کراچی اور دوسرے شہروں میں گرمی کی شدت اور لوڈ شیڈنگ سے اموات کا سلسلہ ابھی تھما نہیں لیکن حکمرانوں کے پاس اپنے جرائم اور مظالم چھپانے کے بھی کئی ہتھکنڈے ہوتے ہیں۔ میڈیا پر ایم کیو ایم کا بھارت سے پیسے لینے کا سکینڈل خوب اچھالا جا رہا ہے۔ حب الوطنی اور غداری کا یہ گھن چکر کوئی نیا نہیں۔ ذلت اور دلسوز واقعات کی بوچھاڑ جب عوام کے شعور کو جھنجوڑنے لگتی ہے، محکوم طبقہ جب اس نظام کی استحصالی بنیادوں کا ادراک حاصل کرنے لگتا ہے تو حکمرانوں کے ماہرین انہیں بالادست طبقات کی آپسی لڑائیوں میں الجھانے کی واردات کرتے ہیں۔
ایم کیو ایم اور اس کی قیادت پر یہ الزام پہلا ہے نہ آخری۔ ویسے دیکھا جائے تو حکمران طبقے کے مختلف دھڑوں کی جانب سے ایک دوسرے کی بدعنوانی اور بد اعمالی کو بے نقاب کرنے کا سلسلہ اس بحران زدہ ریاست اور سیاست کا معمول بن چکا ہے۔ نہ ختم ہونے والی تکرار، نان ایشوز، الزام تراشیوں اور بہتانوں کے سوا اشرافیہ کی اس سیاست کے پاس دینے کو ہے ہی کیا؟ لیکن اس طرح کے ہر شوشے کی حدود کچھ اس طرح سے طے کی جاتی ہیں کہ نظام کی بنیادوں سے نہ ٹکرا پائے۔
اگر ایک جماعت نے ایسا کیا ہے تو سرمائے کے مالیاتی نظام پر قائم دوسری سیاسی پارٹیاں اور ریاستی دھڑے بھی پیسے کی ہوس میں کسی حد تک جا سکتے ہیں اور جاتے ہیں۔ سیاسی معاشیات کی سائنسی بنیادوں پر اگر ایم کیو ایم کے مفروضے کا جائزہ لیا جائے تو سامنے آنے والے تلخ حقائق پھر''ملکی سالمیت‘‘کی اصلیت کو ہی بے نقاب کر دیں گے۔ ایم کیو ایم کے ابھار اور شہری سندھ میں سماجی بنیاد حاصل کرنے کی موضوعی اور معروضی وجوہ کا جائزہ لینا پڑے گا۔
موضوعی طور پر دیکھا جائے تو 1980ء کی دہائی میں ایم کیو ایم کا ابھارکچھ خود سے ہوا تھا، کچھ کروایا گیا تھا۔ 1968-69ء کی انقلابی تحریک کے دوران جب کراچی کا محنت کش طبقہ (خاص کر صنعتی مزدور یا پرولتاریہ) مارکس کے الفاظ میں ''اپنے اندر ایک طبقہ‘‘ ہونے سے معیاری جست لگا کر ''اپنے لیے ایک طبقہ‘‘ بن گیا تھا تو اس کی سماجی اور سیاسی طاقت سارے زمانے نے دیکھی تھی۔ کراچی پاکستان کے صنعتی مزدوروں کے گڑھ کا درجہ رکھتا ہے۔ یہ محنت کش جب تمام تعصبات کو مسترد کر کے ایک طبقاتی جڑت سے ابھرتے ہیں تو ایسی اکائی بن جاتے ہیں جسے دنیا کی کوئی طاقت شکست نہیں دے سکتی۔ پسپائی ہمیشہ قیادت کی کوتاہی، نظریاتی کمزوری یا کھلی غداری کی وجہ سے ہی ہوتی ہے۔ انقلابی تحریکوں کے دوران عملی اور مادی شکل میں نظر آنے والی محنت کش طبقے کی مخفی طاقت کو فیض صاحب کچھ یوں بیان کرتے ہیں:
یہ مظلوم مخلوق اگر سر اٹھائے
تو انسان ہر سرکشی بھول جائے
یہ چاہیں تو دنیا کو اپنا بنا لیں
مالکوں کی ہڈیاں تک چبا لیں
کوئی ان کو احساس ذلت دلا دے
کوئی ان کی سوئی ہوئی دم ہلا دے
بائیں بازو کی ریڈیکل اصلاحات کے باوجود، ریاست اور حکمران طبقے سے مصالحت کی یوٹوپیائی کوشش ( جسے آخری وقت میں ذوالفقار علی بھٹو نے تسلیم کیا) اور سوشلزم کا وعدہ پورا کرنے میں پیپلز پارٹی حکومت کی ناکامی نے محنت کش عوام کی امنگوں کو خاصا مجروح کیا۔ 1968-69ء کی تحریک سے جنم لینا والا انقلابی معروض اب پراگندگی میں بدلنے لگا۔ 1977ء میں انہی حالات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے امریکی سامراج کی ایما پر مارشل لا نافذ کیا گیا۔ ضیاء الحق کے تاریک عہد میں امریکہ اور مقامی ریاست کے پالیسی سازوں نے مزدور تحریک میں دراڑیں اور رعایا میں آپسی پھوٹ ڈالنے کے لیے مختلف زہریلے تعصبات کا استعمال کیا۔ جہاں 'اسلامائزیشن‘ کے نام پر مذہبی بنیاد پرستی اور فرقہ واریت شروع ہوئی وہاں لسانی اور نسلی تعصبات کو بھی ابھارا گیا۔ ایم کیو ایم کی بنیادیں اسی عہد میں استوار کی گئیں۔
معروضی طور پر دیکھا جائے تو پاکستان کا سماجی و اقتصادی ارتقا اتنا ناپائیدار اور غیر ہموار ہے کہ چھوٹی قومیتوں اور لسانی گروہوں میں محرومی کے جذبات شدت ہی پکڑتے گئے۔ یہاں کی نحیف اور بحران زدہ معیشت مہاجر عوام کو سماج میں سمو ہی نہیں پائی۔ یہ مفلوج سرمایہ داری تقسیم کے بعد ایک یکجا قوم تخلیق کرنے سے بالکل قاصر تھی۔ کراچی میں نہ ختم ہونے والی لسانی قتل و غارت گری درحقیقت بٹوارے کے زخم سے رستا ہوا لہو ہے۔
یہ کیفیت صرف سندھ تک ہی محدود نہیں ہے۔ اس بٹوارے میں پنجاب کو بھی چیرا گیا تھا۔ مشرقی پنجاب سے 40 لاکھ مہاجر مغربی پنجاب آباد ہوئے۔ 1968-69ء کے انقلاب میں ہراول کردار ادا کرنے والے لائل پور جیسے شہر، ضیا آمریت کے دوران مذہبی رجعت اور ذات پات یا برادری کے تعصبات میں ڈوبتے چلے گئے۔ ٹھوس معاشی بنیاد اور سماجی ترقی کے بغیر جعلی بنیادوں پر ''قوم‘‘ تخلیق کرنے کی کوششوں نے پنجابی ثقافت کو ''پاکستانیت‘‘ کا لبادہ چڑھا کر قتل کر دیا اور دوسری قومیتوں کے لیے ''پنجابی استعمار‘‘ بنا دیا۔ لینن نے قومی مسئلہ کے بارے لکھا تھا کہ ''دوسری قوموں کا استحصال کرنے والی قومیت سب سے پہلے اپنی ثقافت اور تہذیب کا خون کرتی ہے‘‘۔ آج نہ صرف پنجاب کے شہروں بلکہ دیہات میں بھی آبادی کی اکثریت پنجابی کی بجائے اردو بولنے کی کوشش کرتی ہے۔ پنجابی دنیا کی مرتی ہوئی زبانوں میں سے ایک ہے۔
''اداروں‘‘ کے ذریعے پروان چڑھائی جانے والی ایم کیو ایم کو جب مہاجر آبادی کی اطاعت، مجبوری اور یاس پر مبنی حمایت ملنے لگی تو یہ جماعت اپنے ہی بانیوں کو آنکھیں دکھانے لگی۔ اس کے مختلف دھڑوں کو مختلف ''ادارے‘‘یا اداروں کے مختلف دھڑے اپنے مفادات کے لیے استعمال کرتے رہے۔ مالیاتی سرمائے کی سیاست کا کردار، مالیاتی سرمائے کے کردار سے ہی متعین ہوتا ہے۔ کالی معیشت کی سیاست بھی سیاہ ہوتی ہے اور جرائم کی ڈھال بن جاتی ہے۔ غربت، محرومی اور تعصب کو استعمال کر کے نئے تعصبات ابھارے جاتے ہیں جن کی بنیاد پر جرائم کے کاروبار چلائے جاتے ہیں۔ مافیا کے آقا ''سیاسی رہنما‘‘ بن جاتے ہیں۔ ریاست کے مختلف حصے اس کھیل میں ملوث ہوتے چلے جاتے ہیں اور قتل و غارت گری، بھتہ خوری، قبضہ گری، اغوا برائے تاوان، منشیات اور اسلحے کا منافع بخش کاروبار پرپیچ ہوجاتا ہے۔ کالی معیشت کی کالی سیاست میں اس نظام زر کی ہر سیاسی پارٹی ملوث ہے۔ اندازاور طریقہ واردات تھوڑے مختلف ہو سکتے ہیں۔
''قومی سلامتی‘‘ اور ''خودمختاری‘‘ کا یہ مفروضہ بھی ہمارے ذہنوں میں ٹھونسا جاتا ہے کہ ایک ملک دوسرے ملک کے معاملات میں مداخلت نہیں کر سکتا یا نہیں کرنی چاہئے۔ اس سے بڑا فراڈ اور کیا ہوگا؟ یہاں معیشت ہی آئی ایم ایف جیسے سامراجی ادارے چلاتے ہیں، ہر ریاستی پالیسی ان کے احکامات کی لونڈی ہوتی ہے۔ یہاں کے کٹھ پتلی سیاسی اور ریاستی آقا پھرکیا ہوئے؟ بھارت کی مداخلت ہمیشہ سے ہی رہی ہے اور اس نظام میں رہے گی۔ کمی اِدھر سے بھی کوئی نہیں ہے۔ جب سرمائے سے ٹکرانے کا کوئی ٹھوس نظریہ نہ ہو تو سرمایہ جب، جسے چاہے خرید لیتا ہے۔ اس نظام پر یقین رکھنے والا کہیں نہ کہیں، کبھی نہ کبھی بک جاتا ہے، جھک جاتا ہے، مٹ جاتا ہے۔
کون سا ''محب وطن ادارہ‘‘ ہے جس نے دولت اور طاقت کے عوض کیا کچھ نہیں کیا۔ اتنے طویل عرصے تک قومی یا صوبائی اقتدار میں شاید ہی کوئی دوسری سیاسی پارٹی رہی ہو۔ اسی ایم کیو ایم کو وطن یار بنا کر پیش کرنے والے آج غدار قرار دے رہے ہیں۔ ان کا اپنا کردار کتنا مختلف ہے؟
مودی سرکار آنے کے بعد بھارتی ریاست کی دھونس، رعونت اور منافرت خاصی بڑھ گئی ہے۔ پاکستان میں مذہبی بنیاد پرستوں کے لیے اس سے اچھی بات بھلا کیا ہو سکتی ہے؟ ہر مذہب کی بنیاد پرستی دوسرے کی دشمنی پر ہی پلتی ہے۔ لیکن کچھ سامراجی قوتوں کے ساتھ ساتھ اس ملک کے حکمرانوں کے لیے بھی یہ لمحہ فکریہ ہے کہ ایم کیو ایم کو ختم کر دیا گیا اور 'مہاجر مقامی‘کا رجعتی تضاد مٹ گیا تو کراچی کے محنت کش عوام کی بغاوت کو پھر کون زائل کرے گا؟ کراچی کے عوام جس دن ان حکمرانوں کے سامنے ڈٹ گئے تو باقی شہر کیا خاموش رہیں گے؟
حکمرانوں کے مختلف دھڑوں کی الزام تراشی میں شدت، نظام کے بڑھتے ہوئے بحران اور ریاست کے کھوکھلے پن کی واضح علامت ہے۔ حکمران اگر ناکام ہیں تو محنت کشوں کی نئی نسل اذیت پر مبنی اس نظام کو بدل ڈالنے کے لئے بے کراں ہے!