"DLK" (space) message & send to 7575

’’وطن ‘‘ بیچنے والے ’’محب وطن‘‘

اس بحران زدہ سماج میں کوئی شعبہ ایسا نہیں بچا جہاں ان بدعنوان اور نااہل حکمرانوں نے لوٹ مار کا بازار گرم نہ کر رکھا ہو۔عوام پرکرکٹ کا 'جنون‘ مسلط کر کے منافع کمایا جا رہا ہے۔ سینیٹ الیکشن میں ہونے والا کروڑوں روپے کا دھندا ہی سرمائے کی اس ''جمہوریت‘‘ کا حقیقی رخ ہے۔ کرکٹ کی سٹہ بازی ہو یا سینیٹ الیکشن میں لگنے والی بولیاں، مال لگانے اور کمانے والے کالے دھن کے ان داتا ہی ہیں۔ سرکاری معیشت سے دو گنا حجم رکھنے والی کالی معیشت 10فیصد سالانہ کی شرح سے پھیل کر سیاست، سماجیات اور اقتصادیات میں زہر بھرتی جارہی ہے۔ کالے دھن کو نکال کر باقی ماندہ ''سفید معیشت‘‘ کا جائز لیا جائے تو حالت کافی نازک ہے۔ سرمایہ دار حکمران اپنی''ملک و قوم‘‘ کے اثاثوں کو کباڑیوں کی طرح ''سکریپ‘‘ میں بیچنے (اور کوڑیوں کے بھائوخود ہی خریدنے) کی پوری کوشش میں ہیں۔ بھوک، غربت، بے روزگاری، لاعلاجی، قلت اور ناخواندگی انسانی زندگی کو تاراج کر رہی ہے لیکن دولت کی ہوس نے حکمران طبقے کو اندھا کر دیا ہے۔ حالات جو رخ اختیار کر رہے ہیں یہ اس کے ادراک سے محروم ہیں۔ 6 مارچ کو اسحاق ڈار نے سینیٹ میں بیان دیتے ہوئے ایک بار پھر 32سرکاری اداروں کی فوری نجکاری کا ''عزم‘‘ ظاہر کیا۔ ان میں سے 19ادارے منافع بخش ہیں اور باقی ایسے جنہیں افسر شاہی اور حکومتوں نے سالہا سال لوٹ کر دانستہ طور پر برباد کیا ہے۔ مسئلہ یہ بھی نہیں ہے کہ نجکاری منافع بخش اداروں کی ہو رہی ہے یا غیر منافع بخش اداروں کی، حکمرانوں کے لیے اعداد و شمار کے ہیر پھیر سے اداروں کو منافع بخش یا خسارہ زدہ دکھانا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ نجکاری اس ملک کی معیشت کے بحران کو حل کرنے کا ذریعہ ہے یا پھر بالادست طبقے کی قانونی لوٹ مارکا حصہ، جس سے بچی کھچی صنعت، معیشت، زراعت اور روزگارکا بھی بیڑا غرق ہوجائے گا؟
قومی غیرت، حب الوطنی، ملکی سالمیت اور''وطن کے تقدس‘‘ کا درس دینے والے حکمرانوں نے اسی وطن کے ریاستی اثاثوںکی نیلامی کا بازار یوں سجایا ہے جیسے نشے کے عادی افراد گھر کے برتن بھی بیچ ڈالتے ہیں۔ نجکاری کے بارے میں حکمران صحافت اور دانش ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ اس عمل سے اداروں کی کارکردگی بہتر ہوتی ہے، سہولیات کی فراہمی زیادہ فعال ہوجاتی ہے، سرمایہ کاری آتی ہے، قرضے اترتے ہیں اور معاشی ترقی ہوتی ہے۔ نجکاری کے ان ''فضائل‘‘ کا جتنا پرچار کیا جاتا ہے، یہ ملک کے باسیوں کا اتنا ہی برا حشر کرتی ہے۔ سادہ الفاظ میں ''نجکاری‘‘ کا مطلب ملک کی اپنے اثاثوں سے محرومی، بے روزگاری اور مہنگائی ہے۔ عوام کے پیسے اور محنت کشوں کے خون پسینے سے تعمیر ہونے والے ادارے سرمایہ داروں کو کوڑیوں کے بھائو بیچ دینے سے معیشت کے ڈھانچے اپاہج ہوجاتے ہیں۔ نجکاری اس نظام زر کے ناسور کا وہ ذریعہ ہے جس سے اس کا زہریلا خون آتا ہے۔ اس سماج کے جسم میں اس نظام کا یہ ناسور سرمایہ دارانہ معیشت اور ریاست میں ہر حکومت کو نجکاری کے لئے مجبورکر دیتا ہے کیونکہ یہ اس نظام کی بقا اور ان حکمرانوں کی حکمرانی اور تعیش کے لیے ناگزیر ہے۔ لیکن تعلیم اور علاج جیسے بنیادی سماجی شعبوں کی نجکاری سے عوام کی محرومی مزید بڑھتی ہے۔ جہاں تک نجکاری کے ذریعے اداروں کے ''فعال‘‘ ہونے کا تعلق ہے، حکمران طبقے کے اپنے معیشت دانوں کی تحقیقاتی رپورٹیں اس مفروضے کو رد کرتی ہیں۔ پلاننگ کمیشن آف پاکستان کے سابق چیف اکانومسٹ ڈاکٹر پرویز طاہر اور ان کی ٹیم نے ایک رپورٹ شائع کی ہے جس کے مطابق پچھلے 30برسوں میں جن اداروں کی نجکاری کی گئی ان میں سے 90 فیصد کی کارکردگی پہلے سے بدتر ہوئی۔ جہاں تک حکومت کی آمدن میں اضافے کا تعلق ہے،اس سے بڑا جھوٹ کوئی نہیں۔ جن اداروں کی نجکاری ہوئی ان میں سے بیشترکو اب بھی حکومت سبسڈی دے رہی ہے۔ پرویز طاہر کی رپورٹ کے مطابق''1988ء میں معاشی نمو میں اضافے اور غربت اور قرضے میں کمی کے نام پر نجکاری کا آغازکیا یا تھا، ان میں سے ایک مقصد بھی پورا نہیں ہوپایا‘‘۔
نجکاری کے بعد 'کے ای ایس سی‘ کی حالت سب کے سامنے ہے جو سالانہ 70ارب روپے کی سبسڈی اب بھی حکومت سے لے رہا ہے۔ گرِڈ سے حاصل کی جانے والی سستی سرکاری بجلی اس کے علاوہ ہے جسے صارف کو مہنگے داموں بیچا جارہا ہے۔ طویل لوڈشیڈنگ اور بجلی کا تعطل آج بھی کراچی کا معمول ہیں۔ ادارے کی اپنی پیداواری صلاحیت کا صرف 50فیصد استعمال ہورہا ہے۔ 1995ء کے بعد لگنے والے آئی پی پیزکا جائزہ لیا جائے تو ہولناک صورت حال اور بھی واضح ہوجاتی ہے۔صرف 25فیصد نجی سرمایہ کاری (باقی 75فیصد عوام نے بھرا) سے لگنے والے یہ آئی پی پیزاب تک 75ارب ڈالر سے زائد اس ملک سے لوٹ کر باہر منتقل کر چکے ہیں۔ اس کے مقابلے میں پاکستان کاکل بیرونی قرضہ 67ارب ڈالر ہے۔ آخر یہ کون سے ''خاص لوگ‘‘ ہیں جن پر حکمران محنت کش عوام کی خون پسینے کی کمائی لٹا رہے ہیں؟ یہ وہی سامراجی اور''قومی‘‘ سرمایہ دار ہیں جنہوں نے اپنی دولت کے بل بوتے پر سیاست، صحافت اور ریاست کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ ان اداروں میں جو کوئی بھی آئے گا اس مافیا کا کارندہ ہی ہوگا۔ پیسے کی یہ سیاست بھی اسی حکمران طبقے کے سرمائے پر چلتی ہے، میڈیا میں بھی انہی کا سرمایہ انویسٹ ہوتا ہے اور پھر یہی فیصلہ کرتے ہیںکہ کون سی معاشی پالیسی بنے اور چلے گی۔ محنت کش عوام کوکچھ دینا تو دورکی بات، یہ طبقہ ان کے منہ سے روٹی کا آخری نوالہ بھی چھین لینے کے درپے ہے۔ لیکن یہ کھلواڑکب تلک چل سکتا ہے؟
