"DLK" (space) message & send to 7575

امریکہ کے ساحل پر یورپ کے طوفان

یونان کئی ہفتوں سے شہ سرخیوں کا موضوع بنا ہوا ہے۔یہ ملک یورپی سرمایہ داری کی سب سے کمزور کڑی ثابت ہوا ہے۔ اور بھی کمزور کڑیاں ہیں۔ سپین، پرتگال، آئرلینڈ اور اٹلی بھی انہی راستوں پر گامزن ہیں‘{ جو یونان کو اس نہج تک لے آئے ہیں۔ یونان کے دیوالیہ ہونے نے ثابت کیا ہے کہ سرمایہ داری اپنی ترقی یافتہ ترین حالت میں بھی ویلفیئر ریاست کو برقرار رکھنے کے قابل نہیں رہی ہے۔ یورپی یونین اور یونانی حکومت کے درمیان 13 جولائی کو جس معاہدے پر دستخط ہوئے‘ اس کے تحت عوامی سہولیات پر ریاستی اخراجات مزید کم کر دیے جائیں گے، عام لوگوں پر ٹیکس بڑھائے جائیں گے، بڑے پیمانے پر نجکاری ہوگی اور تنخواہوں اور پنشن وغیرہ میں مزید کمی لائی جائے گی۔ یاد رہے کہ یہ 2008ء کے بعد اس طرح کا تیسرا معاہدہ ہے۔ اس عرصے میں یونان کے عوام پر بدترین معاشی حملے کئے گئے اور ملک کی معیشت 25 فیصد سکڑ گئی۔ نوجوانوں میں بیروزگاری کی شرح 50 فیصد سے زیادہ ہو چکی ہے۔ حالیہ معاہدہ درحقیقت یونان کو بڑی یورپی طاقتوں کی کالونی بنانے کے مترادف ہے۔ وزیر اعظم الیکسس سپراس نے بائیں بازو کی اصلاح پسندی کی روایتی روش اختیار کی اور اپنے تمام تر وعدوں اور دعووں کو کوڑے دان میں پھینک کر یونانی عوام کا سودا یورپی حکمرانوں اور آئی ایم ایف کے ساتھ کر آئے ہیں۔ یونان کے عوام کو اس بغاوت کی سزا دی جا رہی ہے جو انہوں نے 5 جولائی کے ریفرنڈم میں ''No‘‘ کو ووٹ دے کر یورپی ساہوکاروں اور سرمایہ داروں کے خلاف کی تھی۔
سائریزا کی قیادت تو یورپی بینکاروں اور آئی ایم ایف کے سامنے سر تسلیم خم کر چکی ہے‘ لیکن یونان کے محنت کش اور عوام ہار مانیں گے نہ مان سکتے ہیں۔ یونان میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ درحقیقت ایک دھماکہ خیز انقلاب کی شروعات ہے۔ تلخ ترین شرائط پر طے پانے والے اس معاہدے سے بھی کوئی معاشی بحالی یا استحکام نہیں آئے گا۔ پارلیمنٹ میں دائیں بازو کی پارٹیوں کی مدد سے سائریزا کی قیادت نے معاہدے کی توثیق تو کروا لی‘ لیکن پارٹی کے اندر پھوٹ کا آغاز ہو چکا ہے۔ سائریزا کے یوتھ ونگ اور اتحادی ٹریڈ یونین تنظیموں نے اس ڈیل کو یکسر مسترد کر دیا ہے۔ اسی طرح پارٹی کے 'لیفٹ پلیٹ فارم‘ کے ممبران پارلیمنٹ نے بھی ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔ سائریزا سے تعلق رکھنے والی ڈپٹی وزیر خزانہ اور یورپی امور کے وزیر نے احتجاجاً استعفیٰ دے دیا ہے۔ ووٹنگ کے وقت پارلیمنٹ کے سامنے بڑا احتجاجی مظاہرہ ہوا اور پولیس کے ساتھ ٹکرائو کا سلسلہ رات گئے تک جاری رہا۔ قیادت کی جانب سے کھلی غداری کے بعد پارٹی کے اندر بائیں بازو کے دھڑوں، خاص طور پر'کمیونسٹ رجحان‘ کی مقبولیت تیزی سے بڑھ سکتی ہے۔ 
یونان میں ہونے والے واقعات غیر معمولی ہیں‘ جو نہ صرف یورپ بلکہ پوری دنیا پر اپنے اثرات مرتب کر رہے ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام عالمی سطح پر شدید گراوٹ اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ عوام پر معاشی حملے اور معیار زندگی میں مسلسل گراوٹ‘ عالمگیر مظاہر کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔ ایسے میں نئی نسل ایک بار پھر بڑے پیمانے پر مارکسزم کے نظریات اور سوشلزم میں دلچسپی لے رہی ہے۔ اس کا اظہار مختلف ممالک میں مختلف سطحوں اور اشکال میں ہو رہا ہے۔ برطانوی لیبر پارٹی کے بائیں بازو (سوشلسٹ کمپین گروپ) سے تعلق رکھنے والا 'جرمی کوربائین‘ خاصی مقبولیت سے پارٹی لیڈر کے الیکشن میں حصہ لے رہا ہے۔ سپین میں 'پوڈیموس‘ کی شکل میں بائیں بازو کی نئی سیاست قوت ابھری ہے جس میں کئی ریڈیکل رجحان موجود ہیں۔
امریکہ میں صورت حال خاص طور پر دلچسپ ہے۔ دنیا بھر میں ''اینٹی کمیونسٹ‘‘ سمجھے جانے والے اس ملک کے محنت کش اور نوجوان انگڑائی لے رہے ہیں اور بیدار ہو کر تاریخ کے میدان میں اترنے کو ہیں۔ پورے ملک میں ریاستی مشینری کے لسانی تعصب کے خلاف عوام کا غم و غصہ احتجاجی تحریکوں کی شکل میں پھٹ رہا ہے۔ مختلف اداروں اور صنعتوں میں ہڑتالوں کی تعداد میں اگرچہ گزشتہ کچھ مہینوں کے دوران اضافہ ہوا ہے لیکن محنت کش طبقے کی بغاوت ٹریڈ یونینز میں مرکوز ہو کر اپنا اظہار نہیں کر رہی ہے۔ اس کی اہم وجہ ٹریڈ یونین قیادتوں کی موقع پرستی اور سرمایہ دارانہ نظام کی مکمل تابعداری ہے۔ مزدور تحریک اگر آگے بڑھتی ہے تو ریڈیکلائزیشن میں اضافہ ہو گا اور نا گزیر طور پر روایتی قیادتوں کا نام و نشان بھی مٹ جائے گا، لیکن فی الوقت محنت کش طبقہ ''آکو پائی وال سٹریٹ‘‘ ، ''سیاہ فاموں کی زندگیاں بھی قیمتی ہیں‘‘ اور ''15 ڈالر فی گھنٹہ اجرت‘‘ جیسی تحریکوں کے ذریعے اپنی امنگوں کا اظہار کر رہا ہے۔ 
امریکی سیاست میں سب سے اہم پیش رفت 'برنی سینڈرز‘ کی بڑھتی ہوئی مقبولیت ہے۔ برنی سینڈرز امریکی ریاست 'ورمونٹ‘ کا سینیٹر ہے اور ڈیموکریٹک پارٹی کے صدارتی امیدار کی نامزدگی کے لئے الیکشن مہم چلا رہا ہے۔ اس نے ''سیاسی انقلاب‘‘ اور ''جمہوری سوشلزم‘‘ کا نعرہ لگایا ہے‘ جسے کروڑوں امریکی شہریوں میں مقبولیت ملی ہے۔ یہ مضحکہ خیز صورت حال ہے کہ ایک ایسے ملک میں خود کو دھڑلے سے ''سوشلسٹ‘‘ قرار دینے والے سیاستدان کو پذیرائی مل رہی ہے‘ جہاں حکمرانوں نے سوشلزم اور کمیونزم کے الفاظ کو اپنے تئیں گالی بنا دیا ہے۔ برنی سینڈرز امریکہ میں بڑھتی ہوئی عدم مساوات اور ''ارب پتی طبقے‘‘ کی لوٹ مار کو تنقید کا نشانہ بنا رہا ہے اور ریاستی ہیلتھ کیئر سسٹم کے تحت ہر شہری کو مفت علاج کی فراہمی کا پروگرام دے رہا ہے ۔ کچھ عرصہ پہلے تک امریکی سیاست میں ایسی باتوں کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا!
برنی سینڈرز کی ذاتی خواہشات کچھ بھی ہوں لیکن ڈیموکریٹک پارٹی امریکی حکمران طبقے کا ہی ایک سیاسی دھڑا ہے جس کی معاشی پالیسیاں ری پبلکن پارٹی سے چنداں مختلف نہیں۔ ویڈال گور نے امریکہ کی سیاست پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ''امریکہ میں سرمایہ داروں کی ایک پارٹی ہے جس کے دو دائیں بازو ہیں: ڈیموکریٹ اور ری پبلکن‘‘۔ برنی سینڈرز اگر ڈیموکریٹک پارٹی کی جانب سے نامزد ہو کر صدارتی الیکشن جیت بھی لیتا ہے‘ تو جارج بش یا بارک اوباما سے مختلف کچھ نہیں کر پائے گا۔ یونان کے واقعات نے بالکل واضح کر دیا ہے کہ آج سرمایہ دارانہ نظام میں اصلاحات کی کوئی گنجائش نہیں بچی۔ انقلابی پروگرام سے لیس، ٹھوس تنظیمی ڈھانچوں پر مشتمل اور وسیع عوامی بنیادیں رکھنے والی محنت کش طبقے کی پارٹی کے بغیر سرمائے کے حصار کو توڑا نہیں جا سکتا۔ 
لیکن تمام تر نظریاتی اور سیاسی محدودیت کے باوجود برنی سینڈرز کی انتخابی مہم سے امریکی میڈیا اور سماج میں سوشلزم کی بحث جس پیمانے پر شروع ہو چکی ہے، اس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی۔ سینڈرز اگر ڈیموکریٹک پارٹی سے ہٹ کر آزاد صدارتی امیدوار کے طور پر سامنے آتا تو محنت کش طبقے کی اپنی سیاسی قوت کی بنیادیں استوار ہو سکتی تھیں۔ مستقبل میں شاید حالات اسے یہ 
کرنے پر مجبور بھی کریں۔ ایک حالیہ سروے کے مطابق ''صرف‘‘ 47 فیصد امریکی شہری ایک سوشلسٹ صدرکو منتخب کرنا پسند کریں گے۔ اگر ڈیموکریٹ، ریپبلکن اور آزاد امیدار کے درمیان مقابلہ ہوتا ہے تو یہ 47 فیصد ووٹ یقینی فتح کے ضامن ہیں۔ یاد رہے کہ 1860ء میں ابراہم لنکن صرف 39.7 فیصد ووٹ لے کر صدر منتخب ہوا تھا اور غلام داری کے خلاف انقلابی جنگ کی قیادت کی تھی۔ امریکہ کا حکمران طبقہ آج ان انقلابات کا ذکر کرنے سے بھی ڈرتا ہے جن کے ذریعے جدید سرمایہ دارانہ امریکی سماج کی بنیاد ڈالی گئی تھی۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ 150 سال بعد ان کا نظام تاریخی طور پر متروک ہو کر بند گلی میں داخل ہو چکا ہے اور سماج ایک نئے نظام کا متقاضی ہے‘ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ تاریخ میں کسی حکمران طبقے نے اپنی ملکیت، مراعات اور اقتدار کو رضاکارانہ طور پر نہیں چھوڑا ہے اور ایک نظام کی کوکھ سے نئے نظام کا جنم انقلابات کے ذریعے ہی ہوتا ہے۔ 
نہ صرف یورپ اور امریکہ، بلکہ پوری دنیا میں ایک نیا عہد طلوع ہو رہا ہے۔2011ء میں عرب انقلاب اور 'آکو پائی تحریک‘ کے واقعات نے سوویت یونین کے انہدام سے جنم لینے والا جمود توڑ ڈالا تھا۔ آج دہائیوں پرانی سیاسی روایات اور بظاہر چٹان نظر آنے والی ریاستیں ٹوٹ کر بکھر رہی ہیں۔ بولیویا سے لے کر ونزویلا، ایکواڈوراور چلی تک، لاطینی امریکہ میں ریڈیکل بائیں بازو کی تحریکیں سیاست پر حاوی ہیں۔ گزشتہ کچھ عرصے سے پورے یورپ میں طبقاتی جدوجہد کا نیا ابھار ہو رہا ہے۔ گلوبلائزیشن کے اس عہد میں کسی ایک ملک میں انقلابی واقعات کے اثرات بھی گلوبل ہیں۔ امریکہ کے محنت کش اور نوجوان بھی اس انسان دشمن نظام کے خلاف عالمی جدوجہد میں پیچھے نہیں رہیں گے۔ پوری دنیا کا محنت کش طبقہ آج یہ ادراک حاصل کر رہا ہے کہ ''ہمارے پاس کھونے کو صرف زنجیریں اور پانے کو سارا جہان پڑا ہے‘‘۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں