1991ء میں سوویت یونین کے انہدام کے بعد اعتقادی اور سٹالنسٹ نظریات رکھنے والے بڑے بڑے ''سوشلسٹ‘‘ اور ''کمیونسٹ‘‘ خود کو لبرل ڈیموکریٹ اور ''سیکولر‘‘ کہلانے لگے۔ کچھ کے مرکز ماسکو سے واشنگٹن منتقل ہو گئے اور انہوں نے فوکو یاما کے ''تاریخ کے خاتمے‘‘ کے رجعتی نظرئیے کے سامنے سر تسلیم خم کر دیا۔ سرمایہ داری کے خاتمے کا نعرہ لگانے والے ہی اس نظام کے سب سے بڑے وکیل بن گئے۔ یہ سابقہ بایاں بازو درحقیقت اپنے آپ سے ہی ہار گیا تھا۔
اس کیفیت میں دنیا بھر میں سرمایہ داروں اور ان کے لبرل یا مذہبی وظیفہ خواروں نے خوب جشن منایا۔ ان کے نزدیک ''سوشلزم ختم ہو چکا‘‘تھا اور ان کے نظام کی ابدی حاکمیت شروع ہوئی۔ سرمائے کے اس تسلط کو کبھی ٹائی سوٹ تو کبھی داڑھی چغے کے لبادے میں قائم رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ تقریباً دو دہائیوں تک سوشلزم کی موت کا اعلان مسلسل کیا جاتا رہا، بھلا مبینہ طور پر ایک مردہ نظام کا اعلان مرگ بار بار کرنے کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے؟ شاید سامراج اور حکمران طبقات کے سنجیدہ پالیسی ساز بخوبی آگاہ ہیں کہ سرمایہ داری کا جبر و استحصال جب تلک باقی ہے اس کے خلاف بغاوت ختم نہیں ہوسکتی۔ اسی بغاوت کو زائل رکھنے کے لئے سوشلزم کی ''ناکامی‘‘ اور خاتمے کا اعلان ہر وقت کیا جاتا ہے۔
2008ء میں عالمی سطح پر سرمایہ دارانہ معیشت کے بحران (جو 1929ء کے بعد اس نظام کا شدید ترین بحران ہے) کے بعد سیاست میں ایک بار پھر وسیع ریڈیکلائزیشن نظر آتی ہے۔ یہ سب کچھ تاریخ کے خاتمے کے نظرئیے سے بالکل متضاد ہے۔ یورپ میں برطانیہ سے لے کر یونان اور سپین تک، ہمیں بائیں بازو کے کئی نئے رجحانات تیزی سے ابھرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اسی طرح امریکہ میں اس بار صدارتی انتخابات کے امیدواروں کے چنائو کی مہم ماضی سے بالکل مختلف رہی ہے۔
امریکہ کی دو بڑی سیاسی پارٹیاں ڈیموکریٹک پارٹی اور ریپبلکن پارٹی ہیں۔ آج تک کی سب سے بڑی عسکری اور معاشی سلطنت کی سیاست پر یہ دونوں پارٹیاں ہی ہمیشہ قابض رہی ہیں۔ لیکن اس بار پارٹیوں کے اندر صدارتی انتخابات کے امیدواروں کی مہم جوں جوں آگے بڑھی ہے اس میں حیران کن افراد مقبولیت حاصل کر رہے ہیں۔ کچھ عرصے قبل تک یہ سمجھا جا رہا تھا کہ سیدھا سیدھا مقابلہ ہو گا، ریپبلکن پارٹی سے جارج بش کا بھائی جیب بش اور ڈیموکریٹک پارٹی سے بل کلنٹن کی بیوی ہلیری کلنٹن صدارت کی امیدوار ہو گی۔ سیاسی ماہرین کی یہ پیش گوئی بالکل غلط ثابت ہوئی ہے۔ ریپبلکن پارٹی میں ڈانلڈ ٹرمپ سب سے آگے ہے۔ یہ ارب پتی سیاستدان حد درجے کا منہ پھٹ، انتہا پسند اور جنونی ہے اور امریکہ حکمران طبقے کے سنجیدہ ماہرین اس کے ابھار سے خاصے خوفزدہ ہیں۔ اس کی بدتمیزی اور الزامات کی بوچھاڑ امریکی سیاست میں رائج اقدار اور سیاسی معیار کے پڑخچے اڑا رہی ہے۔ سماج کی پسماندہ اور قدامت پرست پرتوں سے تعلق رکھنے والے لوگ اس تماشے سے بہت خوش ہیں اور ٹرمپ کی حمایت کر رہے ہیں۔ ان میں بڑی تعداد درمیانے طبقے کے امریکیوں کی ہے جن کا معیار زندگی اس معاشی بحران میں مسلسل زوال کا شکار ہے اور اپنی فرسٹریشن میں درمیانہ طبقے سے ایسے سیاسی جھکائو کی توقع کی جا سکتی ہے۔پاگل پن پر مبنی ٹرمپ کی پالیسیاں نہ صرف پہلے سے روبہ زوال امریکی سامراج کے لئے خطرناک ہوں گی بلکہ عوامی بغاوت کو بھی بھڑکا سکتی ہیں۔ لہٰذا ریپبلکن پارٹی اور ریاست کی اسٹیبلشمنٹ ٹرمپ کی صدارتی امیدوار کے طور پر نامزدگی کو رکوانے کی کوشش کرے گی۔ لیکن کامیابی کی کوئی ضمانت نہیں ہے۔
دوسری طرف ڈیموکریٹک پارٹی میں امریکی ریاست ورمونٹ کے سنیٹربرنی سینڈرز نے تیزی سے مقبولیت حاصل کی ہے ۔ حکمران طبقات کو دھچکا اس وقت لگا جب امریکی ریاست نیو ہیمپشائر کے ڈیموکریٹک پارٹی کے کنونشن میں برنی سینڈرز نے ہلیری کلنٹن کو 22 فیصد ووٹوں سے شکست دی۔ یہ کنونشن تاریخی طور پر صدارتی امیدوار کے چنائو کے لئے کلیدی سمجھا جاتا ہے۔ یہ اس سے بھی بڑی شکست ہے جو 2006ء کی انتخابی مہم میں باراک اوباما نے ہلیری کلنٹن کو دی تھی۔ ہلیری کلنٹن کی مہم میں اسے وال سٹریٹ کے بڑے بینکاروں اورسرمایہ داروں کی بھاری مالی امداد حاصل رہی ہے۔ برنی سینڈرز نے ''امیر ترین ایک فیصد‘‘ لوگوں کی مالی امداد لینے سے انکار کیا ہے اور عوامی چندے سے اپنی مہم چلا رہا ہے۔ اس چندے میں 27 ڈالر سے زیادہ رقم کوئی نہیں جمع کروا سکتا، اس کے باوجود چند ہفتوں میں لاکھوں ڈالر اکٹھے ہوئے ہیں، ایسی مثال امریکی سیاست کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ ہلیری کلنٹن کی مہم میں سرمایہ داروں کی دی گئی رقوم برنی سینڈرز کی مہم کے کل مالی حجم سے 10 گنا زیادہ ہیں۔ یوں ہیمپشائر میںہلیری کو نہیں بلکہ سرمایہ داروں کو شکست ہوئی ہے۔برنی سینڈرز کی اس فتح کے بعد چندہ دینے والوں کی تعداد اتنی بڑھ گئی کہ اس کی ویب سائٹ ہی کریش ہو گئی۔
یہ سب کچھ اچانک نہیں ہوا۔ جدلیات کی سائنس واضح کرتی ہے کہ کوئی بھی حادثہ لمبے عرصے سے چلی آ رہی ضرورت کا اظہار ہوتا ہے۔ برنی سینڈرز نے براہ راست اس طبقاتی تضاد کی بات کی ہے جو امریکی سماج میں شدید تر ہوتا چلا جا رہا ہے، اس نے امارت اور غربت کی مسلسل وسیع ہوتی ہوئی خلیج کے خلاف آواز اٹھائی ہے۔ یہاں تک کہ اس نے 'سوشلزم‘کا نعرہ بلند کیا ہے جسے امریکی سیاست میں خاصا 'معیوب‘ اور 'غیر فطری‘ سمجھا جاتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سوشلزم کے تذکرے نے اسے غیر معروف کرنے کی بجائے شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا ہے۔ کچھ سال پہلے تک ایسے کسی مظہر کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ دوسری طرف ہلیری کلنٹن ڈیموکریٹک پارٹی کی روایتی قسم کی نحیف سی اصلاح پسندی کی بات ہی کر رہی ہے، اس نے وال سٹریٹ (امریکی سرمایہ دار طبقے کی علامت) کے خلاف کوئی بیان دینے سے گزیر کیا ہے اور افغانستان سے لے کر عراق اور شام تک، امریکی جارحیت کی حمایت کی ہے۔ خارجہ پالیسی کے معاملے میں ہلیری اس قدر رجعت اور ڈھٹائی پر اتر آئی ہے کہ ہنری کسنجر کو امریکہ کی تاریخ کے عظیم ترین وزرائے خارجہ میں سے ایک قرار دے دیا ہے۔
برنی سینڈرز نے لوٹ مار اور جعل سازی میں ملوث تمام بینکوں کے خلاف اقدامات، امیر ترین ایک فیصد پر 70 فیصد ٹیکس، تعلیم اور علاج کی ریاست کی جانب سے مفت فراہمی کا پروگرام پیش کیا ہے۔ یاد رہے کہ امریکہ دنیا کا واحد ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ ملک ہے جہاں یونیورسل ہیلتھ کیئر نہیں ہے اور علاج انتہائی مہنگا ہے۔ اسی طرح سینڈرز نے جنگوں اور سامراجی جارحیت کی مذمت کرتے ہوئے 'نوبل انعام یافتہ‘ ہنری کسنجر کو جنگی مجرم قرار دیا ہے۔حیران کن بات یہ بھی ہے کہ 74 سالہ سینڈرز کے 76 فیصد حمایتی 18 سے 40 سال کے نوجوان یا کم عمر افراد ہیں۔ برنی سینڈرز کی سیاسی بنیاد زیادہ تر محنت کش اور غریب عوام ہیں اور دوسرے تمام امیدواروں کی جلسے ملا لئے جائیں تو بھی اس کے جلسے بڑے ہیں۔
یہاں کچھ باتیں بالکل واضح ہونی چاہئیں۔ برنی سینڈرز کوئی مارکسسٹ یا انقلابی سوشلسٹ نہیں ہے۔ وہ 'سیاسی انقلاب‘ اور 'سکینڈنیویا ماڈل‘ والے سوشلزم کی بات کرتا ہے جس میں امیروں پر ریاست بھاری ٹیکس عائد کرے، ان پر 'چیک‘ رکھے اور عوام کو بنیادی سہولیات مفت فراہم کی جائیں۔ یورپ کے حالات واضح کر رہے ہیں کہ سوشل ڈیموکریسی کے اس نام نہاد ماڈل کی گنجائش اب سرمایہ دارانہ نظام میں ختم ہو چکی ہے۔لیکن مروجہ امریکی سیاست کے تناظر میں سینڈرز یہ باتیں بھی بہت 'ریڈیکل‘ ہیں۔ وہ کم از کم طبقاتی تضاد اور سرمایہ داروں کی لوٹ مار پر تنقید تو کر رہا ہے۔ سینڈرز کی مقبولیت اس کی ذاتی خصوصیات کی وجہ سے کم اور امریکی سماج میں حکمرانوں کے خلاف پکنے والے غصے کی وجہ سے زیادہ ہے۔کسی انقلابی متبادل کی عدم موجودگی میں عوام کو جہاں بھی اپنی امنگوں کی تھوڑی بہت بازگشت سنائی دے رہی ہے وہ اس کی حمایت کر رہے ہیں۔
ڈیموکریٹک پارٹی اور ریاست کی اشرافیہ اول تو سینڈرز کو صدارتی امیداوار کے طور پر نامزد نہیں ہونے دیں گے۔ اگر ہو بھی گیا تو اسے جیتنے نہیں دیں گے۔ لیکن اس صورت میں امریکی عوام کا غم و غصہ بڑی تحریک کی شکل میں اپنا اظہار کر سکتا ہے جو امریکی سیاست اور سماج کی نقشہ ہی بدل ڈالے گی۔ ایسی کوئی تحریک 'آکو پائی وال سٹریٹ‘ کی تحریک سے کہیں زیادہ وسیع اور ریڈیکل ہوگی۔
برنی سینڈز جیتے یا ہارے لیکن امریکہ کا نوجوان اور محنت کش آج سوشلزم کے نعرے پر لبیک کہہ رہا ہے۔2008ء سے پہلے ایسا سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا۔ سوشلزم کے خلاف سب سے بڑی سامراجی طاقت کی کوکھ میں آج سوشلسٹ انقلاب کے بیج پک رہے ہیں۔