لاہور کے اقبال پارک میں ہونے والے المناک خود کش حملے میں درجنوں معصوموں کا لہو بہا۔ آخری اطلاعات کے مطابق ہلاکتوں کی تعداد 72 ہو چکی ہے۔ ہلاک ہونے والوں میںبچے اور خواتین بھی شامل ہیں۔ ایک مرتبہ پھر وحشت کے اس قہر سے برباد‘ خلق کی دہائی اٹھی ہے۔ انتہا پسندی کا جنون‘ اور درندگی کے بار بار ہونے والے وار غریبوں کو ہی نشانہ بناتے ہیں۔ کتنی تکلیف دہ بات ہے کہ تنگ و تاریک کوچوں کے باسی اگر کسی باغ کی کھلی فضا میں سانس لے کر اپنی تلخ زندگیوں میں کچھ آسودگی تلاش کرنے چلے جائیں‘ تو ان کو آگ اور خون کی لہر میں ڈبو دیا جاتا ہے۔ بارود نے کسی مذہبی تفریق کو ملحوظ خاطر نہیں رکھا۔ بچوں اور بزرگوں، خواتین اور مردوں میں کوئی امتیاز نہیں برتا۔ رنگ و نسل‘ قوم اور عقیدے کی پہچان بھی یہ آگ نہیں کر سکی۔ ایک تفریق پہلے سے موجود تھی۔ یہ متوسط اور محنت کش طبقات کے علاقے میں ایسا پارک تھا‘ جس میں اکثریت انہی طبقات سے تعلق رکھنے والوں کی تھی۔
ہر دہشت گردی کے بڑے وار کی طرح اس خونریز ی پر بھی حکمرانوں کی جانب سے مذمتوں کا تانتا بندھ گیا۔ ''زخمیوں کی عیادت‘‘ کے لیے ہر قسم کے حکمرانوں نے ہسپتالوں کا رخ کیا۔ ان کی انسان دوستی اور ہمدردی کے میڈیا پر خوب چرچے ہوئے۔
سوگ کی روایتی و ریاستی رسومات اور علامات کا دور دورہ رہا۔ ٹاک شوز میں غم و غصے کے اظہار ہوئے، ہر طرف سے یہی تجزیہ اور تجویز آئی کہ سکیورٹی کو مزید سخت کیا جائے۔ پولیس اور اداروں کی غفلت پر بہت برہمی کا اظہار بھی ہوا۔ اعلیٰ سیاسی و ریاستی عہدے داروں کے استعفوں کے مطالبے بھی زوروں پر تھے‘ لیکن پھر زندگی کے معمولات واپس آنا شروع ہو گئے ہیں۔ دوسرے عبرتناک مظالم کی طرح یہ دہشت گردی بھی جلد ہی لوگوں کے ذہنوں پر سے مٹ جائے گی۔ روٹی کی فکر اور تگ و دو غریبوں کو یہ سب بھلانے پر مجبور کر دے گی۔ اپنی اور اپنے کنبے کی کفالت کا مسلسل جبر ذہن اور جسم کو اپنی گرفت میں لے کر ان کو روزی کی تلاش میں غرق کر دے گا۔ اس کشمکش میں وہ انسان کی بجائے ایک مشین بنے رہنے پر مجبور رہیں گے۔ حکمرانوں کے سیاسی اور ریاستی ایوانوں میں ان مرنے والے غریبوں اور ان کے ورثا کی اذیت کا احساس کم ہی ہو گا۔ ایسے واقعات سے بگڑنے والی سماجی صورتحال اور عدم استحکام کی شدت سے پیدا ہونے والی حاکمیت کی مشکلات پر جلد از جلد قابو پا کر وہ اپنی طاقت اور دولت کی لذت کو جاری رکھنے کے معمول کو
بحال کرنے کی کاوش کریں گے۔ سڑکوں اور چوکوں پر مزید ناکے لگیں گے، ''سکیورٹی‘‘ کے بجٹ پر عوام کی دولت کو مزید صرف کیا جائے گا‘ لیکن ان تلاشیوں اور ناکوں سے زندگی پھر انہی عام انسانوں کی ہی تلخ ہو گی۔ خطرے میں غریب سپاہیوں کی جانیں ہی پڑیں گی۔ سکیورٹی کے نام پر ریاستی جبر دہشت گردی کے خاتمے میں یکسر ناکام ہے‘ لیکن ایسے واقعات عام انسانوں سے کسی بھی طرح کا برتائو کرنے کے مزید جواز ان حکمرانوں کو دیتے ہیں۔
سوال پھر یہی ہے کہ پچھلی چند دہائیوں کے دوران عفریت بن کر سماج، سیاست اور ریاست میں پھیلنے والا یہ مذہبی جنون کیوں اور کس نے ابھارا؟ اس کے مقاصد کیا تھے؟ اور اس کا خمیازہ کس کو بھگتنا پڑ رہا ہے؟ کیا وجہ ہے کہ ایک ایٹمی قوت نہ تو عوام کو بجلی اور صاف پانی دے سکتی ہے‘ اور نہ ہی دہشت گردی اور جرائم پر قابو پا سکتی ہے۔ ریاست جان کی کوئی ضمانت ہی دینے سے قاصر ہے‘ لیکن ریاستی طاقت کے مظاہروں اور اسلحے کی نمائشوں میں شاید یہ حکمران دنیا میں سب سے آگے ہیں۔
عوام میں ایسے حملوں کے بعد پھیلنے والی عدمِ تحفظ کی نفسیات ان کو وقتی طور پر مزید پسپا کرنے اور گھروں کے اندر کنڈیاں لگا کر رہنے پر مجبور کرتی ہے۔ تعلیمی اداروں کے بعد اب بچوں کو پارکوں میں لے جانے سے پہلے بھی اس ملک کی مائیں کئی بار سوچیں گی۔ بازار تک جانے سے بھی خوف اور ہچکچاہٹ نظر آئے گی۔ یہ بچے کھچے پبلک مقامات پبلک یعنی عوام کے لئے ہوتے ہیں۔ حکمرانوں کے یہ مسائل نہیں‘ ان کے اپنے پوش علاقے، محلات اور تفریح کے مقامات ہیں جو خاصے محفوظ کرنے والے اور دہشت گردی کی لپیٹ سے خاصے باہر نظر آتے ہیں۔ ان کو بازار جانے کی بھی کوئی خاص ضرورت نہیں ہوتی۔ اس مقصد کے لئے ان کے پاس غریب ملازمین کی کمی نہیں۔ محنت کشوں کو بہرحال ہر دن موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر، یا اس سے نظر چرا کر گزارنا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ اس واقعہ میں بیرونی ہاتھ ملوث ہیں‘ لیکن اندرونی ہاتھوں کی بھی کوئی کمی نہیں۔ انہیں کون نہیں جانتا؟ کچھ عرصہ قبل جنرل راحیل شریف نے ہی اعتراف کیا تھا کہ دہشت گردوں کے مالیاتی ذرائع کو ختم کیے بغیر دہشت گردی ختم نہیں ہو سکتی۔ اس سلسلے میں ملک کے کئی بڑے سرمایہ داروں اور سیاست دانوں کے نام وقتاً فوقتاً منظر عام پر آتے رہیں ہیں۔ نہ پہلے کوئی کارروائی ہوئی، نہ لگتا ہے کہ اب بھی نہیں ہو گی۔
سوال یہ ہے کہ آخر ریاست اس مالیاتی کمک کے راستے کیوں نہیں بند کر سکتی؟ کون سی ایسی طاقت ہے جو ریاستی اداروں کو بھی چیر کے نکل جاتی ہے۔ یہاں مسئلہ پھر صرف سکیورٹی سخت کرنے اور آپریشنوں سے آگے نکل جاتا ہے۔ اس ملک کے اقتصادی اور سماجی ڈھانچوں اور ترتیب پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ جب تک کسی بیماری کی درست تشخیص نہیں ہوتی، اس وقت تک اس کا علاج ممکن نہیں ہوتا۔ پاکستان کے حکمران، سیاسی اشرافیہ اور ریاست بنیادی طور پر جس معاشی اور اقتصادی نظام کا تحفظ کر رہے ہیں اور اس کے تسلسل کو برقرار رکھنے کے لیے مامور کیے گئے ہیں، دہشت گردی اور بربادی کی جڑیں اسی نظام کے اندر پیوست ہیں۔ جب حکمران طبقات کو جائز طریقے سے دولت حاصل نہ ہو سکے تو پھر وہ ہر ناجائز طریقہ استعمال کرتے اور کچھ بھی کر گزرنے کو تیار ہوتے ہیں۔ (جاری)
وحشت کا قہر... (2)
لال خان
ان حکمرانوں کو سیاہ دولت کے حصول کے لیے مختلف روپ دھارنا پڑتے ہیں۔ دولت کے حصول کے لیے طاقت درکار ہوتی ہے اور سرمائے کے تسلط میں جکڑے معاشرے میں طاقت بھی کاروباری جنس بن کے رہ جاتی ہے۔ دولت سے ہی طاقت خریدی جاتی ہے اور پھر اس طاقت کو دولت مزید بڑھانے کے لیے استعمال بھی لایا جاتا ہے۔ کوئی جمہوریت کا ڈھونگ کرتا ہے تو کسی نے لبرل ازم کا لبادہ اوڑھا ہوا ہے۔ کوئی مذہب اور فرقے کا چوغہ پہنے ہوئے ہے تو کسی نے قوم پرستی کا جنون برپا کیا ہے۔ بہت سے نسل پرستی کی منافرت کا زہر پھیلا کر اپنی دکان کرتے ہیں۔ یہ سب ایک ہی دھندے کے مختلف برانڈ ہیں۔ یہ منافع بخش کاروبار جب کالے دھن کی شکل میں بڑھتا اور پھیلتا ہے‘ تو اس میں سرمایہ کاری کرنے والے مختلف جغادریوں کے درمیان تنازعات اور تصادم بھی بڑھ جاتے ہیں۔ ایسے میں حصہ داری کی لڑائیوں میں جبر اور وحشت درکار ہوتی ہے۔ دہشت گردی کا ایک بنیادی پہلو یہی جبر اور وحشت ہے جسے کسی بھی نام سے برپا کیا جا سکتا ہے اور جو تہذیب اور سماج کو تاراج کرتی جا رہی ہے۔ اس دہشت اور وحشت کو برقرار رکھنے کے لیے جس جنون کی ضرورت ہوتی ہے وہ پھر انتہا پسندی کے ذریعے ابھارا جاتا ہے۔ جتنی حصہ داریاں بڑھتی، جتنی نئی دکانیں کھلتی ہیں اتنے ہی نئے مسلک، فرقے اور جہادی گروہ پیدا ہوتے ہیں۔
اس مظہر کی بنیاد اور جنم کی وجوہ کو پرکھنے کی بجائے اس کی ظاہری کیفیت پر مبنی تجزیے کسی نتیجے تک نہیں پہنچا سکتے۔ کبھی ایک فرقے کو میانہ روی پر مبنی اور ''معتدل‘‘ قرار دے دیا جاتا ہے تو دوسرے کو انتہا پسند اور جنونی ٹھہرایا جاتا ہے‘ لیکن پھر یہی میانہ روی انتہا پسندی میں بدل جاتی ہے اور مفاد پرستی کے مقاصد کے تحت انتہا پسندی میانہ روی کا ڈھونگ کرنا شروع کر دیتی ہے۔ مذہبی فرقہ واریت سے لے کر نسلی تفرقوں تک، سب کے سب آخری تجزیے میں کالے دھن کے تحفظ اور اس میں اضافے کے لیے استعمال کئے جاتے ہیں۔ امریکی سامراج اور اس کے پروردہ تمام ریاستی حکمران کہیں نہ کہیں اپنے سٹریٹیجک مقاصد، مالیاتی مفادات اور طبقاتی کردار کے پیش نظر اس خونریزی کو ابھارنے کے مجرم ضرور ہیں۔ عوام کو مذہب، فرقے، رنگ، نسل، قوم، ذات کی بنیاد پر تقسیم کرنے کے لئے بھی ایسا کیا جاتا ہے۔ اس سے محنت کشوں کی طبقاتی یکجہتی میں دراڑیں پیدا کی جاتی، تحریکوں کو زائل کیا جاتا ہے اور حکمران وقتی طور پر سمجھتے ہیں کہ عوام کی کسی بغاوت کا خطرہ ٹل گیا ہے‘ لیکن پھر یہی وحشت اور جنون کا عفریت معاشرے میں اتنا انتشار اور عدم استحکام پیدا کر دیتا ہے کہ ان حکمرانوں کا اپنا اقتدار خطرات سے دوچار ہو جاتا ہے۔ پھر وہ اپنے ہی پیدا کردہ عفریت کو ختم یا کنٹرول کرنے کی واردات کرتے ہیں‘ لیکن انہی کے تربیت یافتہ آلہ کار ان کی ان وارداتوں سے واقف ہوتے ہیں۔ اس پس منظر میں وہ چور دروازے بھی تلاش کر لیتے ہیں‘ اور فرار بھی ہو جاتے ہیں۔
دہشت گردی کا ایک اہم پہلو سماجی اور ثقافتی بحران بھی ہے۔ ایک طرف غریب طبقات کے بچے کالے دھن کی اس آگ کا ایندھن بنتے ہیں تو دوسری جانب متوسط اور بالادست طبقات کے نوجوان جس معاشرتی اور ثقافتی پراگندگی اور ابہام کا شکار ہیں، وہ ان کی نفسیات کو جنون اور وحشت میں دھکیل دیتا ہے۔ ایسا گزشتہ کچھ عرصے کے دوران کئی واقعات کی تفتیش کے دوران واضح ہوا۔ متوسط اور بالادست طبقات کے ایسے افراد یا تو بنیاد پرستی اور دہشت گردی میں براہ راست ملوث ہو جاتے ہیں‘ یا پھر بالواسطہ طور پر مالی وسائل اور سہولیات فراہم کرتے ہیں۔
اس نظام کے اقتصادی‘ سماجی‘ ثقافتی اور نفسیاتی بحران کی بیماریاں پورے معاشرے کو لپیٹ میں لئے ہوئے ہیں۔ بنیاد پرستی، مذہبی جنون اور دہشت گردی جیسے کینسر کا علاج اب گہری جراحی کا متقاضی ہے۔ سکیورٹی انتظامات، آپریشن، نئے نئے سکیورٹی ادارے اور پولیس فورسز وغیرہ جیسی شعبدہ بازیوں کے نتائج آج سب کے سامنے ہیں۔ حقیقی وجوہ اس گلے سڑے اور تعفن زدہ سرمایہ دارانہ نظام میں تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ اس نظام کے بحران سے جنم لینے والی نفسانفسی، پراگندگی، عدم استحکام اور بیگانگی کی زہریلی نفسیات، ثقافت، اخلاقیات اور اقدار اس سماج پر حاوی ہیں۔ یہ تمام عناصر ایک دوسرے پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں اور بحیثیت مجموعی یہاں کے باسیوں کی زندگی کو جہنم بنائے ہوئے ہیں۔ اس نظام کے رکھوالے حکمران طبقات نے اپنی ہوس میں سماج کو مجروح کر کے رکھ دیا ہے۔ یہ حکمران طبقہ تاریخی طور پر نااہل تھا اور آگے بھی مزید بربادیوں کے سوا کچھ دینے کا اہل نہیں‘ لیکن خون کے دریا بہہ بھی رہے ہیں تو انہیں کوئی پریشانی نہیں۔ ان کی دولت کے انبار لگتے جا رہے ہیں، انہیں اس کے علاوہ کسی چیز سے کوئی غرق نہیں۔ اسی دولت کی تقسیم اور حصہ داری پر ان کی لڑائیاں بھی ہیں اور دوستیاں بھی۔ مصالحت بھی ہے اور منافقت پر مبنی تکرار بھی۔ لیکن یہ حکمران سب خوش ہیں۔ یہ محنت کش عوام ہیں جو ان زخموں سے گھائل ہو رہے ہیں۔
دہشت گردی کے ایسے وحشیانہ حملوں سے بنیاد پرستی کی پہلے سے محدود سماجی بنیادیں مزید سکڑ رہی ہیں۔ سماج کی پسماندہ پرتوں اور پیٹی بورژوازی کو چھوڑ کے ملائیت کے خلاف وسیع پیمانے پر حقارت اور بیزاری موجود ہے۔ اس کے رد عمل میں مذہبی جنونی زیادہ وحشت سے خود کو سماج پر مسلط کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ لبرل پروپیگنڈا کے برعکس اس ملک کی انتخابی تاریخ گواہ ہے پاکستان کے محنت کش عوام نے سیاسی اور انتخابی میدان میں ملائوں کو ہمیشہ مسترد کیا‘ لیکن حکمران طبقات کے کچھ حصوں کی پشت پناہی سے مصنوعی طور پر بنیاد پرستی اور رجعت مسلسل مسلط کی جاتی رہے تو ایک مخصوص مقام پر وسیع تر سماجی بغاوت کو جنم دے سکتی ہے۔ ایسی بغاوت پورے نظام کو ہی اکھاڑ پھینک سکتی ہے۔
جہاں بارود کی دہشت گردی وقفوں کے تسلسل کے ساتھ جاری ہے وہاں معاشی دہشت گردی کا سلسلہ تو ہر وقت چل رہا ہے۔ لیکن یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ وقت بدلتا ہے، انسان بدلتے ہیں، محنت کش طبقات کی نفسیات اور سوچ بدلتی ہے، شعور جست لگا کر آگے بھی بڑھتا ہے۔ محنت کشوں کے وقتی ابھار اور ہڑتالیں بڑے اور دھماکہ خیز واقعات کی جھلکیاں ہوتی ہیں۔ محنت کشوں کو ماضی کے ان تعصبات کی تقسیم میں صدا جکڑ کر نہیں رکھا جا سکتا۔ وہ صرف دہشت گردی کا ہی نہیں بلکہ نسلوں اور صدیوں کے استحصال، ذلت اور جبر کا انتقام لینے کے لیے اٹھیں گے۔ دہشت اور وحشت کے ہر روپ، ہر ادارے کے خلاف بغاوت ہو گی جس نے معصوم زندگیوں کو تاراج کیا ہے، بچوں سے ان کا بچپن چھینا ہے، نئی نسل سے جوانیاں چھینی ہیں، بزرگوں کو بے وقت موت دی ہے، مامتا کو پامال کیا ہے۔ یہی وقت محشر ہو گا‘ یہی سوشلسٹ انقلاب ہو گا جب چہرے نہیں پورا نظام بدلا جائے گا۔