عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوںمیں گراوٹ اور سامراجی مالیاتی اداروں کی طرف سے دی جانے والی بلند ریٹنگ کے باوجود پاکستانی معیشت کی تنزلی بڑھ رہی ہے۔ ہمیشہ کی طرح اعداد و شمار کے ہیر پھیر سے ''معاشی ترقی‘‘ کا جو فریب حکمران دے رہے ہیں اس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ خود زیادہ پر امید نہیںہیں۔ پاکستان کا تجارتی خسارہ 2014-15ء میں ریکارڈ 22.095ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہے۔ مالیاتی خسارہ بھی بے قابو ہے۔ بیرون ملک محنت کشوں کی ترسیل کردہ رقوم کے علاوہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے مہنگے قرضے لے کر اور حکومتی بانڈ انتہائی بلند شرح سود پر فروخت کرکے مصنوعی طور پر زرمبادلہ کے زخائر برقرار رکھے گئے ہیں۔ 70ارب ڈالر کے بیرونی قرضے کے سامنے 20ارب ڈالر کا زرمبادلہ بے وقعت ہے۔
پاکستان کی معیشت روز اول سے بحران کا شکار رہی ہے۔ سوائے 1972تا 74ء کے چند سالوں کے، ہر حکومت نے اس بحران کا بوجھ عوام پر ڈالا ہے۔ ہر مرتبہ کشکول توڑنے کا نعرہ لگانے والا پہلے سے بڑا کشکول لے آیا۔ گزشتہ تقریباً ایک صدی سے دنیا ایک معاشی اکائی بن چکی ہے اور پاکستان سمیت ہر سرمایہ دارانہ ملک کی معیشت اس عالمی منڈی سے منسلک ہے اور اس کے تابع بھی۔ اس لئے ممکن نہیں کہ عالمی معیشت کا بحران ہر ملک پر اپنے اثرات مرتب نہ کرے۔
پاکستان کے حکمران اور ان کے پالیسی ساز اس لئے بھی بے بس ہیں کہ 2008ء کے عالمی مالیاتی کریش سے جہاں امریکہ، یورپ اور چین کی معیشتیں بیٹھ گئی ہیں وہاں عالمی مالیاتی ادارے اس قدر روبہ زوال ہیں کہ ان کا اپنا وجود خطرے میں ہے۔ یہاں کے ریاستی آقا آنے والے نسلوں کو گروی رکھوا کر اپنے خساروں کو ان سامراجی مالیاتی اداروں کے قرضوں میں تبدیل کر لیا کرتے تھے لیکن اب یہ راستہ بھی بند ہوتا نظر آتا ہے۔
دوسری عالمی جنگ کے بعد سامراج نے جو نیا معاشی اور اقتصادی ورلڈ آرڈر استوار کیا تھا اس کا خالق امریکی وزیر تجارت 'ایوریل ہیری مین‘ تھا۔ 1944ء میں امریکہ کے ایک قصبے بریٹن ووڈز میں دنیا بھر کی سامراجی طاقتوں کے گھاگ معیشت دان اکٹھے ہوئے اور آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی بنیاد ڈالی گئی۔ اس کے ساتھ 'فکسڈ ایکسچینج ریٹس‘ کا نظام بھی رائج کیا گیا جو 1970ء کی دہائی تک ہی چل پایا اور 1974ء کے معاشی بحران میں ختم ہو گیا۔ لیکن اب 2008ء کے بعد ان مالیاتی اداروں کو جو ضرب لگی ہے اس سے متعلق سرمایہ داری کے مستند جریدے 'اکانومسٹ‘ کا اپنا کہنا ہے کہ ''عالمی معاشی ڈھانچے کے تینوں ستون عالمی مالیاتی فنڈ (IMF)، ورلڈ بینک اور ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن انتہائی خستہ حالی اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔‘‘
اگر آئی ایم ایف کی بات کی جائے تو اس کو قائم کرنے کا مقصد خسارے کا شکار ممالک کو قرضہ دینا تھا تاکہ سرمایہ دارانہ ریاستوں کو دیوالیے سے بچایا جا سکے۔ اب جبکہ عالمی سطح پر ریکارڈ خسارے نظر آ رہے ہیں اس کا کردار بڑھ جانا چاہئے تھا لیکن یہ ادارہ لڑکھڑا رہا ہے۔ امریکہ آج بھی آئی ایم ایف کے تمام فیصلوں پر ویٹو کا اختیار رکھتا ہے لیکن اس کی اپنی مالی حالت خاصی نازک ہے۔ امریکی ریاست 19ہزار ارب ڈالر کی مقروض ہے جو امریکہ کے جی ڈی پی سے بھی زیادہ ہے اور اگر ڈالر عالمی کرنسی نہ ہوتا اس کی حالت یونان جیسی ہوتی۔ اسی طرح دوسرے سامراجی ممالک کی زوال پذیر معیشتیں بھی آئی ایم ایف کو فنڈ فراہم کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ ان حالات میں ''اصلاحات‘‘ کے ذریعے آئی ایم ایف کو بچانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔لیکن یہ اصلاحات نافذ بھی ہوجاتی ہیں تو آئی ایم ایف کی تجوری میں ایک ہزار ارب ڈالر بچیں گے جبکہ اپنی معمول کی 'کارروائیاں‘جاری رکھنے کے لئے اس ادارے کو ہر وقت کم از کم 6ہزار ارب ڈالر درکار ہوتے ہیں۔ اگر اتنے مالی ذخائر آئی ایم ایف کے پاس نہیں ہیں تو پھر کسی معیشت کو دیوالیے سے بچانے کی گارنٹی یہ ادارہ نہیں دے سکتا۔مشکلات کے شکار آئی ایم ایف اپنے قرضوں کی شرح سود میں بھی اضافہ کر دیا ہے۔ اس کا نتیجہ پاکستان جیسے مقروض ممالک پر سود کے مزید بوجھ کی شکل میں برآمد ہوگا جسے عوام کو ہی برداشت کرنا پڑے گا۔
جنوب مشرقی ایشیا کے ممالک (نام نہاد 'ایشین ٹائیگرز‘) جب 1997-98ء میں مالیاتی کریش کا شکار ہوئے تھے تو آئی ایم ایف نے اتنی تلخ شرائط پر قرضے دئیے تھے کہ انہوں نے آئندہ کے لئے توبہ کر لی تھی۔ بعد کے عرصے میں انہوں نے زرمبادلہ کے بڑے ذخائر اکٹھے کئے ہیں لیکن عالمی معیشت اور تجارت کا بحران جتنا گہرا ہوتا جارہا ہے اس میں کب تک یہ ذخائر برقرار رکھے جا سکیں گے؟ سعودی عرب کا شمار زرمبادلہ کے وسیع ترین ذخائر رکھنے والے ممالک میں ہوتا ہے لیکن گزشتہ صرف ایک سال میں یہ ذخائر 750ارب ڈالر سے 650ارب ڈالر پر آ گئے ہیں اور اسی عرصے میں 7فیصد کا بجٹ سرپلس 16فیصد کے بجٹ خسارے میں بدل گیا ہے۔
'اکانومسٹ‘ مذکورہ بالا مضمون میں مزید لکھتا ہے کہ '' ورلڈ بینک اور WTOسرک رہے ہیں۔ ''ابھرتی ہوئی معیشتوں‘‘ کو دئیے جانے والے قرضے اب 13فیصد سے گر کر 1فیصد رہ گئے ہیں، اسی طرح WTOکا کوئی نیا معاہدہ 20سال سے نہیں ہوا ہے...معاشی بحران کی شدت کی وجہ سے مختلف ممالک کسی عالمی تجارتی معاہدے کو قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں اور امریکہ میں اتنی سکت نہیں ہے ان کو زبردستی راضی کر سکے۔‘‘فنانشل ٹائمز کے مطابق ''سرمایہ کاری اور طلب کے ساتھ معیشت بھی گر رہی ہے۔ 2007ء سے پہلے منڈی میں طلب کا ایندھن قرضے تھے...اب یہ ایندھن ختم ہو گیا ہے۔‘‘