تاریخ کا قانون ہے کہ جو طبقہ اپنی بقاکی جنگ خود نہ لڑ سکے اس کی لڑائی کوئی اور نہیں لڑتا۔ محنت کش طبقے کی نجات کا فریضہ صرف اور صرف محنت کش طبقہ خود ہی ادا کرسکتا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ محنت کشوں کی روایتی قیادتیں سرمائے کے آگے گھٹنے ٹیک کر اس کی دلال بن گئی ہیں۔ بہت سے یونین لیڈر مزدوروںکی نمائندگی کرنے کے بجائے ٹھیکیداری نظام میں کمیشن ایجنٹ بن چکے ہیں۔ سابق بائیں بازوکے دانشوروںنے تو محنت کش طبقے کے وجود سے ہی انکارکردیا ہے۔ وقت اور حالات سے ہارے ہوئے یہ ضمیر فروش جو بھی کہتے اور کرتے رہیں، طبقاتی معاشرے میں طبقاتی کشمکش کبھی ختم نہیں ہوسکتی۔ ایک طویل عرصے سے طبقاتی جدوجہد پاکستان میں ماند پڑی رہی ہے۔ حکمرانوں کے لانگ مارچوں، جعلی انقلابوں اور''ترقی‘‘ کے دیوہیکل منصوبوں کے شور میں اس بغاوت کو ہمیشہ کے لیے نہیں دبایا جاسکتا۔ پہلے او جی ڈی سی ایل کے محنت کشوںنے جرأت مندانہ اور برق رفتار تحریک کے ذریعے نجکاری کا وار پسپاکیا ہے۔ اب واپڈا کے محنت کش میدان میں اتر رہے ہیں۔ دوسرے شعبوں کے محنت کش بھی اس طبقاتی جنگ میں صف آرا ہونے کی تیاری کر رہے ہیں۔ ایک نئی تحریک ابھرنے کے آثار واضح ہورہے ہیں، لیکن مختلف اداروں کی علیحدہ علیحدہ تحریکوں سے یہ جنگ نہیں جیتی جاسکتی ہے۔ سب کو ساتھ مل کر لڑنا ہوگا۔ محنت کش طبقے کی ہر پرت کو یکجا ہونا ہوگا۔ پروگرام، مقاصد اور مطالبات کو آگے بڑھانا ہوگا، انقلابی لائحہ عمل اپنانا ہوگا۔ جدوجہدکو اس نظام زرکے خاتمے سے مشروط کرنا ہوگا۔
اس تحریک کا کلیدی مطالبہ تمام کلیدی شعبوں کی نیشنلائزیشن ہونا چاہیے، لیکن کروڑ پتی سی ای اوز اور مینیجروں کو اداروں پر مسلط کرنے والی نیشنلائزیشن محض بدعنوانی کا باعث بنی ہے۔ ادارے تب تک نہیں چل سکتے جب تک محنت کشوں کے جمہوری کنٹرول اور انتظام میں نہ ہوں۔ نجکاری کے خلاف تحریک کو اجتماعی سہولت کے تمام شعبوں سے جوڑنا ہوگا۔ اس نظام میں اصلاحات نہ صرف ناممکن ہیں بلکہ محنت کش طبقے کی شکست و ریخت کا باعث بنتی ہیں۔ اصلاح پسندی کے نظریات اور سیاست نے پہلے ہی عوام کو بہت زخم دئیے ہیں۔ اب کی بار''اصلاحات نہیں انقلاب‘‘ کا نعرہ لگانا ہوگا۔ اس طبقاتی جنگ کے ذریعے سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ کئے بغیرکوئی ایک بنیادی مسئلہ بھی حل نہیں ہوسکتا۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں