کارپوریٹ میڈیا اور حکمران طبقے کی عجیب کارستانیاں ہوتی ہیں۔ اول تو ایسی تحریکیں جن میں خونزیزی کی بجائے محنت کش طبقے اور نوجوانوں کی حریت پسندانہ جدوجہد حاوی ہو، انہیں میڈیا کی کوریج کم ہی ملتی ہے، حکمرانوں کے مسلسل جبر و استحصال سے ایسی تحریکیں جب بھڑک اٹھتی ہیں تو انہیں خون میں ڈبونے والے یہی حکمران ہوتے ہیں اور ریاستی دہشت گردی کا وحشیانہ استعمال کیا جاتا ہے، آگ اور خون کی اس ہولی کو میڈیا کی ہیڈ لائنز پر جگہ تو ملتی ہے لیکن ذمہ دار مظلوموں کو ہی ٹھہرایا جاتا ہے۔ پھر یہ خونریزی جب معمول بن جائے تو یہی کارپوریٹ میڈیا کسی نئی سنسنی خیزی کی تلاش میں سارے ایشو کو یوں فراموش کر دیتا ہے جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔
کشمیر ہو یا فلسطین، ایسے سلگتے ہوئے تنازعات، جن کا حل اس نظام کے سامراجی اور مقامی حکمرانوں کے پاس نہیں ہے، ٹیلی وژن سکرین اور اخبار کی شہ سرخیوں سے یکسر غائب کر دیے جاتے ہیں۔ لیکن اگر کسی سلگتے ہوئے مسئلے کو کوریج نہیں مل رہی تو اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ مسئلہ حل ہو گیا ہے اور تضادات ختم ہو گئے ہیں۔ تحریکوں اور تصادم کی آگ تو کبھی زیادہ کبھی کم شدت سے سلگتی ہی رہتی ہے۔ حکمرانوں کے لگائے ہوئے زخم رستے رہتے ہیں، محکومی اور استحصال کے خلاف بغاوت اور نفرت کے عوامی جذبات بھڑکتے رہتے ہیں۔
آپسی مقابلہ بازی اور ریٹنگ کی دوڑ میں کارپوریٹ میڈیا کو کبھی حریت کی تحریکوں کی کوریج پر مجبور بھی ہونا پڑے تو اس کا زاویہ ایسا ہوتا ہے سرمایہ دارانہ نظام کی حدود کو پامال کرنے والے کسی حل کی سوچ نہ پنپ سکے۔ مسئلہ فلسطین کے ساتھ یہ سلوک گزشتہ سات دہائیوں سے کیا جا رہا ہے۔ میڈیا جب مسئلہ فلسطین کی کوریج کرتا بھی ہے تو اس کے تجزیہ نگار اور ''ماہرین‘‘ ایسا ''حل‘‘ پیش کرتے ہیں جو سامراجی مفادات اور علاقائی سٹیٹس کو سے مطابقت رکھتا ہو اور بالکل بھی قابل عمل نہ ہو! اسرائیل فلسطین تنازعے میں امریکی سامراج کے پیش کئے گئے ''دو ریاستی‘‘ حل کو گزشتے 30 برس کے تجربات اور واقعات نے بالکل نامراد ثابت کیا ہے۔ لیکن ایک ریاست میں رہنا بھی فلسطینیوں کی غلامی کا خاتمہ نہیں کر سکتا۔ یہ درحقیقت ایک ایسا تنازع ہے جس کا کوئی حل سرمایہ دارانہ نظام کی ریاست، سیاست اور سفارت میں ممکن ہی نہیں ہے۔ اس نظام زر میں محکوم قوموں کو آزادی دینے ہی اہلیت ہی نہیں ہے۔ اس مسئلے کو عالمی اور علاقائی حکمران حل کر سکتے ہیں نہ کرنا چاہتے ہیں کیونکہ اپنے مفادات اور حاکمیت کی طوالت کے لئے سب اسے استعمال کرتے ہیں۔
یروشلم میں ایک مرتبہ پھر تصادم اور قتل و غارت گری پھوٹ پڑی ہے۔ جبر، محرومی اور تضحیک کے ستائے فلسطینی نوجوان بے بسی کی انتہا پر صہیونی ریاست کے حامیوں پر چاقوئوں کے وار کر کے جواب میں گولیاں کھا کے مر رہے ہیں۔ ان کا جینا کس قدر دشوار ہو گا، زندگی کتنی اذیت ناک ہو گی کہ بے موت مر جانے پر وار کر کے مرنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ اقوام متحدہ سے لے کے ''مہذب مغرب‘‘ کے حکمرانوں تک، سب کے سب اس صہیونی فسطائیت پر نہ صرف خاموش ہیں بلکہ پس پردہ اس کی حمایت بھی کر رہے ہیں۔ مذہبی جنون اور وحشت کو سلگا سلگا کر نیتن یاہو جیسے دائیں بازو کے حکمران ''اسرائیل کی بقا‘‘ کے نام پر سات دہائیوں سے ظلم اور بربریت کا کھلواڑ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ نہ صرف قدیم دیومالائی داستان کو جواز بنا کر فلسطینیوں سے ان کی زمین چھین لی گئی بلکہ اب تو انہیں دنیا کے سب سے بڑے اوپن ایئر قید خانے (غزہ) میں مقید کر دیا گیا ہے۔
امریکی سامراج دنیا کی سب سے بڑی عسکری اور اقتصادی طاقت ہونے کے باوجود صہیونی ریاست کے سامنے بے بس نظر آتا ہے۔ اس ریاست کے ہر ظلم کو تسلیم کر کے اس کی حمایت کرنا مغربی سامراجیوں کی مجبوری اور کلیدی پالیسی بن چکی ہے۔ فلسطین کے مسئلے پر تین عرب اسرائیلی جنگیں ہو چکی ہیں۔ ان جنگوں سے فلسطین کی غلامی میں کمی کی بجائے اضافہ ہی ہوا ہے۔ فلسطینیوں کی مظلومیت کو اپنے وحشی اقتدار کی طوالت کے لئے استعمال کرنے والے یہی عرب حکمران آج اسرائیلی حکمرانوں سے خفیہ اور سر عام خوب یارانے بڑھا رہے ہیں۔ اگر ان عرب آمروں اور بادشاہوں کی دولت اور عیاشی کا موازنہ فلسطین کے تباہ حال عوام سے کیا جائے تو اس ''امت مسلمہ‘‘ کی حقیقت بے نقاب ہو جاتی ہے۔ خلیج سے لے کر مصر تک، یہ شاہی اور فوجی فرعون پورے خطے کو پاگل درندوں کی طرح چیر پھاڑ رہے ہیں۔ ''امت مسلمہ‘‘ جس طرح آج آپس میں برسر پیکار ہے اس سے عیاں ہو جاتا ہے کہ مسلمان قوم پرستی کتنا بڑا سراب تھا۔
فلسطین میں ایک طرف کٹھ پتلی صدر محمود عباس اسرائیلی حکمرانوں سے ''مذاکرات‘‘ کا ناٹک رچا رہا ہے تو غزہ کے مذہبی بنیاد پرست، حماس سے لے کر 'اسلامی جہاد‘ تک، اسرائیل دشمنی کو استعمال کرتے ہوئے ہر ترقی پسند سوچ اور انقلابی نظریے کو بے دردی سے کچلنے میں مصروف ہیں۔ فلسطینی نوجوانوں کے پاس صرف دو ہی راستے ہیں: مزاحمت یا موت! محکومی اور زندگی اور زندہ لاشوں میں کوئی فرق نہیں رہ جاتا۔ اور محکومی صرف مذہبی یا قومی ہی نہیں ہوتی بلکہ معاشی اور سماجی محکومی زیادہ اذیت ناک ہوتی ہے۔ لیکن فلسطینیوں کی مسلح جدوجہد مسئلے کو حل کرنے کی بجائے اسرائیل کی ریاستی دہشت گردی میں اضافے کا ہی باعث بنی ہے۔ مذاکرات میں صرف مذاکرات ہی ہوتے ہیں۔ امیر فلسطینی حکمرانوں کو سفارتی نمائش ملتی ہے اور محنت کشوں کو گمنامی اور ذلت کے اندھیرے۔
اس نظام زر کے اقتدار کے تقاضے ہر اصول، سچائی اور ضمیر کا سب سے پہلے قتل کرواتے ہیں۔ فلسطینی عوام کو ہر طرف سے غداری اور بے وفائی ہی ملتی ہے لیکن پھر بھی وہ جھکنے اور گھٹنے ٹیکنے سے انکاری ہیں۔ فلسطین کے سماج میں بار بار موج بے کراں ابھرتی ہے جسے ساحل نصیب نہیں ہوتا۔ مزاحمت کی یہ لہر اگلی بار پھر سے ابھرنے کے لئے پسپا ہو جاتی ہے۔ سب حکمران پرکھے ہوئے ہیں۔ رنگ، نسل، مذہب، مسلک اور قومیت کے تمام رشتے فریبی ثابت ہوئے ہیں۔ اس نظام کی نمائندہ ہر شخصیت، ادارے اور ریاست نے اس مسئلے کو اپنے مفادات کے لئے ہی استعمال کیا ہے۔ لیکن کب تلک؟
مشرق وسطیٰ میں 2011ء کے انقلابی طوفان جہاں بہت کچھ تبدیل کر دیا ہے وہاں یہ پتا دیا ہے کہ اپنا کون ہے اور پرایا کون۔۔۔۔! اپنے وہی ہیں جن کے حالات زندگی اور مسائل مشترک ہیں۔ جن کی جڑت کی بنیاد قوم یا مذہب نہیں بلکہ غربت، بیروزگاری اور بھوک ہے۔ ان کی مشترک قدر ان کا طبقہ ہے۔ فلسطین میں انتفاضہ پہلے بھی 1987ء اور 2000ء میں ابھرا تھا اور یہ عوامی بغاوت پھر سے بھڑکنے کے آثار پھر سے پیدا ہو رہے ہیں۔ پچھلے 70سال میں آزادی فلسطین اور غلامی سے نجات کے لئے مسلح جدوجہد، انفرادی دہشت گردی، جنگ اور مذاکرات کے جتنے بھی طریقہ کار اختیار کئے گئے ہیں وہ ناکام ثابت ہوئے ہیں اور مسئلہ زیادہ گمبھیر ہی ہوا ہے۔ اگر جدوجہد کا کوئی طریقہ کار کارگر ثابت ہوا ہے تو وہ ہڑتال اور احتجاجی مظاہروں پر مبنی اجتماعی عوامی مزاحمت یا بغاوت کا طریقہ تھا جو دو بار 'انتفاضہ‘ میں نظر آیا۔ ان تحریکوںنے صہیونی حکمرانوں کو مذاکرات میں رعایتیں دینے اور بہت سے قیدی رہا کرنے پر مجبور کیا۔ لیکن انتفاضہ بکھرنے کے بعد یہ رعایتیں واپس لے لی جاتی ہیں اور جبر پھر سے بڑھا دیا جاتا ہے۔ حتمی آزادی اور نجات صرف وہی انتفاضہ حاصل کر سکتا ہے جو اس نظام کو ختم کر کے دم لے گا۔
صہیونی ریاست کے ستم سے گھائل اور عرب حکمرانوں کی غداریوں سے چُور فلسطینی عوام اب اگر بغاوت میں ابھرتے ہیں تو انہیں جس جنگ کو جیتنا ہو گا وہ قومی یا مذہبی نہیں بلکہ طبقاتی جنگ ہے۔ یہ جنگ تب ہی اپنے منطقی انجام کو پہنچے گی جب صہیونی ریاست کے ساتھ ساتھ ان سے مادی مفادات میں منسلک رجعتی عرب حکمرانوں کے تخت بھی اکھاڑ دے۔ مشرق وسطیٰ کے محنت کشوں اور نوجوانوں کو یہ فریضہ ریاستوں کی جعلی لکیروں کو روندتے ہوئے طبقاتی بنیادوں پر یکجا ہو کر ادا کرنا ہوگا۔ مشرق وسطیٰ کی رضا کارانہ سوشلسٹ فیڈریشن ہی خطے میں آزادی اور خوشحالی کی ضمانت ہے۔ یہی 2011ء کے عرب انقلاب کی تکمیل ہو گی جو یروشلم سے قاہرہ، تیونس سے تل ابیب اور بحرین سے حیفہ تک ابھرا تھا۔