"DLK" (space) message & send to 7575

عرب انقلاب، پانچ سال بعد

یہی دن تھے جب آج سے پانچ سال قبل تیونس میں ایک انقلابی تحریک بھڑک اٹھی تھی۔ اس نظام کے تجزیہ نگاروں کے تناظر کے بالکل برعکس انقلاب کی چنگاری شعلوں میں بدل گئی جو چند ہفتوں میں مشرق وسطیٰ، عرب دنیا اور نواحی خطوں کے بیشتر ممالک میں پھیلتے چلے گئے۔ بظاہر چٹان نظر آنے والی دہائیوں پر مبنی مطلق العنان حکومتیں زمین بوس ہونے لگیںلیکن انقلابی قیادت کے لائحہ عمل اور نظریات کے فقدان کی وجہ سے یہ انقلابی ریلا جلد ہی پسپا ہوگیا۔ گزشتہ کچھ سالوں کے دوران اسی رد انقلاب پسپائی کے تحت پورے خطے میں رجعت، ریاستی جبر اور قتل و غارت گری کا راج ہے۔ انسانیت ایک بار پھر سسک رہی ہے۔ 
جو بنیادی مطالبات اورارمان لے کر لاکھوں کروڑوں محنت کش اور نوجوان عرب انقلاب میں ابھرے تھے، ان میں سے کوئی بھی پورا نہیں ہو پایا۔ محرومی آج بھی موجود ہے، بلکہ پہلے سے کہیں بڑھ گئی ہے۔ انہی حالات میں 14جنوری 2016ء کو تیونس میں انقلاب کی پانچویں سالگرہ منائی گئی۔ بڑے مظاہرے میں ہزاروں افراد نے شرکت کی اور انقلاب کے مقاصد کی تکمیل کے لئے جدوجہد جاری رکھنے کا اعادہ کیا۔ مظاہرے میں شریک ایک 40سالہ محنت کش خاتون نے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ''انقلاب نے ہماری کوئی مدد اور بہتری نہیں کی، قیمتوں میں شدید اضافہ ہی ہوا ہے، نوجوان ابھی تک بیروزگار اور دربدر ہیں۔‘‘ مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں آئی ایل او کے سروے کے مطابق 2011ء میں بیروزگاری کی شرح 25 فیصد تھی جو اب 30 فیصد سے تجاوز کر چکی ہے۔ زمینی حقائق درحقیقت کہیں زیادہ تلخ ہیں۔ اس خطے کی آبادی کا 60 فیصد 25 سال سے کم عمر ہے۔ یاد رہے کہ 2011ء میں تیونس میں انقلاب کا آغاز ایک بیروزگار نوجوان محمد بو عزیزی کی سرعام خود سوزی سے ہوا تھا اور وسیع بیروزگاری اس تحریک کی بنیادی وجوہ میں سے ایک تھی۔ لاکھوں کے بپھرے ہوئے مجمع کو تیونس کی گائیکہ ایمل میتھلوتھی کے اس گیت نے اور بھی گرما دیا تھا:
میں آزاد اور بے خوف ہوں...
میں وہ راز ہوں جو کبھی مر نہیں سکتا
میں ان کی آواز ہوں جو کبھی جھکیں گے نہیں!
