آج سے 44 سال قبل، 16اور 17دسمبر کو سقوط ڈھاکہ ہوا۔ مشرقی پاکستان میں شرمناک شکست کے بعد پاکستانی فوجیوں نے ہتھیار ڈال دئیے۔مشرقی پاکستان کے مارشل لاایڈمنسٹریٹر لیفٹیننٹ جنرل اے کے نیازی نے اپنی سروس ریوالور بنگلہ دیش ہندوستان کی اتحادی افواج کے جوائنٹ کمانڈر جنرل جگجیت سنگھ ارورا کے حوالے کر کے باضابطہ طور پر شکست تسلیم کی۔ بنگلہ دیش آرمڈ فورسز کی طرف سے ایئرکموڈور اے کے کھنڈکر بطور گواہ اس موقع پر موجود تھے۔ ہتھیار ڈالنے اور طاقت کی منتقلی کے جس معاہدے پر دستخط ہوئے اس کا متن کچھ یوں تھا: ''پاکستان کی مشرقی کمانڈ بنگلہ دیش میں موجود تمام پاکستانی مسلح افواج سمیت مشرقی محاذ پر ہندوستانی اور بنگلہ دیشی افواج کے کمانڈنگ آفیسر لیفٹیننٹ جنرل جگجیت سنگھ ارورا کے سامنے ہتھیار ڈالتی ہے۔ ہتھیار ڈالنے کے اس عمل میں بری، فضائی، سمندری افواج سمیت تمام پیراملٹری اور سول دستے شامل ہیں۔ یہ افواج جہاں کہیں بھی ہیں ہتھیار ڈال کر خود کو جنرل جگجیت سنگھ ارورا کے سپاہیوں کے حوالے کر دیں گی۔ ‘‘ معاہدے پر دستخط کے بعد 93 ہزار افسران اور سپاہی بھارتی فوج کے جنگی قیدی بنے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد یہ جنگی قیدیوں کی سب سے بڑی تعداد تھی۔
25 مارچ 1971ء کو شروع ہونے والی 'جنگ آزادی‘ کی فتح کا جشن مرکزی ڈھاکہ میں لاکھوں افراد نے منایا۔ مشرقی پاکستان اب اعلانیہ طور پر بنگلہ دیش بن چکا تھا۔ بھارت کے حکمران اور جرنیل بھی خوشی سے پاگل تھے۔ انہی جرنیلوں نے کچھ سال قبل دوپہر کا کھانا لاہور جمخانہ کلب میں کھانے کا پروگرام بنایا تھا جو برصغیر کے حکمرانوں میں پرتکلف ضیافتوں اور 'پارٹیوں‘ کے حوالے سے بڑا مقبول رہا ہے۔ تاہم اندرا گاندھی کو شاید اندازہ نہ تھا کہ آنے والے ایام اس کے لئے خاصے ناخوشگوار ہوں گے۔ تاریخ میں جنگوں اور انقلابات کا دلچسپ تعامل رہا ہے۔ جنگوں کی کوکھ سے انقلابات جنم لیتے ہیں۔ اس 'تاریخی فتح‘ کے کچھ ہی مہینوں بعد، ہندوستان کے محنت کش طبقے نے وہ بغاوت بپا کی جس نے آخر کار اندرا گاندھی کا تخت الٹ دیا۔
مغربی پاکستان میں فضا غمگین تھی۔ایوب خان آمریت کا خاتمہ اور ریاست کو مفلوج کر دینے والی 1968-69ء کی انقلابی تحریک، ملک کے مشرقی حصے میں خونریز خانہ جنگی اور پھر سقوط ڈھاکہ جیسے دیوہیکل واقعات کا بظاہر عجیب و غریب تسلسل تھا، عوام متذبذب تھے۔آج بھی 1971ء کے واقعات کا تجزیہ انتہائی سطحی انداز میں کیا جاتا ہے۔ عام طور پر تمام بحث فوجی آپریشن، ناقص جنگی حکمت عملی، بھارت کی مداخلت اور سازشی تھیوریوں کے گرد ہی گھومتی ہے، دو قومی نظرئیے کی معقولیت پر سوال اٹھایا جاتا ہے جو اپنی جگہ درست ہے، لیکن عوامی تناظر اور طبقاتی نقطہ نظر سے تجزیہ خاصا نایاب ہے۔
ریاستی جبر، جنگ، نسل کشی، بھارتی مداخلت، شکست اور مشرقی بازو کی علیحدگی اس حکمت عملی کے مضمرات تھے جو برصغیر کے حکمران طبقات نے طبقاتی بغاوت کو سرکشی کو کچلنے یا قومی و نسلی تضادات کے راستے پر زائل کرنے کے لئے اپنائی تھی۔یہ اٹل تاریخی حقیقت ہے کہ 6نومبر 1968ء سے 25مارچ 1969ء کے 139دنوں میں پشاور سے لے کر چٹاگانگ تک، عوام طبقاتی بنیادوں پر یکجا ہو کر انقلاب میں اترے تھے اور طاقت ریاستی ایوانوں سے نکل کر سڑکوں، تعلیمی اداروں، فیکٹریوں اور کھیت کھلیانوں میں آ گئی تھی۔ اس ملک کی تاریخ کے سب سے مضبوط فوجی آمر کو مستعفی ہونا پڑا تھا۔یہ تحریک فوری مطالبات سے آگے بڑھ کر ملکیت کے رشتوں، یعنی بحیثیت مجموعی پورے نظام کو چیلنج کر رہی تھی۔ مزدور فیکٹریوں کو اور غریب دہقان جاگیروں کو اپنے اشتراکی قبضے میں لے رہے تھے، خواتین اس تحریک میں پیش پیش تھیں، طلبہ اور نوجوانوں کی ایجی ٹیشن بے قابو تھی، مشرقی اور مغربی پاکستان میں یہی صورتحال تھی۔
تاہم انقلابی قیادت کی عدم موجودگی اور بالخصوص مشرقی بنگال میں مائواسٹ اور سٹالن اسٹ بائیں بازو کے نظریاتی دیوالیہ پن کے پیش نظر یہ تحریک منطقی انجام تک پہنچے سے قاصر تھی۔ ان حالات میں بھارتی ریاست اور عالمی طاقتوں کے لئے مجیب الرحمان کو مسلط کرنا قدرے آسان ہو گیا۔یوں طبقاتی استحصال کے خلاف اٹھنے والی تحریک قومی اور لسانی بنیادوں پر زائل ہوتی گئی۔ دسمبر 1971ء میں پاکستانی فوج کے ہتھیار ڈالنے کے بعد بنگلہ دیش میں ایک نئے تنازعے نے جنم لیا۔ ریاست کے خلاف قومی آزادی کی جدوجہد کے نتیجے میں وسیع علاقوں کا کنٹرول محنت کشوں اورکسانوں کی عوامی کمیٹیوں کے ہاتھ آ گیا تھا۔ بنگلہ دیش کی نوزائیدہ سرمایہ دارانہ ریاست نے انہیں کچلنے کے لئے بھارتی فوج کی مدد حاصل کی۔ ان کمیٹیوں کا کنٹرول زیادہ تر مکتی باہنی اور سوشلسٹ 'جاتیو سماج تنترک دل‘ یا JSDکے پاس تھا۔ JSDدرحقیقت قومی آزادی کی تحریک کا بایاں بازو تھا۔
یاد رہے کہ اس دوران امریکی بحریہ کا ساتواں فلیٹ خلیج بنگال میں موجود تھا۔ امریکی سامراج کو ڈر تھا کہ بھارتی فوج ان عوامی کمیٹیوں کو کچلنے میں ناکام ہو سکتی ہے۔ بھارتی حکمرانوں کے اپنے خدشات تھے کیونکہ مشرقی بنگال کی تحریک کے گہرے اثرات مغربی بنگال پر مرتب ہو رہے تھے۔ مغربی بنگال میں بائیں بازو کے رجحانات خاصے مضبوط تھے اور سماج ریڈیکلائز ہو رہا تھا لہٰذا تحریک کو مشرقی بنگال میں ہی کچلنا ضروری تھا۔بصورتِ دیگر ناگزیر نتیجہ ایک متحدہ سرخ بنگال کی شکل میں برآمد ہوتا جو پورے برصغیر میں انقلاب کے شعلے بھڑکا دیتا۔ اس صورت میں نہ صرف برصغیر میں سرمایہ دارانہ نظام ٹوٹ کے بکھر سکتا تھا بلکہ عالمی سطح پر سامراجیت کو بھی شدید دھچکا لگتا۔ چنانچہ ساتویں فلیٹ کی موجودگی اور 'خاموشی‘ بے وجہ نہ تھی، اور بھارتی ریاست نے بھی یقینی بنایا کہ بنگال مذہبی بنیادوں پر منقسم رہے۔ 1971ء کے واقعات یہ بھی واضح کرتے ہیں کہ عالمی سامراج اور حکمران طبقات اپنے نظام کو بچانے کے لئے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔
مغربی پاکستان میں شکست خوردہ فوج ایک نئی عوامی شورش کا مقابلہ کرنے کے قابل نہ تھی۔قیادت اور ریاستی حکمرانوں پر بپھرے جوانوں اور جونیئر آفیسرز کو ٹھنڈا کرنے کے لئے جنرل گل حسن ایک کے بعد دوسرے کنٹونمنٹ کا دورہ کر رہے تھے۔ محنت کش طبقے کی تحریک اس وقت تک تھکاوٹ کا شکار ہو کر پسپا ہو رہی تھی۔تحریک کی دوبارہ اٹھان کے خطرے کے پیش نظر، ذوالفقار علی بھٹو نے برسراقتدار آکر معیشت میں ریڈیکل اصلاحات کیں لیکن 1974ء میں عالمی سطح پر بحران کا شکار سرمایہ داری میں ایسے اقدامات کی گنجائش نہ تھی۔
جیسا کہ ''پاکستان‘‘ کے حروف تہجی سے واضح ہے کہ یہ ملک قومی ریاست کے طور پر نہیں بلکہ کئی قومیتوں پر مبنی ریاست کے طور پر قائم کیا گیا تھا۔ مسلمان سرمایہ داروں کو آزاد منڈی تو مل گئی لیکن تکنیکی پسماندگی اور مالیاتی کمزوری کے پیش نظر وہ یورپ کی طرز پر جدید صنعتی سماج تعمیر نہ کر پائے۔طبقاتی استحصال کے ساتھ قومی استحصال بھی جاری رہا اور شدت اختیار کرتا گیا۔ تاریخ کا یہ بھی سبق ہے کہ سرمایہ دارانہ بنیادوں پر علیحدگی بنگلہ دیش کے عوام کا ایک بھی بنیادی مسئلہ حل نہیں کر سکی۔ حکمران بدل گئے لیکن استحصالی نظام برقرار رہا۔ خطے کے دوسرے ممالک کی طرح بنگلہ دیش کی وسیع آبادی آج ماضی کی نسبت کہیں زیادہ بھوک، محرومی اور پسماندگی کا شکار ہے۔
سقوط ڈھاکہ کے بعد، ساڑھے چار دہائیوں میں پاکستان کے حکمران طبقے کی نااہلی، ہوس اور بدعنوانی بڑھی ہی ہے۔ یہ حکمران سیکھے ہیں نہ سیکھ سکتے ہیں۔ تاریخ نے یہ اہلیت ان سے ہمیشہ کے لئے چھین لی ہے۔ طبقاتی اور قومی استحصال بدترین شدت سے جاری ہے، سیاسی اشرافیہ اور وظیفہ خوار دانشور کھوکھلی حب الوطنی اور 'سالمیت‘ کے راگ آج بھی الاپ رہے ہیں۔ لیکن یہ سلسلہ کب تک چل سکتا ہے؟ عوام کب تک یہ ذلتیں برداشت کر سکتے ہیں؟ افق پر دھماکہ خیز واقعات کے آثار نمایاں ہیں۔ یہاں کے محنت کشوں اور نوجوانوں کو 1968-69ء کا ادھورا سفر مکمل کرنا ہوگا، طبقاتی جنگ کو آخری معرکے تک لڑنا ہو گا، تنگ نظر قوم پرستی اور علیحدگی کی بجائے قومی آزادی کی تحریکوں کو طبقاتی جدوجہد سے جوڑنا ہو گا۔ انہی بنیادوں پر انقلابی تحریک برپا کرکے سرمایہ دارانہ نظام اور سامراجیت کو اکھاڑ پھینکا جا سکتا ہے، اور جنوب ایشیا میں بسنے والی ایک چوتھائی انسانیت کے لئے انسانی معاشرہ تعمیر ہو سکتا ہے!