مارکس نے سرمایہ داری کے بحرانات کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ''منڈی کی حدود سے لاتعلق پیداوار، سرمایہ دارانہ طرز پیداوار کی فطرت ہے۔پیداوار میں اضافہ منڈی کے حجم میں اضافے سے کہیں تیز ہوتا ہے۔پھر ایک وقت آتا ہے جب منڈی بہت چھوٹی پڑ جاتی ہے۔ہر معاشی سائیکل کے اواخر میں یہی ہوتا ہے۔ منڈی اجناس سے بھر جاتی ہے اور زائد پیداوار کا بحران سامنے آتا ہے۔‘‘سرمایہ داری اپنی تمام تاریخ میں اسی بحران کا شکار ہوتی رہی ہے اور آج بھی ہے۔ یہی بحران مالیاتی سیکٹر میں اپنا اظہار مختلف شکلوں میں کرتا ہے۔
کرنسی کی قدر کی سونے سے وابستگی 1929ء کے 'گریٹ ڈپریشن‘ نے ختم کر دی تھی۔ اس کے بعد سے جنگل کا قانون ہے جس میں کرنسی چھاپنے پر کوئی قدغن نہیں۔صرف 2008ء کے بعد امریکہ نے 4ہزار ارب ڈالر ''مقداری آسانی‘‘ (Quantitative Easing)کے پروگرام کے تحت چھاپے ہیں۔ دوسرے ممالک کو شامل کیا جائے تو اس دوران چھاپے جانے والے نوٹوں کی مالیت 12ہزار ارب ڈالر بنتی ہے۔ یوں ترقی یافتہ ممالک میں بینکوں کی کم شرح سود (تقریباً صفر) کسی معاشی بہتری نہیں بلکہ شدید بحران کی غمازی کرتی ہے۔
پاکستان کی موجودہ حکومت تاریخ کی کم ترین شرح سود کو بڑا کارنامہ قرار دے رہی ہے لیکن یہ سستے داخلی قرضے سب سے زیادہ حکومت خود لے رہی ہے، پیداواری شعبے میں کوئی سرمایہ کاری نہیں ہو رہی جس کی بنیادی وجہ عوام کی قوت خرید میں مسلسل گراوٹ اور سرمایہ دار طبقے کا اپنے ہی نظام کے مستقبل پر عدم اعتماد ہے۔ کم شرح سود نچلے درمیانے طبقے کے بہت سے خاندانوں کو برباد کر رہی ہے جن کا گزارہ ہی پنشن وغیرہ بینک میں رکھ کر ہوتا ہے۔
ایک اہم مسئلہ عالمی سرمایہ داری کو یہ لاحق ہے کہ ڈالر کھوکھلا ہے لیکن یورو یا یوان جیسی کسی دوسری کرنسی میں اتنی طاقت نہیں کہ عالمی کرنسی کا درجہ حاصل کر سکے۔ چینی حکمران گزشتہ کچھ عرصے سے یوان کو ڈالر کے مقابلے میں لانے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن چینی معیشت کریش لینڈ کر رہی ہے اور شرح نمو 14سے 6.8فیصد پر آ گری ہے۔ یورپ میں یونان کے پیچھے دیوالیہ ہونے والوں کی قطار بنی ہوئی ہے اور سب کچھ کچے دھاگے سے لٹکا ہوا ہے۔ عالمی معیشت کی شرح نمو جمود کا شکار ہے، تجارت مسلسل کم ہو رہی ہے، منڈی ٹھنڈی پڑی ہے، سرمایہ کار بداعتمادی کا شکار ہیں اور تیل برآمد کرنے والے ممالک کا دیوالیہ نکل ہے ۔سرمایہ داری کے کسی معیشت دان کے پاس رجائیت کا کوئی تناظر نہیں ہے۔ ایسے میں پاکستان کی تاریخی طور پر دیوالیہ سرمایہ داری پر براجمان حکمران یہاں کے عوام کو سوائے ذلت اور محرومی کے کیا دے سکتے ہیں؟امید کی واحد کرن سرخ سویرے سے پھوٹ سکتی ہے جو اس نظام کی طویل تاریکی کا خاتمہ کرے گا۔