عام طور پر ٹیلی وژن کے ٹاک شوز یا اخباری تجزیوں میں حکمرانوں کی سب سے بڑی کوتاہی ''گڈ گورننس‘‘ کا فقدان ہی قرار دی جاتی ہے۔ اس نظام کو سماج کی واحد ممکنہ شکل اور حتمی و آخری ماننے والوں کی سوچ ثانوی موضوعات اور انتظامی امور تک ہی محدود ہو جاتی ہے۔ وہ بحیثیت مجموعی پورے نظام، یعنی سرمایہ داری، کو کبھی چیلنج نہیں کر سکتے۔اسی نظرئیے کو عمومی اصطلاح میں ''اصلاح پسندی‘‘ کہا جاتا ہے۔
حقائق کو ذرا سا کریدا جائے تو پتا چلتا ہے کہ مسائل کی وجوہ کچھ اور ہیں اور حل کچھ اور ہی پیش کیا جاتا ہے، جس سے اکثر اوقات مسائل مزید بگڑتے ہی ہیں۔ ''گڈ گورننس‘‘ کی بات کریں تو ہمارے حکمران درحقیقت اتنے اعلیٰ معیار کی ''گورننس‘‘ کرتے ہیں کہ امریکہ اور یورپ بھی شرما جائیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ یہ تمام تر گورننس وہ اپنے طبقے کے مالی مفادات، مراعات اور عیاشیوں کو مد نظر رکھتے ہوئے کرتے ہیں۔ گورننس اگر کہیں خراب ہے تو وہ محنت کش طبقے اور غریب عوام کے لئے ہے۔ وہاں بھی ان کا ذاتی قصور نہیں۔ یہ جس بوسیدہ سرمایہ داری کے نمائندے ہیں وہ اپنے اچھے وقتوں میں بھی یہاں ٹھوس معاشی ترقی اور جدید انفرسٹرکچر فراہم نہیں کر پائی، آج تو خیر ایسا تصور ہی نہیں کیا جاسکتا۔ہر ممکنہ حد تک محنت کش طبقے کے استحصال اور ریاست کی لوٹ مار ہی تیسری دنیا کے سرمایہ دار طبقے کی شرح منافع اور وجود کی ضمانت ہے۔ ماضی اور حال
پر نظر دوڑائیں تو کوئی سکون کا لمحہ نہیں ملتا، ہر وقت اور ہر
بنیادی ضرورت کی محرومی نے زندگی کو مسلسل عذاب بنا دیا ہے۔ معیشت پر ویسے تو کالے دھن کا راج ہے۔ سرکار کے بچے کھچے مالی وسائل سامراجی قرضوں اور جنگی ساز و سامان کی نذر ہیں۔ ان شعبوں کے متعلق سیاست میں کوئی بول بھی نہیں سکتا۔ میڈیا پر کبھی کبھار حقیقی مسائل کی بات بھی ہو جاتی ہے لیکن یہ تذکرہ شاید ہی کبھی ہو کہ تمام مسائل طبقاتی ہیں۔ گیس سے لے کر بجلی تک، لوڈ شیڈنگ صرف عوام کے لئے ہی ہے، امیر طبقات کا طرز زندگی ہر وقت اس ذلت سے آزادہے۔ پوش علاقوں اور محلات میں اگر تھوڑی بہت لوڈ شیڈنگ ہے بھی تو وہاں کے باسیوں کے پاس متبادل ذرائع کے لئے مالی وسائل کی کمی نہیں۔ اس بالادست طبقے کو تھانے کچہری کا ڈر ہے نہ ہی گرمی اور سردی کی اذیتوں سے دو چار ہونا پڑتا ہے۔ بھوک اور درد میں دوا نہ ملنے کی اذیت کیا ہوتی ہے، انہیں قطعاً کوئی ادراک نہیں۔
کبھی یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ حکمران طبقہ کسی اور سیارے پر زندگی گزارتا ہے، لیکن موجودہ حکومت نے ان کی خدمت میں 'گڈ گورننس‘ کی انتہا کر دی ہے۔ لاکھوں گھروں میں گیس کی بندش سے چولہے بند پڑے ہیں، بچے اور بزرگ سردی میں ٹھٹھر رہے ہیں، گھٹیا معیار کے سلنڈر ہلاکتوں کا باعث بن رہے ہیں، گیس کے جانے آنے سے کئی المناک حادثات رونما ہوئے ہیں اور ہوتے رہیں گے لیکن عوام کے لئے گیس کے اس شدید بحران کے باوجود44کروڑ کیوبک فٹ گیس سیمنٹ، فرٹیلائزر اور بجلی کے پلانٹس کو فراہم کی جا رہی ہے۔ وزارت پٹرولیم کے ایک اعلیٰ افسر نے بتایا کہ نومبر، دسمبر اور جنوری میں گیس پر چلنے والے صنعتی اداروں کو ضوابط کے مطابق بند ہونا پڑتا ہے ۔ اس دوران ان کی سالانہ مرمت اور صفائی وغیرہ کا کام ہونا چاہئے اور یہ کہ ان سرمایہ داروں کے ساتھ گیس کی فراہمی کے معاہدے ہی سال میں 9 ماہ کے لئے کئے جاتے ہیں۔ لیکن پوچھنے والا کون ہے؟ جن کے پاس حاکمیت ہے ان کے سامنے کون سا قانون، کیسے معاہدے؟ آج کل ایل این جی کا بھی شور ہے جس میں بڑے پیمانے کی کمیشن خوری اور بدعنوانی کی سرگوشیاں ابھی سے سنائی دے رہی ہیں۔ 16 ارب ڈالر کا یہ منصوبہ ماضی میں آئی پی پیز لگانے کی پالیسی سے مختلف نہیں ہو گا۔ گیس تو شاید آ جائے گی لیکن پھر بِل بھرنے کی سکت کسی میں نہیں ہو گی۔
یہ کروڑوں کیوبک فٹ گیس اگر منافع خوری کی بھینٹ نہ
چڑھ رہی ہوتی تو کروڑوں عام لوگ اذیت سے دوچار نہ ہوتے۔ لیکن نظام ہی جب دولت کی سفاکی پر قائم ہے تو کسی ہمدردی یا انسانیت کی امید بھلا کیسے کی جا سکتی ہے۔ آخر بلند عمارات کی 'ڈیڈ لائنز‘ ہیں، ٹھیکیداروں کے ساتھ معاہدے ہیں، سیمنٹ اور کھاد کی سپلائی سے ٹرانسپورٹ مافیا کے منافع بھی وابستہ ہیں۔ ہر 'بزنس‘ کے اپنے مفادات ہیں اور یہ منافعے حکومت بھی 'بزنس فرینڈلی‘ ہے۔ ویسے بھی ان سرمایہ داروں نے عوام کی خدمت کا ٹھیکہ تو نہیں اٹھایا، عوام سے ''ہمدردی‘‘ تو وہ خیرات کے میلے لگا کر پوری کر دیتے ہیں۔ لوگوں کو گیس نہیں ملتی تو بجلی کے چولہے لگا لیں، سلنڈر لے آئیں، کیا ہوا جو دام تھوڑے زیادہ ہیں اورجو یہ نہیں کر سکتے وہ لکڑیاں جلا لیں، آخر جہاں سے گیس نکلتی ہے وہاں کے لوگ بھی تو آج تک یہی کرتے آئے ہیں، باقیوں کو بھی سبق سیکھنا چاہئے!
یہ دلائل شاید مذاق معلوم ہوں لیکن ''آزادی‘‘ کی تقریباً سات دہائیاں بعد بھی اس حکمران طبقے کے پاس عوام کے لئے یہی کچھ ہے۔ یہ سرمایہ دار طبقہ سماج کو پیچھے ہی لے کر گیاہے، یہی اس کا تاریخی کردارہے۔ پسماندگی کا یہ سفر آج اس ملک کی معاشرت، سیاست، معیشت اور سفارت، غرضیکہ ہر شعبے میں عیاں ہے۔ ایسے میں ''گڈ گورننس ‘‘ کی بات بستر مرگ پر پڑے مریض کے بالوں پر خضاب لگانے کے مترادف ہی ہے۔ تجزیہ نگارہوں یا مذہبی پیشوا، معروف شخصیات ہوں یا دانشور، اسی ''گڈ گورننس‘‘ کی آڑ میں نظام کا تحفظ بڑی عیاری سے کیا جاتا ہے۔ ان کے معیشت دان ایک ہی سانس میں اقتصادی ترقی کے راگ الاپتے ہیں اور غربت میں کمی کے دعوے کرتے ہیں، لیکن زمینی حقائق کوئی اور ہی داستان سناتے ہیں۔
ورلڈ بینک کی تازہ رپورٹ کے مطابق پاکستان کی 21فیصد آبادی سواڈالر یومیہ کے خط غربت، جبکہ 62فیصد آبادی 2ڈالر یومیہ کے خط غربت سے نیچے زندہ ہے۔فی کس آمدن کے ذریعے بھی غربت کا صرف سطحی سا اندازہ ہی لگایا جا سکتا ہے۔اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام UNDPکے تازہ Human Development Index میں پاکستان مزید ایک درجے کی کمی کے ساتھ 166 ممالک کی فہرست میں 147ویں نمبر پر آ گرا ہے۔ اس اشاریے میں اوسط عمر، فی کس آمدن اور تعلیم تک رسائی وغیرہ کو بھی مد نظر رکھا جاتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ عوام کو واپس لکڑیاں اور گوبر جلانے پر مجبور کیا جارہا ہے تو یہ حکمران آخر معاشرے کو کس طرف لے جا رہے ہیں۔ اس نظام کی آمریتوں اور پھر ''جمہوریت‘‘ نے جس اذیت میں سماج کو مبتلا کر رکھا ہے اس کا علاج سطحی اصلاحات یا کاسمیٹک اقدامات کے ذریعے نہیں ہو سکتا۔ جب مٹھی بھر حکمران ذلت کو انسانیت کا مقدر بنا دیں تو فیصلہ کن معرکے تک طبقاتی جنگ لڑنے کے سوا کوئی راستہ باقی نہیں بچتا۔