ایک وقت میں عوام کی آواز بننے والی اس گلوکارہ کی نوبل ''امن‘‘ ایوارڈ کی تقریب میں گائیکی انقلاب کی زوال پزیری اور اسے زائل کرنے کے سامراجی ہتھکنڈوں کا اظہار ہے۔ 
2011ء میں بغاوتیں کئی ممالک میں کسی نہ کسی پیمانے پر ابھری تھیں۔ بڑی تحریکیں تیونس، مصر، شام، اردن، اسرائیل اور یمن میں اٹھیں۔ اسرائیل میں ہونے والے مظاہرے قابل ذکر ہیں‘ جن میں 70 لاکھ کی کل آبادی میں سے 7 لاکھ افراد نے شرکت کی اور معاشی ناہمواری اور جبر و استحصال کے خلاف سراپا احتجاج بنے۔ اس سے بھی زیادہ قابل ذکر بات ان مظاہروں میں لگنے والے ''ایک مصری کی طرح آگے بڑھو‘‘ اور ''مبارک، اسد، بی بی نیتن یاہو مردہ باد‘‘ کے نعرے تھے۔ 
مصر میں انقلابی تحریک کے آغاز پر اس کی مخالفت کرنے والی اخوان المسلمون کسی بائیں بازو کی منظم قوت کی عدم موجودگی میں انتخابات کے ذریعے برسر اقتدار آنے میں کامیاب ہوئی۔ محمد مرسی نے صدر بننے کے بعد آئی ایم ایف کی ہی معاشی پالیسیاں نافذ کیں جن کے رد عمل میں 2013ء میں ایک بار پھر تحریک بھڑک اٹھی۔ 2013ء میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں میں شامل افراد کی تعداد 2011ء سے بھی دگنا تھی۔ ایک بار پھر سیاسی خلا پیدا ہوا جس کا فائدہ مصری فوج کے جنرل عبدالفتح السیسی نے اٹھایا۔ صدارتی انتخابات کے ذریعے السیسی کے برسر اقتدار آنے کے بعد مصر میں آج عملاً ایک نئی آمریت قائم ہو چکی ہے اور ریاستی جبر کا بازار گرم ہے۔
شام، یمن، عراق اور لیبیا میں تحریک کے آغاز پر ہی سامراجی قوتوں نے بنیاد پرستوں کو مسلط کر دیا۔ آج یہ ممالک فرقہ وارانہ قتل عام اور خانہ جنگی میں غرق ہیں۔ عراق فرقہ وارانہ اور لسانی بنیادوں پر عملاً تین حصوں میں تقسیم ہو چکا ہے۔ اسی طرح لیبیا بھی کئی حصوں میں منقسم ہے، ریاست کا وجود برائے نام ہی ہے۔ خانہ جنگی کے بعد سعودی عرب کی مسلسل بمباری یمن کو تاراج کر رہی ہے۔ شام میں امریکہ اور اس کے خلیجی اتحادیوں کی جانب سے مذہبی جنونی پراکسی گروہوں کے ذریعے مداخلت کے فوراً بعد ہی عوام کو احساس ہو گیا تھا کہ یہ ''باغی‘‘ بشارالاسد سے کہیں زیادہ درندہ صفت ہیں۔ آج ترکی، سعودی عرب، قطر، ایران، امریکہ اور روس سمیت کئی قوتیں بالواسطہ یا بلاواسطہ ایک دوسرے سے شام میں برسر پیکار ہیں اور ایک وقت میں بلند ثقافت اور معیار زندگی کا حامل یہ ملک کھنڈرات میں تبدیل ہوتا جا رہا ہے۔ 
بحرین میں 2011ء میں اٹھنے والی شورش ریاستی جبر کے باوجود اتار چڑھائو کے ساتھ جاری ہے۔ عرب انقلاب سے خوفزدہ ہو کر سعودی عرب اور اردن کے حکمرانوں نے عوام کے لئے سہولیات اور مالی امداد کے 'ہنگامی پیکج‘ جاری کئے تھے‘ لیکن سرمایہ دارانہ معیشت کا بڑھتا ہوا بحران ان ممالک کی ریاستوں کو سبسڈی اور ماضی کی تمام عوامی سہولیات ختم کرنے پر مجبور کر رہا ہے۔ عالمی منڈی میں تیل کی قیمت 2012ء کی 125 ڈالر فی بیرل کی سطح سے کم ہو کر آج 31 ڈالر پر آ گری ہے اور سعودی عرب کی ملکی آمدن کا 77 فیصد تیل کی برآمد پر منحصر ہے۔ اس تیز معاشی گراوٹ کے سماجی اور سیاسی اثرات کا اندازہ لگانا بہت مشکل نہیں۔ سخت ویزا قوانین نافذ کئے جا رہے ہیں اور غیر ملکی محنت کشوں کو مقامی عرب افراد سے تبدیل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، اس سے ترسیلات زر میں کمی آئے گی اور پاکستان جیسی شدید بحران زدہ معیشتوں کو مزید دھچکا لگے گا۔ 
فلسطین میں دو بار 'انتفادہ‘ کی شکل میں بڑی سرکشیاں ہو چکی ہیں۔ 2005ء میں لبنان میں بڑی تحریک ابھری تھی۔ اسی طرح 2009ء میں ایران میں ہونے والے نوجوانوں کے مظاہرے سماج میں ریاست کے خلاف پنپنے والی نفرت کا اظہار تھے۔ لیکن 2011ء کے انقلابات میں بین الاقوامیت کا عنصر واضح تھا۔ قومی، مذہبی اور فرقہ وارانہ تعصبات کو روند کر یہ لہر آگے بڑھی تھی جس کا بنیادی کردار طبقاتی کشمکش پر مبنی تھا۔ اس میں شریک لاکھوں نوجوانوں کا مقصد سیاسی ڈھانچے میں ''جمہوریت‘‘ کے نام پر سطحی تبدیلی نہیں تھا بلکہ وہ معاشی، سماجی اور ریاستی ڈھانچوں کو یکسر بدل کر بیروزگاری، غربت اور مہنگائی میں غرق اپنی زندگیاں بدلنا چاہتے تھے۔ دنیا کے کئی ممالک اور خطوں میں پھیل جانے والے انقلابات اس سے قبل 1848ء اور 1960ء کی دہائی میں بھی نظر آتے ہیں۔ 1848ء کے انقلابات سے متعلق برطانوی تاریخ دان اے جے پی ٹیلر نے لکھا تھا کہ ''تاریخ ایک فیصلہ کن موڑ پر پہنچی لیکن مڑ نہ سکی۔‘‘
2011ء کی انقلابی تحریک نے ایک بار پھر ثابت کیا کہ تاریخ ختم نہیں ہوئی۔ طبقاتی کشمکش نا قابل مصالحت ہے اورجب تک طبقاتی تضاد موجود ہے، انقلابات جنم لیتے رہیں گے۔ سوویت یونین کے انہدام کے بعد جوان ہونے والی نئی نسل کے لئے یہ سب کچھ بہت حیران کن اور ولولہ انگیز تھا‘ لیکن اس کی پسپائی سے اسباق سیکھنے کی ضرورت بھی ہے۔ عرب انقلاب میں ہراول کا کردار ادا کرنے والے نوجوانوں کے جذبے سچے تھے لیکن وہ راستے اور منزل سے نا آشنا تھے۔ حالات اور واقعات بہت کچھ سکھاتے ہیں۔ مشرق وسطیٰ اور نواحی خطوں میں اس نظام کے تحت عدم استحکام اور خونریزی میں اضافہ ہی ہوگا۔ سامراج کا اپنا جریدہ ''اکانومسٹ‘‘ تازہ شمارے میں لکھتا ہے ''جہاں فرقہ وارانہ تقسیم شدت اختیار کر گئی ہے، وہاں طبقاتی نفرت اور بغاوت کے رجحانات گہرے ہو رہے ہیں۔‘‘ 
فرقہ واریت، بنیاد پرستی اور سامراجی جنگیں صرف موت اور بربریت ہی دے سکتی ہیں۔ جنگ، بربادی اور محرومی کے اس سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف محنت کشوں اور نوجوانوں کو ایک حتمی جنگ لڑنی پڑے گی، اور یہ جنگ صرف انقلابی مارکسزم کے نظریات سے لیس ہو کر طبقاتی بنیادوں پر لڑی اور جیتی جا سکتی ہے۔ مصر میں انقلاب 1952ء کے 59 سال بعد 2011ء میں ابھرا تھا۔ ایک نئے انقلاب کے لئے دوبارہ 59 سال درکار نہیں ہوں گے۔ ضرورت انتظار کی نہیں، انقلابی قیادت اور قوت کی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں