ فورس نے جہازیوں کے ساتھ یکجہتی کرنے والے صنعتی مزدوروں کے خلاف بھی ایسا ہی جبروتشدد شروع کر دیا۔ 22 اور23 فروری کو برطانوی فوج کی وحشت سے 250 جہازی اور مزدور شہیدکردیے گئے۔کچھ چشم دیدگواہوں کے بقول 21 فروری کو یوں لگ رہا تھا جیسے پورا برصغیر سامراجی تسلط کے خلاف انقلابی جوش اور ولولے سے لیس ہوکر سرگرم ہو چکا ہے۔ اس تحریک کے دوران انقلابی ہڑتالی کمیٹی نے اپنی کمان '' نابرا بحری بیڑے ‘‘ پر منتقل کر دی ۔ جہازیوں نے اپنے جہازوں پر موجود بندوقوں
کا رخ برطانوی نیول تنصیبات اورساحلوں پر موجود مراکز کی طرف کر دیا۔ سبھی جہازوں سے سائرن بجائے گئے، جہازیوںنے لائوڈ سپیکروں سے اعلان کئے کہ اگر برطانوی حکومت نے شہروں میں یا ساحلوں پرجدوجہد کرنے والے ان کے ساتھیوں پر حملہ کیا تو وہ اپنے اوپر ہونے والی ہر زیادتی اور حملے کا بھرپور جواب دیں گے اور برطانوی فوجی تنصیبات اور مراکزکو تہس نہس کر دینے سے بھی گریز نہیں کریں گے۔
لندن وائٹ ہال کومسٹر آچنلیک (Auchinleck) کی طرف سے ایک ٹیلیگرام بھیجاگیاجس میں کہاگیاکہ ''اگر تم نے ان کو تین دنوں میں آزاد نہیںکیا تو یہ لوگ زبردستی تم سے اپنی آزادی چھین لیں گے‘‘۔ 1940ء سے 1945ء تک سر ونسٹن چرچل کے چیف آف سٹاف رہنے والے جرنیل نے برملا بیان دیا کہ '' ہندوستان ، بیچ سمندر موجود ایک ایسا بحری جہاز بن چکا ہے جسے آگ لگ چکی ہے اور جو گولہ بارودسے لداہواہے۔‘‘ اس کا لارڈ مائونٹ بیٹن سے سوال تھا کہ ''کیا ہم اس آگ پر قابو پاسکتے ہیں؟ اس سے پہلے کہ یہ بارود کے ذخیرے تک پہنچ جائے؟‘‘
لندن میں برطانوی حکومت اس اعلان سے دہل گئی۔ لیبر پارٹی کے وزیراعظم کلیمنٹ ایٹلی نے اٹھنے والے سر کچل دینے کے احکامات جاری کر دیے۔ برٹش انڈین نیوی کے سربراہ ایڈمرل گوڈفرے نے باغی جہازیوں کو حکم دیا کہ وہ ہتھیار ڈال دیں یا پھر مرنے کے لیے تیار ہو جائیں۔ انڈین کانگریس کے ایک معروف لیڈرولبھ بائی پٹیل نے کھل کربرطانیہ کے اس اعلان کی تائید اور جہازیوں کی مذمت کرتے ہوئے برطانیہ کی حمایت کا اعلان کردیا۔ مذہب کی بنیاد پر سیاست کرنے والے کھل کر برطانوی سامراج کے ساتھ کھڑے ہو گئے۔ برصغیر کے حکمران طبقے کا مکروہ چہرہ یہاں بے نقاب ہوتا ہے۔ برصغیرکی تقسیم اور''آزادی‘‘ کے بعد سے آج تک، یہ حکمران طبقہ سامراجی ڈاکہ زنی میں بطور ''کمیشن ایجنٹ‘‘ شریک رہا ہے۔ یہی ان کا تاریخی کردار ہے۔ (جاری)