پیپلز پارٹی کے نئے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے تازہ بیان میں کہا ہے کہ پیپلز پارٹی، ن لیگ اور تحریک انصاف مل کر ملک کے سارے مسائل حل کر سکتے ہیں۔ جواب میں تحریک انصاف کے چوہدری سرور نے پیپلز پارٹی کو کرپٹ قرار دے کر اس تجویز کو مسترد کر دیا۔ کبھی محنت کشوں اور غریبوں کی سیاسی روایت کا درجہ رکھنے والی پارٹی کی یہ کھلی تضحیک ہے‘ لیکن پارٹی قیادت جب ''مصالحت‘‘، ڈھٹائی، نظریاتی انحراف اور بدعنوانی میں غرق ہو جائے تو تحریک انصاف جیسی جماعت کا ایسا رویہ بھی حیران کن نہیں لگنا چاہئے۔
حکمران جماعت کے پیپلز پارٹی سے گہرے مراسم ہیں۔ سرمایہ داروں کی یہ روایتی جماعت پیپلز پارٹی کی 'فرینڈلی اپوزیشن‘ کو استعمال کرتے ہوئے محنت کش عوام پر کھل کر معاشی یلغار کر رہی ہے۔ سیاسی افق پر مسلط تمام سیاستدان ایک ہی طبقے کے مختلف حصوں سے تعلق رکھتے ہیں، لوٹ مار کی حصہ داری پر نورا کُشتیاں چلتی رہتی ہیں، پس پردہ سب کے سب اپنی اپنی واردات جاری رکھے ہوئے ہیں۔ کوئی اختلاف نظریاتی نہیں۔
بلاول بھٹو کی فلاپ لانچنگ کے باوجود سابق بائیں بازو اور اصلاح پسندوں نے اس سے کچھ امیدیں وابستہ کیں۔ کہیں کہیں تو سوشلزم کا نام بھی پیپلز پارٹی کے کچھ رہنمائوں نے معذرت خواہانہ انداز میں لیا۔ لیکن یوں محسوس ہوتا ہے کہ ان کے بیانات اور حرکات کو عوام کی وسیع اکثریت نے سنجیدہ لینا ہی چھوڑ دیا ہے۔ بلاول بھٹو کے حالیہ بیان نے یہ بھی ثابت کر دیا ہے اس پر ذوالفقار علی بھٹو کی سیاست اور نظریات کا ''بہتان‘‘ لگانے والے بالکل غلط ہیں۔ بلاول نے دائیں بازو کی ان رجعتی پارٹیوں سے الحاق کی درخواست کر کے مزید واضح کیا ہے کہ وہ اپنی والدہ اور والد کی پالیسیوں کے نہ صرف پیروکار ہیں بلکہ ''مصالحت‘‘ کو نئی انتہا پر لے جانے کا 'عزم‘ رکھتے ہیں۔ انہوں نے وہ کر دکھایا جو زرداری صاحب بھی نہ کر سکے۔ ''جمہوریت‘‘ کے نام پر نواز لیگ کی حمایت سے آگے بڑھ کر انہوں نے عمران خان کو ساتھ ملا کر ملک کے مسائل حل کرنے کا نظریہ پیش کر دیا ہے۔ عوام دشمن قوتوں سے قیادت کی مفاہمت، مصالحت اور بدعنوانی کے بوجھ تلے مسلسل سکڑتی ہوئی پیپلز پارٹی کی بچی کھچی حمایت کو بلاول کے ایسے بیانات سے کاری ضرب لگے گی۔
پیپلز پارٹی مارکسسٹ لیننسٹ پارٹی تو کبھی نہیں تھی لیکن کم از کم انقلابی سوشلزم کے نعرے اور منشور کی بنیاد پر اسے عوام میں وسیع بنیادیں حاصل کی تھیں۔ ایک وقت میں سرمایہ دار، جاگیردار طبقات اور سامراج کے خلاف جدوجہد کا عزم بھی کیا تھا۔ پارٹی کے تاسیسی منشور میں نہ صرف انقلابی پروگرام پیش کیا گیا‘ بلکہ سرمایہ دارانہ نظام پر یقین رکھنے والے تمام جماعتوں کو اپنا حریف اور انہیں متروک قرار دیا گیا تھا۔ پارٹی کے بانیوں نے سب سے زیادہ جس سیاست کے خلاف آواز اٹھائی وہ مصالحت کی سیاست تھی۔ یہاں تک کہ ایوب خان نے اپنے اقتدار کے آخری دنوں میں جب گول میز کانفرنس بلائی تھی تو ذوالفقار علی بھٹو نے ریاست اور حکمران طبقات کے نمائندوں کے ساتھ بیٹھنے سے صاف انکار کرتے ہوئے اس آفر کو ٹھکرا دیا تھا۔ پھر یہ لڑائی کھلی، ایوبی آمریت کا تختہ الٹا گیا، 1968-69ء کی انقلابی تحریک ابھری اور انقلابی سوشلزم کا منشور دینے والی واحد پارٹی ملک کی سب سے بڑی سیاسی قوت اور عوام کی روایت بن گئی۔ وہ پارٹی دیکھیں اور پھر یہ بیان دیکھیں! یہ پالیسی ہی اس نظریاتی روح کی نفی کرتی ہے‘ جس پر پیپلز پارٹی قائم کی گئی تھی۔ پارٹی میں سے نظریہ نکال دیا جائے تو وہ مردہ ہو جاتی ہے یا پھر حکمرانوں کا سیاسی اوزار بن کے رہ جاتی ہے۔ یہی کچھ پیپلز پارٹی
کے ساتھ اس کی قیادت نے کیا ہے۔ کرسٹینا لیمب نے بینظیر کے دور اقتدار میں لکھی گئی اپنی کتاب ''ویٹنگ فار اللہ‘‘ میں لکھا تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو اگر قبر سے اٹھ کر آئیں تو وہ اس پیپلز پارٹی کو پہچان بھی نہ سکیں گے کہ یہ وہی پارٹی ہے جو انہوں نے بنائی تھی۔ یہ 1980ء کی دہائی کے اواخر میں لکھی گئی کتاب ہے۔ اس کے بعد کے عرصے میں پارٹی کی تنزلی میں دن دُگنا رات چوگنا اضافہ ہوا۔ بلاول اب خستہ حال پارٹی کو تباہی کی کس نہج تک پہنچائے گا‘ اس کا اندازہ لگانے کے لئے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں۔
تحریک انصاف اور نواز لیگ حکمران طبقات کی پارٹیاں ہیں اور کھل کر اس حقیقت کو تسلیم بھی کرتی ہے۔ بلاول شاید ریاست، حکمران طبقے اور سامراج کو باور کرانا چاہتا ہے کہ وہ اپنے والدین سے بھی زیادہ ان کے نظام کا وفادار ہے۔ اس کا بیان درحقیقت طبقاتی جدوجہد اور محنت کش طبقے سے ہر ناتہ توڑ کر سرمایہ دارانہ پارٹی بننے کا اعلان ہے۔ پیپلز پارٹی پر براجمان قیادت موروثی کم اور سرمایہ داری کی تابع زیادہ ہے اور اس نظام کو معاشرے کی حتمی منزل قرار دے رہی ہے۔ اس وقت یہ تینوں پارٹیاں وفاق یا صوبوں میں برسر اقتدار ہیں‘ اور نتائج سب سے سامنے ہیں۔ پورا سماج بھوک، بیروزگاری، مہنگائی اور بدعنوانی کے ہاتھوں گھائل ہے اور کراہ رہا ہے۔
ایک نظام جو تاریخی طور پر متروک ہو چکا ہے، پوری دنیا میں اس کے خلاف تحریکیں اور بغاوتیں ابھر رہی ہیں، وہاں تاریخ کے اس موڑ پر بلاول کا اس نظام کی سیاست اور معیشت سے مصالحت کا عندیہ پارٹی کے لئے کیا ثابت ہو گا؟ معیشت دیوالیہ ہے، حکومت ناکام و نامراد ہے، ریاست داخلی تضادات اور کالے دھن کے زنگ سے کھوکھلی ہو چکی ہے اور رِٹ کھوتی جا رہی ہے، سیاست سے عوام بیزار اور بیگانہ ہیں، آبادی کی وسیع اکثریت کی زندگیاں عذاب مسلسل بنی ہوئی ہیں۔ ایسے میں ''مصالحت‘‘ کی باتیں عوام کی کھلی تضحیک کے مترادف ہیں اور ظاہر ہے کہ ان کے غم و غصے میں اضافہ ہی کر سکتی ہیں۔
ہر نظریے پر تاریخ میں سماجی حالات اور معروض کے اتار چڑھائو کے تحت بُرا وقت بھی آتا ہے۔ ایسے میں سب سے آسان راستہ نظریے کو چھوڑ کر مخالف کیمپ کے ساتھ مصالحت کا ہوتا ہے، لیکن وقت جب بدلتا ہے تو نظریات سے انحراف کر کے بھگوڑے ہو جانے والوں کی بربادی کا سامان کرتا ہے۔ جس نظریے کا وقت آ جائے اسے دنیا کی کوئی طاقت روک نہیں سکتی اور عوام جب کسی نظریے کو اپنا لیتے ہیں تو وہ مادی قوت میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ کرہ ارض کے موجودہ حالات کا جائزہ لیا جائے تو احساس ہوتا ہے کہ ایک بار پھر سوشلزم کا وقت قریب آن پہنچا ہے۔ جب اس خطے کا محنت کش طبقہ تحریک میں اترا‘ تو انقلابی سوشلزم کے نظریات کا سیاسی اوزار بھی تراش لے گا۔