11 اپریل کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں پی آئی اے کو ایک کارپوریشن سے لمیٹڈ کمپنی میں تبدیل کرنے کی منظوری دراصل نجکاری کو نئے انداز میں پیش کرنے کی واردات ہے۔ وزیر خزانہ نے اس موقع پر کمال ''فراخ دلی‘‘ کا مظاہرہ کرتے ہوئے دو سو کے قریب ملازمین پر قائم مقدمات واپس لینے کا اعلان کیا۔ یہ وہ ملازمین تھے جنہوں نے اس سال کے آغاز میں نجکاری کے خلاف تاریخی ہڑتال میں متحرک کردار ادا کیا تھا۔ نام نہاد اپوزیشن نے ان دو سو محنت کشوں کے خلاف مقدمات یا شو کاز نوٹس واپس کروا کے فتح کا اعلان تو کر دیا ہے لیکن ایک کمپنی‘ جس کے 49 فیصد حصص نجی سرمایہ داروں کی ملکیت میں ہوں گے‘ میں ملازمین کے حقوق کی کوئی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔ اس بل کی منظوری کے بعد اگر پتھر پر تراش کر بھی ملازمین کو ملازمت کی گارنٹی دی جائے تو اس پر یقین نہیں کیا جا سکتا۔ پیپلز پارٹی کی قیادت نے بل میں کچھ برائے نام شرائط تو رکھوائی ہیں‘ لیکن منڈی کی اس معیشت میں سٹاک مارکیٹ کے ذریعے شیئر ہولڈر بننے والے سرمایہ کاروں کے لئے ان شرائط کو ملیامیٹ کرنا کوئی مشکل نہیں۔
کارپوریشن سے کمپنی میں تبدیل کرنے کا بنیادی مقصد پی آئی اے کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے بیچنا ہے۔ اس کی انتظامیہ اور بورڈ آف گورنرز میں سرمائے کے وہی لٹیرے ہوں گے‘ جن کو ادارے کی سروس کے معیار سے کوئی غرض نہیں، اس سرمایہ کاری کے ذریعے ان کا پہلا اور آخری مقصد منافع حاصل کرنا ہو گا۔ اگر ادارے کی کارکردگی سے ان کو منافع نہیں ہو گا تو اس کے حصے بخرے کرکے ان کو بیچ بیچ کے وہ مال بنائیں گے۔ ظاہر ہے انہوں نے شیئرز میں خیرات کے طور پر پیسہ تو نہیں لگایا ہو گا۔
کئی دہائیوں سے سامراجی میڈیا اور دانشوروں نے دنیا بھر میں شور مچا رکھا ہے کہ نجکاری سے ادارے بہتر کارکردگی دینے لگتے ہیں‘ لیکن حقیقت یہ ہے کہ علاج کا شعبہ ہو یا تعلیم، ٹرانسپورٹ ہو یا پھر صنعتی اور توانائی کے ادارے، نجکاری سے امرا یا بالائی درمیانے طبقے کے چند افراد تو شاید بہتر سہولیات خرید لیتے ہوں‘ لیکن آبادی کی وسیع اکثریت کو اس سے محروم ہی ہونا پڑتا ہے۔ آج کل نجی اور سرکاری ملکیت میں تفریق بھی سیاہ و سفید نہیں رہی ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام میں کبھی کچھ شعبوں کو سرکاری ملکیت میں رکھ کر سرمایہ داروں کو سستی سہولیات ریاست فراہم کرتی ہے‘ لیکن سرمایہ دار طبقات کا سامنا جب شرح منافع میں گراوٹ سے ہوتا ہے تو توانائی، ریل، تعلیم اور علاج وغیرہ جیسے کلیدی شعبے بھی وہ ہتھیا لیتے ہیں‘ اور شرح منافع بڑھانے کی مزید گنجائش بھی پیدا کرتے ہیں۔ اس سے محنت کشوں کے حالات زندگی بدترین ہو جاتے ہیں، مہنگائی میں اضافہ ہوتا ہے، بیروزگاری پھیلتی ہے اور ملکی سطح پر بھی معاشی گراوٹ اور نابرابری‘ خوفناک حد تک بڑھ جاتے ہیں۔
عالمی سطح پر نجکاری کا وسیع پیمانے پر آغاز یورپ سے 1970ء کی دہائی کے اواخر میں ہوا تھا۔ اس وقت تک دوسری عالمی جنگ کے بعد اپنایا جانے والا کنیشین ازم اور ریاستی سرمایہ داری کا ماڈل اپنی حدود کو پہنچ کر ناکام ہو رہا ہے‘ لیکن اعداد و شمار بالکل واضح کرتے ہیں کہ نیو لبرل معاشیات اور نجکاری کی پالیسی کے آغاز کے بعد کم و بیش ہر جگہ پر ریاستی قرضوں میں ہوشربا اضافہ ہوا، اُجرتیں منجمد ہو گئیں یا گرنے لگیں، بیروزگاری معمول بن گئی، اقتصادی انارکی مسلسل بڑھتی گئی اور ان سب عوامل کا ناگزیر نتیجہ 2008ء کے مالیاتی کریش کی شکل میں برآمد ہوا جس کے بعد شروع ہونے والے معاشی بحران سے عالمی سرمایہ داری آج تک نہیں نکل سکی۔
کئی مرتبہ حکمران سرمایہ داری کو چلانے کے دونوں طریقوں، یعنی ریاستی سرمایہ داری اور نجکاری کا ملغوبہ بنا کر بھی معیشت کو چلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس صورت میں سرکاری اور نجی شعبے کی حصہ داری اوپر نیچے ہوتی رہتی ہے۔ یہ نام نہاد ''مکسڈ اکانومی‘‘ کا طریقہ بھی ہمیں آج چین میں بری طرح ناکام ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ اس طریقہ کار کی کئی شکلیں ہو سکتی ہیں‘ لیکن بنیادی مقصد عام طور پر خساروں کو نیشنلائز اور منافعوں کو پرائیویٹائز کرنا ہوتا ہے۔ پی آئی اے کو کمپنی بنانے کے عمل میں بھی یہی فارمولا استعمال کیا جا رہا ہے‘ لیکن اسمبلی میں جن چند ایک افراد کو تھوڑی بہت اقتصادی سوجھ بوجھ ہے انہیں بھی اچھی طرح معلوم ہے کہ یہ اقدام درحقیقت نجکاری ہی ہے۔
جہاں تک دو سو ملازمین کو مقدمات سے بری کرنے کے اعلان کا تعلق ہے تو یہ سراسر دھوکہ دہی ہے۔ آج شاید چند لوگوں کو بحال کر دیا جائے لیکن کل کو ہزاروں لوگوں کو مختلف طریقوں اور حیلے بہانوں سے نوکری سے فارغ کیا جائے گا۔ یہ سب کچھ اس نام نہاد اپوزیشن اور پیپلز پارٹی کی قیادت کو اچھی طرح معلوم ہے۔ حکمران طبقات کی سیاست کے انداز بڑے پُرفریب ہوتے ہیں۔ خصوصاً خود کو ''عوام دوست‘‘ کہلانے والے اصلاح پسند حکمران یا تو بہت ہی جاہل ہوتے ہیں یا پھر عیاری کے ماہر ہوتے ہیں۔ اس کی ایک اہم مثال 1933ء سے 1945ء تک امریکی صدر رہنے والے فرینکلن ڈی روزویلٹ اور بالخصوص ان کی بیگم صاحبہ 'اینا الینور روزویلٹ‘ کی ہے۔ امریکی اشرافیہ سے تعلق رکھنے والی یہ خاتون دراصل 1930ء کی دہائی میں 'گریٹ ڈپریشن‘ کے دوران اپنائی جانے والی ریاستی سرمایہ داری اور اصلاح پسندی کی اصل ماسٹر مائنڈ تھی۔ وہ امریکی کمیونسٹ پارٹی اور ٹریڈ یونینز کے بڑے رہنمائوں کو دعوتوں پر وائٹ ہائوس مدعو کرتی تھی‘ اور انہیں انقلاب کو رد کر کے سرمایہ دارانہ نظام کو ہی ''ٹھیک‘‘ کرنے کی ترغیب دیا کرتی تھی۔ ایک انٹرویو میں جب اس سے پوچھا گیا کہ ''کیا آپ بغاوت کرنے والوں کو معاف کر سکتی ہیں؟‘‘ تو الینور کا جواب تھا کہ ''میں معاف تو کر سکتی ہوں لیکن بھولتی کبھی نہیں!‘‘
یہ ریاست اور حکمران طبقے کی بنیادی نفسیات ہوتی ہے۔ بوقت ضرورت انہیں پسپا ہونا پڑے تو بھی بغاوت کرنے والوں کو کبھی بھولتے نہیں ہیں اور موقع ملنے پر انہیں کچل ڈالتے ہیں۔ حکمران پی آئی اے کے محنت کشوں کی جرأت مندانہ ہڑتال سے خاصے خوفزدہ تھے‘ لیکن ایک بار پسپائی کے بعد دوبارہ اسی پیمانے کی ہڑتال کے لئے محنت کشوں کو حوصلہ اور کچھ وقت درکار ہو گا‘ لیکن پارلیمانی جمہوریت کی پردہ داری میں کی جانے والے نجکاری سے محنت کشوں کو زیادہ عرصے تک دھوکے میں نہیں رکھا جا سکے گا۔
اس ملک میں بھٹو دور میں جو تجربات 1972-77ء کے درمیان ہوئے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام میں رہتے ہوئے معیشت کے کچھ حصوں کو ریاستی ملکیت میں چلانے کا انجام ناکامی کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ اس ''ماڈل‘‘ کی ناکامی ہمیں آج چین سے لے کر یورپ اور وینزویلا تک، مختلف اشکال اور مختلف سطحوں پر بالکل واضح نظر آتی ہے۔ انقلاب یا پورا ہوتا ہے یا پھر نہیں ہوتا۔ انقلابِ فرانس کے اہم سیاسی اور عسکری رہنما لوئی سینٹ یائوسٹ نے کہا تھا کہ ادھورا انقلاب برپا کرنے والے ہمیشہ اپنی قبریں خود کھودتے ہیں۔
پاکستان کی دیوالیہ سرمایہ داری کو کسی کالی دیوی کی طرح مزید استحصال، نجکاری، مہنگائی اور ریاستی خزانے کی لوٹ مار کی شکل میں محنت کشوں کے لہو کی بَلی مسلسل درکارہے۔ اس کے تعفن زدہ وجود کو برقرار رکھنے کے لئے یہ ناگزیر اقدامات ہیں۔ موجودہ حکمران سرمایہ دار طبقات کے روایتی نمائندے بھی ہیں اور حصہ بھی۔ وہ انہی پالیسیوں کو جاری رکھیں گے۔ آج ان کی پارلیمانی فنکاری پر مبنی نجکاری کو محنت کشوں کی کسی بغاوت کا سامنا نہیں ہے لیکن ہمیشہ ایسا نہیں رہے گا۔ محنت کش طبقہ اپنی پسپائی سے بھی بہت سے اسباق سیکھتا ہے۔ پی آئی اے کی تحریک کے عروج و زوال سے بھی محنت کش طبقے کے ہراول حصوں نے بہت کچھ سیکھا ہے۔ ناکامیوں کے ایسے اسباق بھی محنت کشوں کی میراث ہیں جنہیں مستقبل میں کامیابیوں کی ضمانت بننا ہے۔