کشکول توڑنے کا نعرہ لگا کر مئی 2013ء میں برسر اقتدارآنے والی نواز لیگ کی حکومت نے فوراً ہی آئی ایم ایف کے سامنے ہاتھ پھیلادیا تھا۔ 6.7 ارب ڈالر کے قرضوں کا پیکج اپنے ساتھ کئی سخت شرائط لایا جن میں پی آئی اے کے 26 فیصد شیئرز کی فروخت بھی شامل تھی۔ اس سلسلے میں صدارتی آرڈیننس نمبر 17 جاری کیا گیا جس پر پارلیمنٹ میں 4 دسمبر 2015ء کو خاصا ہنگامہ ہوا۔ ''پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز کارپوریشن (کنورژن) آرڈیننس 2015ء‘‘ کا مقصد پی آئی ا ے کو پبلک لمیٹڈ کمپنی میں تبدیل کرنا تھا تاکہ اس کے شیئر سرمایہ داروں کو فروخت کئے جا سکیں۔ اس اقدام میں ناکامی کے بعد پارلیمنٹ میں قراردار پیش کی گئی اور مستقل غیر حاضر رہنے والے ممبران پارلیمنٹ کو بھی اجلاس میں لاکر قراردار کے حق میں ہاتھ کھڑے کروائے گئے۔ یہ عمل محنت کشوں کو مشتعل کرنے کا باعث بنا اور حالیہ ہڑتال پر منتج ہوا۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ حکمران طبقے کی ہی نمائندہ کچھ اپوزیشن پارٹیاں، کارپوریٹ میڈیا اور ریاست کے کچھ دھڑے بھی اپنے مالی مفادات، داخلی تضادات اور محنت کش طبقے کی وسیع اشتعال انگیزی کے خوف کے تحت اس نجکاری کی مخالفت کر رہے ہیں۔
پاکستان کے سرمایہ داروں کی روایتی پارٹی نواز لیگ کی موجودہ حکومت نسبتاً جمود کے عہد میں کھل کر محنت کش اور عوام دشمن پالیسیاں نافذ کر رہی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ معاشی بحران کے اس عہد میں پی آئی اے کو مکمل طور پر خرید کر چلانا کسی بھی سرمایہ دار کے بس کی بات نہیں ہے۔ شعوری طور پر برباد کئے گئے اس دیوہیکل ادارے کے گاہک نہیں ملیں گے‘ لہٰذا حکومت کے پالیسی ساز اور ان کے سامراجی آقاقصائی کی طرح ادارے کو ٹکڑوں میں مرحلہ وار فروخت کرنا چاہتے ہیں۔ ملازمین کی تعداد پہلے ہی 19000 سے کم کر کے 14000 پر لائی جا چکی ہے۔ نجکاری اگر ہوتی ہے تو مزید ڈائون سائزنگ کی جائے گی اور اجرتوں کے ساتھ ساتھ صحت اور پنشن وغیرہ کی سہولیات بھی ختم کی جائیں گی۔
پی آئی اے میں پہلے بھی نجکاری کے خلاف تحریکیں اُٹھیں لیکن موجودہ ہڑتال اپنے حجم اور عزم میں سب سے بڑھ کر ہے۔ اس کی شدت اور محنت کشوں کی قربانیوں کی وجہ سے کارپوریٹ میڈیا بھی مسخ شدہ انداز میں ہی سہی لیکن کوریج دینے پر مجبور ہوا ہے۔ نان ایشوز ابھارنے کی کوشش اگرچہ کی گئی لیکن عوام کی ہڑتال میں دلچسپی کے پیش نظر ایسے چینلوں کی ریٹنگ گرنے لگی۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ محنت کش جب قدم بڑھاتے ہیں تو سماج کی توجہ کسی دوسری جانب مبذول کروانا اتنا آسان نہیں رہتا۔
موجودہ ہڑتال تقریباً چھ ہفتے پہلے چھوٹے احتجاجی مظاہروں سے شروع ہوئی تھی لیکن نجکاری، نوکریوں سے برطرفی اور بنیادی سہولیات کی صلبی کے خلاف محنت کشوں کا غم و غصہ بتدریج بڑھتا گیا۔ نیچے سے محنت کشوں کے دبائو کے تحت جوائنٹ ایکشن کمیٹی تخلیق پائی جس میں رجعتی جماعت اسلامی سے لے کر مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی تک، کئی سیاسی رجحانات کے نمائندے شامل ہیں۔ اس کمیٹی کا چار نکاتی ایجنڈا یہ ہے:
1:پی آئی اے کو پبلک لمیٹڈ کمپنی بنانے کے لئے 21 جنوری کو پاس کیا گیا بل فوراً واپس لیا جائے۔
2:پی آئی اے کو خسارے سے نکالنے کے لئے کنٹرول ملازمین کے ہاتھ دیا جائے، اگر وہ ناکام رہیں تو حکومت کو آزادی ہے کہ جو چاہے کرے۔
3:کسی بھی شکل میں نجکاری، چاہے وہ سٹریٹجک پارٹنر شپ کے نام پر ہو یا شیئرز بیچ کر کی جائے، ملازمین کے لئے قطعاً ناقابل قبول ہے۔
4 :حکومت فوری طور پر ہوابازی (Aviation) کی پالیسی پر نظر ثانی کرے۔ اس سلسلے میں کمیٹی تشکیل دی جائے جس میں جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے ساتھ ساتھ پی آئی اے کے ماہرین خورشید انور، کامران حسن اور صلاح الدین کو بھی شامل کیا جائے۔
پی آئی اے کے محنت کشوں نے اپنی جرات، قربانی اور عزم سے ریاست کو لرزا دیا ہے لیکن اس جدوجہد میں کئی کمزوریاں اور رکاوٹیں بھی موجود ہیں، مثلاً ایک یکجا یونین کی عدم موجودگی، نجی سروسز اور صنعت کے غیر منظم محنت کشوں سے عدم تعلق۔ سب سے اہم نجکاری سے برسر پیکار دوسرے ریاستی اداروں مثلاً واپڈا ور ریلوے کے محنت کشوں کے ساتھ جڑت بنانے اور مشترکہ نجکاری مخالف پلیٹ فارم پر یکجا ہونے کی ضرورت ہے۔ ان کمزوریوں پر قابو پانے کے لئے شعوری طور پر اقدامات کرنا ہوں گے۔بدھ کی صبح مختلف شہروں ، بالخصوص کراچی، میں مختلف ٹریڈ یونین فیڈریشنز کے جلسے پی آئی اے کے محنت کشوں سے اظہار یکجہتی کے لئے منعقد کئے گئے ‘ جو خوش آئند پیش رفت ہے لیکن اتناکافی نہیں۔
یہ ہڑتال ایک چنگاری ہے جو سماج کی سطح کے نیچے سلگتی طبقاتی جدوجہد کا اظہار ہے۔وسیع پیمانے کی طبقاتی جدوجہد فی الوقت مشکل معروضی حالات اور نسبتاً سماجی جمود کے نیچے دبی ہوئی ہے۔ محنت کشوں کی قیادت اور ٹریڈ یونین کارکنان کا تاریخی فریضہ ہے کہ پی آئی اے کی ہڑتال کی حمایت ہر ممکن طریقے سے کریں۔ حکمران طبقے کے حملوں کو پسپا کرنے کے لئے یونائیٹڈ فرنٹ تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔ نجکاری اور دوسرے معاشی حملے، جن کی تیاری حکمران مستقبل کے لئے کر رہے ہیں، کے خلاف جدوجہد کی حتمی کامیابی کے لئے ٹھوس اقدامات کرنا ہوں گے جن میں سب سے اہم عام ہڑتال کی کال ہے۔ ہڑتال کی کامیابی کے لئے صنعت، زراعت، نجی اور سرکاری اداروں سمیت محنت کش طبقے کی تمام پرتوں اور نوجوانوں کو متحرک کرنا ہو گا۔دفاعی مطالبات کو حکمران طبقے اور ان کے نظام کے خلاف جارحانہ مطالبات میں تبدیل کرنا ہوگا اور تمام معیشت اور صنعت کی محنت کشوں کے جمہوری کنٹرول میں نیشنلائزیشن کا نعرہ بلند کرنا ہوگا۔
''اپوزیشن‘‘ کی کئی سیاسی پارٹیوں کے لیڈران پی آئی اے کے احتجاجی مظاہروں اور دفتروں کے چکر لگا رہے ہیں۔ یکجہتی خوش آئند ہے لیکن حکمران طبقے کی مداخلت کو ہر صورت میں روکنا ہوگا جو ''مصالحت‘‘ کے ذریعے ہڑتال کو توڑنے کی کوشش کریں گے۔ ملک بھر کے محنت کشوں میں پی آئی اے میں جاری جدوجہد کے لئے ہمدردی کے جذبات موجود ہیں‘لیکن ایک ادارے تک محدود ہڑتال زیادہ لمبے عرصے تک نہیں چل سکے گی، اسے پھیلانا اور آگے بڑھانا ہو گا۔مذاکرات کی بھول بھلیوں میں ڈال کر مظاہرین کو تھکانے اور حوصلے پست کرنے کی کوشش بھی کی جائے گی ۔اگر حکومت فی الوقت مطالبات تسلیم کر لیتی ہے تو بھی پاکستان کی دیوالیہ سرمایہ داری میں اتنی گنجائش ہی نہیں ہے کہ دیوہیکل ریاستی اداروں اور محنت کشوں کو حاصل جزوی سہولیات اور مراعات کو برقرار رکھا جا سکے۔ حکمران ناگزیر طور پر پلٹ کر زیادہ بڑے حملے محنت کشوں پر کریں گے۔ آخری تجزئیے میں محنت کش طبقے اور عوام کو بیروزگاری، محرومی اور ذلت سے نجات کے لئے فوی مطالبات کی جدوجہد کو سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف سوشلسٹ انقلاب کے ساتھ جوڑنا ہو گا۔ پاکستان میں ایک کامیاب سوشلسٹ انقلاب پورے جنوب ایشیا میں طبقاتی جدوجہد اور انقلابات کے نئے عہد کا آغاز کرے گا۔ (ختم)