"DLK" (space) message & send to 7575

بت ہم کو کہیں کافر...

سیکولر اور 'لبرل‘ انٹیلی جینشیا ہو یا پھر دایاں بازو، بظاہر 'متضاد‘نظر آنے والے یہ دونوں رجحان ایک بات پر خوب متفق ہیں کہ سوشلزم اور 'کمیونزم‘ ختم ہو چکا ہے اور سرمائے کی حاکمیت چاہے 'سیکولر‘ ہو یا تھیوکریٹک، انسانیت کا حتمی مقدر ہے۔ ان کا 'نظریاتی اختلاف‘ اس نظام سے نہیں بلکہ اس کو چلانے کے طریقہ کار پر ہے۔رائج الوقت ملکیت کے رشتوں کو 'مذہبی انقلاب‘ سے کوئی خطرہ ہے نہ ہی 'سیکولرازم‘ سے۔
سٹالن ازم کی ناکامی کو سوشلزم کے ساتھ نتھی کرنا حکمران طبقے کے دانشوروں کی روایتی واردات ہے۔کسی منطقی دلیل کا دور دور تک ان سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔ لیکن ان میں سے تھوڑی سمجھ بوجھ رکھنے والے اچھی طرح جانتے ہیں کہ طبقاتی سماج میں طبقاتی کشمکش کبھی ختم نہیں ہو سکتی۔ جب تک محنت کش طبقہ موجود ہے ، محنت کشوں کی سیاست اور نظریات مٹ نہیں سکتے۔ جب بھی انہیں مارکسزم کے سائنسی دلائل لاجواب کرتے ہیں تو کمیونسٹوں کو 'کافر‘قرار دے کر مناظرے سے فرار کی روایتی روش اختیار کی جاتی ہے۔
دیانت، ضمیر اور اخلاص رکھنے والے بہت سے مذہبی لوگ انقلابی مارکسزم کے پرچم تلے لڑتے رہے ہیں۔ برصغیر کی تاریخ ایسی شخصیات سے بھری پڑی ہے۔ولادیمیر لینن او ر لیون ٹراٹسکی کی قیادت میںبرپا ہونے والے 1917ء کے بالشویک انقلاب سے متاثر ہو کر لاتعداد مسلمانوں نے کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا میں شمولیت اختیار کی جن میں شوکت عثمانی، گوہر رحمان، رفیق احمد، سلطان محمد، میاں محمد اکبر شاہ، میر عبدالماجد، فیروزالدین منصور، فدا علی، زاہد حبیب احمد، فضل الٰہی قربان، عبداللہ صفدر، مولوی عبدالرب اور رحمت علی زکریا وغیرہ سرفہرست تھے۔ کلکتہ میں قاضی نذرالاسلام اور مظفر احمد اور لاہور میں غلام حسین، شمس الدین حسن اور ایم اے خان کمیونسٹ پارٹی کے سرکردہ کارکنان تھے۔ شمس الدین حسن نارتھ ویسٹرن ریلوے یونین کے پریس سیکرٹری اور ایم اے خان جنرل سیکرٹری منتخب ہوئے۔برصغیر کا پہلا کمیونسٹ اخبار 'انقلاب‘ لاہور سے اگست 1922ء میں نکالا گیا جس کے ایڈیٹر غلام حسین تھے۔ اس کے پہلے ادارئیے میں لکھا گیا کہ ''سیاسی آزادی معاشی اور سماجی آزادی کے بغیر ممکن نہیں ہے اور سرمایہ دارانہ نظام میں معاشی و سماجی آزادی نہیں مل سکتی۔ انسان کی آزادی کے لئے اس نظام کا خاتمہ ضروری ہے جو حکمران طبقے کا عوام پر جبر ڈھانے کا آلہ کار ہے۔‘‘
1923ء میں لکھنو میں منعقد ہونے والی کمیونسٹ کانفرنس میں مظفر احمد، عبداللہ (کلکتہ)، الف دین نفیس (کیمبل پور، موجودہ اٹک) امیر الحسن (بمبئی)، شاہ حسینی (لاڑکانہ)، ایم اے خان (لاہور)، محمد ابراہیم (مدراس)، ایچ اے ملک (لکھنو) اور محمد علی (پشاور) مندوبین کے طور پر شریک ہوئے تھے۔ لکھنو میں ہی کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کی پہلی تاسیسی کانفرنس میں مولانا حسرت موہانی نے کلیدی کردار ادا کیا۔
ایک انتہائی دلچسپ داستان مولانا عبیداللہ سندھی کی ہے۔ وہ 1872ء میں چلنوالی ضلع سیالکوٹ کے سکھ گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ماموں نے انہیں ضلع ڈیرہ غازی خان کے اردو مڈل سکول میں ابتدائی تعلیم دلوائی۔ 1887ء میں انہوں نے بنیادی مطالعہ کے بعد اسلام قبول کر لیا۔ اگلے سال دارالعلوم دیوبند چلے گئے اور1889ء سے 1909ء تک پہلے بطور طالب علم اور بعد ازاں بحیثیت استاد اس ادارے سے وابستہ رہے۔ برطانوی سامراج کے خلاف جدوجہد کے دوران انہیں 1915ء میں کابل ہجرت کرنی پڑی جہاں انہوں نے ہندوستان کی عبوری آزاد حکومت قائم کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ اہندرا پرتاب اس حکومت کے صدر جبکہ عبیداللہ سندھی وزیر برائے امور ہندوستان تھے۔اس ''جرم‘‘ کی پاداش میں انہیں ریشمی رومال تحریک کی سازش میں ملوث بھی قرار دیا گیا۔ اس جلاوطن ہندوستانی حکومت نے مدد کے لئے 1917ء کے بعد نومولود بالشویک حکومت سے رابطے استوار کئے۔اہندرا پرتاب 1918ء میں پیٹروگراڈ میں لیون ٹراٹسکی سے بھی ملے۔کیپٹن ظفر ایبک اور دوسرے ساتھیوں کے ساتھ طویل مسافت طے کرنے کے بعدعبیداللہ سندھی 1922ء میں ماسکو پہنچے۔ ظفر ایبک نے اپنی یادداشتوں میں ایک دلچسپ واقعے کا ذکر کیا ہے۔ عبیداللہ سندھی جب ہزاروں میل کا سفر کر کے ماسکو پہنچے تو ان کے پائوں زخمی ہو کر سوج چکے تھے۔ ولادیمیر لینن کی بیوی کرپسکایا نے نیم گرم پانی میں نمک ڈال کر انقلابی نظریات کی پیاس میں اتنا طویل سفر کرنے والے عبیداللہ سندھی کے پائوں دھوئے اور مرہم پٹی کی۔ دنیا کے تقریباً ایک چوتھائی رقبے پر قائم اس مزدور ریاست کے سربراہ کی اہلیہ کی اس عاجزی نے جو اثرات مولانا عبیداللہ سندھی کے دل و دماغ پر مرتب کئے ہوں گے انہیں شاید الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔
سوویت یونین میںعبیداللہ سندھی نے بالشویک مزدور ریاست کے سیاسی، سماجی اور معاشی نظام کا مطالعہ بہت قریب سے کیا۔ اس کے بعد وہ استنبول کے سفر پر روانہ ہوگئے جہاں انہوں نے سوویت جمہوریہ کی طرز پر ہندوستان جمہوریہ کا مجوزہ آئین مرتب کیا۔ جمہوریہ ہندوستان میں سرمایہ داری کا مکمل خاتمہ، ذرائع پیداوار اور ریاستی انتظام پر محنت کشوں کا کنٹرول اور بنیادی سہولیات کی ہر فرد تک فراہمی اس دستور کے کلیدی نکات تھے جس کو حتمی شکل انہوں نے ستمبر 1924ء میں دی۔ یہ اس دور کے واقعات ہیں جب سٹالن کی قیادت میں افسر شاہی نے بالشویک انقلاب کی روایات کو برباد نہیں کیا تھا۔
اس عہد میںاقبال نے مارکسزم اور بالشویک انقلاب کی پذیرائی میں ''کارل مارکس کی آواز‘‘ جیسی کئی نظمیں تحریر کیں۔ کارل مارکس کے نظریات، جدوجہد اور اس کی شہرہ آفاق کتاب ''سرمایہ‘‘ کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے مشہورشعر بھی لکھا:
وہ کلیم بے تجلی، وہ مسیح بے صلیب
نیست پیغمبر و لیکن در بغل دارد کتاب
برصغیر کے ایک اور مشہور مگر دلچسپ کمیونسٹ داد ا امیر حیدر خان بھی تھے۔ وہ 1900ء میں کلیاں سیداں ضلع راولپنڈی میں پیدا ہوئے۔ سوتیلے باپ نے سکول بھیجنے کی بجائے مدرسے میں ڈال دیا۔ مولوی کی مار پیٹ سے انہوں نے راہ فرار اختیار کی اور بمبئی پہنچ کر گودی میں مزدوری کرنے لگے۔ ایک بحری کمپنی میں شامل ہو کر ملاح کے طور پر سمندری سفر کیا اور امریکہ کے شہر بفلو میں ریلوے انجن مکینک کے طور پر کام کرنے لگے۔ انہوں نے فوجی تربیت کے ساتھ ساتھ ہوابازی اور میرین انجینئرنگ میں بھی مہارت حاصل کی۔وہ پائلٹ تھے، بحری جہازوں اور ریلوے کے انجینئر بھی تھے اور انتھک انقلابی بھی ۔ امریکہ میں ہی ان کی ملاقات مشہور مصنف اور صحافی ایگنس سملڈی سے ہوئی‘ جو عمر بھر کی یاد بن گئی۔ واپس آئے تو میرٹ سازش کیس میں ان کے وارنٹ نکل گئے۔ انڈر گرائونڈ کام کرتے ہوئے مدراس میںکمیونسٹ پارٹی کا نوجوان ونگ بنایا۔ فیکٹریوں میں سٹڈی سرکل چلایا کرتے تھے۔ سامراجی جبر شدید تر ہوجانے کے بعد وہ ماسکو چلے گئے۔ 1932ء میں واپس آئے تو گرفتار ہو گئے۔ دادا امیر حیدر ان جرأت مند کمیونسٹوں میں سے تھے جنہوں نے سٹالن اسٹ سوویت یونین کی برطانوی سامراج سے مصالحت کے تحت کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کی سامراج مخالف تحریک سے دستبرداری کی پالیسی کو مسترد کر دیا تھا۔ عمر بھر ریاستی جبر، قیدو بند اور جلاوطنی کی صعوبتیں کاٹنے کے باوجود مرتے دم تک ایک بالشویک رہے۔
1941ء میں سامراج سے سٹالن کے سمجھوتے سے پورے خطے میں چلنے والی قومی آزادی کی تحریک اور طبقاتی جدوجہد کو شدید دھچکا لگا۔دادا امیر حید ر کے علاوہ جن دوسرے کمیونسٹوں نے اس موقع پرستانہ پالیسی کی مخالفت کی ان میں اسرار الحق مجاز، منیر نظامی اور جوش ملیح آبادی سرفہرست تھے۔سٹالن ازم کے اسی نظریاتی جرم نے 1946ء میں جہازیوں کی بغاوت سے شروع ہونے والے انقلاب کو قیادت سے محروم کر کے برصغیر کے خونیں بٹوارے کی راہ ہموار ہوئی۔ جوش ملیح آبادی کوبرطانوی راج نے کئی اعلیٰ عہدوں کی پیشکش کی جسے انہوں نے ٹھوکر مار کر کمیونسٹ نظریات سے وفا کی۔ آزادی کی سرفروشوں نے انہیں 'شاعر انقلاب‘ کا لقب دیا۔
ان انقلابیوں پر بھی کفر کے فتوے لگتے تھے۔ آج بھی انقلابی مارکسزم کے نظریات پر سرمایہ دارانہ جبر و استحصال کے خلاف جدوجہد کرنے والوں کو کافر اور دیوانہ کہا جاتا ہے‘ لیکن اس کٹھن راہ پر چلنے والے صرف اس سائنسی یقین کے ساتھ نسل در نسل اپنی زندگیوں کو وقف کرتے آئے ہیں کہ رنگ، نسل ، مذہب اور فرقے کی تفریق، وحشت کے اس نظام کو بدلنے کی جدوجہد میں دراڑیں ڈالتی ہے۔ حکمران طبقہ ان تعصبات کو ابھارتا اور استعمال کرتا ہے۔تمام تر دولت اپنی محنت سے پیدا کر کے بھی محروم رہنے والوں کے مسائل ایک ہیں تو ان کی جدوجہد بھی ایک ہے۔مٹھی بھر حکمران طبقے کے ہاتھوں اکثریتی محنت کش عوام پر جبر کے اس نظام کے خلاف جدوجہد کو 'کفر‘ قرار دینے والے آخری تجزئیے میں شعوری یا لاشعوری طور پر حکمران طبقے کے آلہ کار ہیں۔ اصل کافر یہ الزام لگانے والے ہیں یا کہ وہ جن پر لگایا جاتا ہے؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں