غذائی قلت یا بھوک کو عام طور پر پسماندہ ممالک تک ہی محدود سمجھا جاتا ہے۔تیسری دنیا کے ممالک میں ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ ممالک کے بارے میںپایا جانے والا ''جنت ارضی‘‘ کا تاثر حقیقت کے برعکس ہے۔ یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ مضر سیاسی، سماجی اور معاشی مضمرات کے بغیر سرمایہ داری اپنا وجود قائم رکھ سکے۔صحت بخش غذا کے عوام کی پہنچ سے دورہونے کا مسئلہ ترقی یافتہ مغرب میں نہ صرف موجود ہے بلکہ 2008ء کے بعد سے گمبھیرہوتا چلا جارہا ہے۔
''فاسٹ فوڈ‘‘ اور موٹاپا امریکی شہریوں کی عمومی ''شناخت‘‘سمجھے جاتے ہیں۔ خوراک سے متعلق امریکیوں کے خراب رویے کا شورتو بہت مچایا جاتا ہے لیکن ان رویوں کے اسباب پر بات نہیں ہوتی۔ مارکس نے واضح کیا تھا کہ حالات شعور کا تعین کرتے ہیں۔ زیادہ تر امریکیوں کے لیے خوراک کا انتخاب آمدن، وقت، دستیابی، تشہیر اور آس پاس رہنے والے انسانوں کے سماجی معیار پر منحصر ہے۔
امریکہ دنیا کا سب سے امیر ملک ہے لیکن یہاں 4 کروڑ 90 لاکھ لوگ ' غذائی عدم تحفظ ‘‘کا شکار ہیں جن میں تقریباًڈیڑھ کروڑ 9 لاکھ بچے شامل ہیں۔ امریکی محکمہ زراعت غذائی عدم تحفظ کو یوں بیان کرتا ہے: ''ضروری یا محفوظ غذا کی غیر یقینی یا محدود فراہمی کی کیفیت، یا سماجی طور تسلیم شدہ طریقوں سے غذا حاصل کرنے کی صلا حیت کا غیر یقینی یا محدود ہونا۔‘‘ غذائی قلت کا شکار 40 لاکھ 8 ہزار افراد خوراک، گھروں کو گرم رکھنے کے انتظام یا ادویات میں سے کسی ایک کاانتخاب کرنے پر مجبور ہیں جن میں اکثر یت پالتو جانوروں کی غذا کھا کر گزر بسر کرتی ہے۔پیسہ یا وقت کی قلت کی وجہ سے 5 کروڑ امریکی اپنا پیٹ بھرنے کے لیے غیر صحت بخش فاسٹ فوڈ سے پیٹ بھرتے ہیں جس سے موٹاپا، امراضِ قلب، دوسرے درجے کی شوگر، جوڑوں کی سوزش، سانس کی تکلیف، جگر کی خرابی جیسی کئی دوسری بیماریاں پھیل رہی ہیں۔
کیمیکلز اور کیڑے مار دوائیوں کا بے جا استعمال خوراک کی فراہمی اور ماحول کو زہریلا کر رہے ہیں۔ امریکہ میں استعمال ہونے والی 80 فیصداینٹی بائیو ٹکس کا استعمال فصلوں پر ہو رہا ہے جس سے اینٹی بائیو ٹکس کے خلاف قوت مدافعت رکھنے والے زیادہ طاقتور کیڑوں (SuperBugs) کی تعداد میں اضافے کا خطرہ بڑھتا جا رہا ہے۔ ان سب مضر کیمیکلز سے خوراک کی پیداوار میں صرف 20 سے 25 فیصد اضافہ ہوتا ہے لیکن سرمایہ دارمنڈی میں منافع کے لیے اجناس کی پیدا کی جاتی ہیں نہ کہ ضرورت کے لئے۔ سرمایہ داروں کو اس سے کوئی سروکار نہیں کہ خوراک کس طرح سے پیدا کی جا رہی ہے، ان کا مقصد محض اپنے منافعوں کو بڑھانا ہوتا ہے۔
مسئلہ صرف یہ نہیں ہے کہ کتنی خوراک پیدا کی جارہی ہے، بلکہ یہ بھی ہے کہ آیا پیدا کی گئی خوراک کا استعمال درست طریقے سے ہورہا ہے؟امریکہ میں لگ بھگ 40فیصدخوراک ریسٹورنٹس، سٹورزاور گوداموں یا گھر کے ریفریجریٹرزمیں ضائع ہوجاتی ہے۔ بجائے اس کے کہ توانائی کے لئے دوبارہ قابل استعمال ہو نے کی صلاحیت رکھنے والے ذرائع (شمسی اور پلازما توانائی وغیرہ) اختیار کئے جائیں، امریکہ میں اگنے والی 40 فیصد مکئی کا استعمال Ethanol ایندھن بنانے میں ہو رہا ہے اور حکومت اس سلسلے میں بڑی کارپوریشنوں کو عوام کے پیسوں میں سے سبسڈی دے رہی ہے۔
آج انسان اتنی خوراک اگا رہا ہے جس سے 10 ارب انسانوں کی غذائی ضروریات پوری کی جاسکتی ہیں لیکن اقوام متحدہ کی خوراک اور زرعی تنظیم کے اندازے کے مطابق 7 ارب انسانوں میں سے80 کروڑ 70 لاکھ افراد شدید غذائی قلت کا شکار ہیں۔ غریب ممالک میں 10 کروڑ بچے غذائی قلت کا شکار ہیں، ہر چار میں سے ایک بچے کی نشوونما ہی پوری نہیں ہے، ہر سال 31 لاکھ بچے غیر معیاری غذا کی وجہ سے دم توڑ جاتے ہیں۔ ترقی پذیر ممالک میں 6 کروڑ 60 لاکھ بچے بھوکے پیٹ سکول جاتے ہیں جنہیں غذا فراہم کرنے کے لئے صرف 3.2 ارب ڈالر درکار ہیں۔ یہ رقم دنیا میں سب سے زیادہ ''خیرات‘‘ دینے والے امیر ترین انسان بل گیٹس کی کْل دولت کے محض 24 ویں حصے کے برابر ہے۔ وسائل سے بھرپور دنیا میں ہر سال لاکھوں انسان اس خاموش قتل عام میں سرمایہ داری کی بیمار منطق کا شکار ہو کر مارے جارہے ہیں۔
7,500 سال پہلے ہونے والا Neolithic زرعی انقلاب انسانی تاریخ میں فیصلہ کن موڑ ثابت ہوا۔ پہلی بار اتنی خوراک پیدا کی جا سکتی تھی جس سے آبادی کی ایک بڑی اورجسمانی کام نہ کرنے والی پرت کو پالا جاسکے۔ اس سے براہ راست جسمانی مشقت نہ کرنے والے لوگوں کو ایسے مواقع میسر آئے کہ وہ کسی اور کام میں ماہر بن سکتے تھے اور اسی عمل سے ہی طبقات اور ریاست کا وجود عمل میںآیا۔ سماجی ڈھانچوں اور پیداوار میں شاندار ترقی کے باوجود بھی زراعت صدیوں تک موسم، کیڑوں اور بیماریوں کے رحم و کرم پر رہی۔ یہ زیادہ پرانی بات نہیں ہے کہ جب انسان پوری غذاپیدا نہ کرسکنے اور فصلوں کی تباہی کی وجہ سے مر جایا کرتے تھے۔ لیکن آج کسانوں کو خوراک اگانے کے لیے نہیں بلکہ فصلیں تباہ کرنے کے لیے پیسے دئیے جاتے ہیں۔ قیمتوں کو مصنوعی طور پر بڑھانے کے لیے لاکھوں ٹن خوراک گوداموں میں بھر کر چھپا دی جاتی ہے۔ آج کے دور میں قحط خوراک پیدا کرنے میں نا اہلی کی نہیں بلکہ سماجی ڈھانچوں اور سیاسی حالات کی پیداوار ہیں۔
ایک ایسے وقت میں جب ٹیکنالوجی کی جدت سے دنیا کی کام کرنے والی کْل آبادی کا ایک چھوٹا سا حصہ تمام انسانی آبادی کی غذائی ضرورت کو کئی بار پورا کر سکتا ہے، وہاں 15 کروڑلوگ کچرا دانوں اورکوڑا کرکٹ سے بھر ے میدانوں سے کھانا تلاش کرنے میں اپنی زندگیاں اور صلاحیتیں ضائع کررہے ہیں۔ کھانے کے لئے ہونے والے فسادات آج بھی دنیا کے کئی حصوں کا معمول ہیں، اس لیے نہیں کہ کھانا موجود نہیں ہے بلکہ اس لیے کہ لوگوں کے پاس کھانا خریدنے کے پیسے نہیں ہیں۔ دہائیوں کی ترقی اور حاصلات کے باوجود اس صورتحال سے صاف نتیجہ نکلتا ہے: سرمایہ داری میں اس کرہ ارض پر بسنے والے ہر انسان کا پیٹ بھرنے کی صلاحیت نہیں ہے۔ اس کی وجہ انسان کی پیداواری صلاحیت میں کمی نہیں بلکہ وہ سماجی ڈھانچے ہیں جو انسان نے خود تخلیق کئے ہیں۔
غذائیت اورزرعی سائنس میں ہونے والی ترقی نے اتنی صلاحیت پیدا کی ہے کہ ہم ہر انسان کے لیے بے تحاشا صحت بخش، محفوظ اور لذیذ خوراک پیدا کر سکتے ہیں۔ انسان مختلف اقسام کی غذا کی بہت بڑے پیمانے پر پیداوار کر سکتے ہیں جو کہ زرعی ادویات، بیماریوں اورماحولیاتی آلودگی سے پاک ہونے کے ساتھ ساتھ ذائقے سے بھی بھرپور ہو۔ اس سلسلے میں سستے، لذیذ اور پر کشش کھانے والے اشتراکی کھانا گھروں کا وسیع جال بچھایا جا سکتا ہے۔ گھروں پر کھانا بنانے اور کھانے کے عمل کوایک آرام دہ اجتماعی سماجی عمل میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ اب کروڑوں لوگوں کے لیے یہ کوئی لازمی مشقت نہیں ہے۔ مختصر یہ کہ آج علم، تکنیک اور مشترکہ صلاحیت کی بنیاد پر کھانا کھانے کے موجودہ طریقہ کار کومکمل طور پر بدلا جا سکتا ہے۔ جو چیز موجود نہیں وہ ایسا سماجی ڈھانچہ ہے جو غذا کی پیداوار، تقسیم، تیاری اور استعمال کے سلسلے میں ایک معقول اور متوازن طریقہ کار پر مشتمل ہو۔
بہت سے لوگ خوراک اور اس سے منسلک ماحولیات کے مسئلے کے حل کی خاطر کچھ کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن اسے حل کرنے کے لیے جتنی بھی تجاویز عام طور پر پیش کی جاتی ہیں وہ موجودہ نظام کی حدود میں مقیدہیں۔ اس مقصد کے لئے عام طور پر امیر اور طاقت ورلوگوں سے منت سماجت کی جاتی ہے۔ یہ سراسر خام خیالی ہے۔ ایک ایسا نظام جو منافع پر مبنی ہو وہاں سرمایہ داروں کے لیے غذا کا معیار یا انسانی صحت کوئی معنی نہیں رکھتے بلکہ محض منافعوں کو بڑھانا اہم ہے۔ امکان اور حقیقت کے مابین یہ فاصلہ افراد کو ان کے ''انفرادی انتخاب‘‘ کے لیے موردالزام ٹھہرانے یا پھر نظام میں ظاہری اور ثانوی تبدیلیاں کرنے سے ختم نہیں ہوگا۔ انسانی زندگی کے انتہائی بنیادی جزو کے بگاڑ کا حل صرف ناکارہ سرمایہ دارانہ نظام کو اکھاڑ پھینکنے سے ہی ممکن ہے۔