"DLK" (space) message & send to 7575

فرانس: طبقاتی کشمکش کی نئی لہر

2008ء کے مالیاتی کریش کے آٹھ برس بعد بھی مغربی سرمایہ دار معیشتوں میں بحالی کے مسلسل دعوے ناکام اور کھوکھلے ثابت ہو رہے ہیں۔ سماج میں عدم اطمینان اور خلفشار چھوٹی بڑی تحریکوں کی صورت میں مسلسل اپنا اظہار کر رہا ہے۔ اس معاشی بحران کے نتیجے میں معاشی توازن کے بگڑنے سے سیاسی اور سماجی توازن درہم برہم ہو چکا ہے۔ بائیں بازو کی اصلاح پسندی نامراد ہے کیونکہ اس کی گنجائش تاریخ نے سرمایہ داری میں سے ختم کر دی ہے۔ کئی دوسرے ممالک کی طرح اس بحران کے آغاز کے بعد فرانس میں تحریکوں کا ایک طویل عمل شروع ہوا‘ اور وہاں جاری حالیہ ہڑتالیں اور مظاہرے اسی کا تسلسل ہیں۔
یہ ایک ٹھوس حقیقت ہے کہ عالمی جنگ کے بعد یورپ میں نسبتاً سماجی و سیاسی استحکام کا عہد‘ سرمایہ داری کی حدود میں رہتے ہوئے اب ہمیشہ کے لیے ختم ہو چکا ہے۔ سماجوں میں دائیں اور بائیں بازو کی جانب تیز ترین سیاسی حرکت ان میں موجود خلفشار اور بحران کا اظہار ہے‘ اور یہ لمبے عرصے تک چل سکتا ہے۔ یہ عدم استحکام یورپ کا نیا معمول بن سکتا ہے جیسا کہ گزشتہ صدی میں غیر ترقی یافتہ سابق نوآبادیاتی ممالک میں تھا۔ یہ طوفانی واقعات قبل از انقلاب اور انقلابی ادوار کا پیش خیمہ ہیں‘ لیکن اس طویل عمل میں رد انقلاب کے ادوار اور محنت کشوں اور نوجوانوں کی جدوجہد میں رکاوٹیں بھی آئیں گی۔ 
یورو 2016ء فٹ بال ٹورنامنٹ سے صرف نو روز قبل‘ یکم جون کو فرانس میں ریلوے کے محنت کش ہڑتال پر چلے گئے ہیں۔ یہ حکومت اور یونینز کے درمیان کئی ماہ سے جاری لڑائی کا حصہ ہے۔ تین ماہ سے بھی کم عرصے میں یہ ریلوے کمپنی ایس این سی ایف کی آٹھویں ہڑتال ہے‘ جس سے ملک بھر میں تقریباً آدھی ریل گاڑیاں جام ہو چکی ہیں۔ ایس این سی ایف کے مطابق ان کا 17 فیصد سٹاف بدھ کے روز ہڑتال پر تھا جس سے شہر کے اندر چلنے والی دو تہائی سے زیادہ اور آدھی تیز رفتار ٹی جی وی ٹرینیں کینسل ہو چکی ہیں۔ کئی بین الاقوامی سروسز بشمول سپین اور اٹلی جانے والی زیادہ تر گاڑیاں بھی منسوخ ہونے کا امکان ہے۔
ہڑتال سے ''سوشلسٹ پارٹی‘‘ کی حکومت پر دبائو شدید ہو چکا ہے‘ جو کٹوتیوں (آسٹیریٹی) کے خلاف ووٹ لے کر برسر اقتدار آئی تھی‘ اور اب اپنے ووٹروں سے غداری کر رہی ہے۔ کیا المیہ ہے کہ اسی حکومت نے مزدور دشمن 'لیبر اصلاحات کا قانون‘ پیش کیا ہے‘ جس پر فرانسیسی محنت کش شدید غصے میں ہیں۔ پارلیمنٹ میں تقریر کرتے ہوئے وزیر اعظم مینو ئل والز نے ہڑتالوں کی مذمت کی ہے۔ اس نے کہا کہ ''ایک ایسے وقت پر جب حکومتی اقدامات کے نتیجے میں معیشت بحال ہو رہی ہے اور بڑھ رہی ہے اور بے روزگاری میں کمی واقع ہو رہی ہے ، یہ تنازع ہماری معیشت پر ایک بوجھ ہے‘‘۔ صدر اولاندکی سوشلسٹ پارٹی کی حکومت کے مطابق اس نئے لیبر قانون کا مقصد مسلسل بلند شرح کی بے روزگاری میں کمی اور مشکلات سے دوچار معیشت کو کاروبار کے لیے مزید ''سازگار‘‘ بنانا ہے۔
نام نہاد بائیں بازو کی جانب سے کٹوتیوں کی ان پالیسیوں اور مزدور دشمن اقدامات سے دائیں بازو کے سیاست دانوں کو حملے کرنے کا موقع مل گیا ہے۔ دائیں بازو کے حزب اختلاف کے لیڈر اور سابق صدر نکولس سارکوزی نے اس بحران میں حکومت کے کردار کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے جریدے والیرس ایکچولس (Valeurs Actuelles) کو دئیے گئے انٹرویو میں کہا کہ ''فرانس کی سڑکوں پر ہنگامہ خیزی اور انتشار ہے... اتھارٹی مکمل طور پر ختم ہو چکی ہے اور (حکومت) کمزور اور بزدل ہے۔ یہ منظر ہماری آنکھوں کے سامنے ہے... یہ قانون مسائل کا حل کرنے کے لیے بہت کمزور، لیکن بائیں بازو کے جوش کو ابھارنے کے لیے کافی ہے۔ حکومت کی کمزوری ثابت ہو چکی ہے اور اسے مظاہروں کا سامنا ہے‘‘۔
اس قانون کے تحت مالکان کے لئے ملازمین کو نکالنا آسان ہو جائے گا اور مستقل روزگار پر ضرب لگے گی۔ حکومت نے آئینی چالبازیوں کے ذریعے ایوان زیریں میں اس بل پر ووٹنگ ہی نہیں کروائی۔ اس پر ٹریڈ یونینز بہت برہم ہیں اور دو ہفتے بعد ایک نئی ہڑتال کی کال دے چکی ہیں‘ جب یہ بل سینیٹ میں پیش ہو گا۔ یونینز کے مطابق یہ قانون مالکان کے فائدے میں ہے کیونکہ وہ نئے ملازمین کے ساتھ متعلقہ شعبے پر لاگو سمجھوتوں کی بجائے من مانی شرائط طے کر سکیںگے۔ اس سے کمپنیاں بوقت ضرورت نوکریاں ختم کرنے اور فرانس کے ہفتہ وار 35 گھنٹے اوقات کار سے زیادہ کام لینے کے قابل ہو جائیں گی۔
اے ایف پی کی رپورٹ سے اس ہڑتال کی طاقت اور وسعت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ''جمعرات کے روز دارالحکومت میں سب وے (زمین دوز ریل) کے محنت کش ہڑتال پر جا چکے ہیں، ہفتے کے اختتام پر پیرس میں چارلس ڈیگال ہوائی اڈے کے محنت کش بھی ہڑتال میں شامل ہو جائیں گے۔ طاقتور یونین سی جی ٹی کے سربراہ فلپ مارٹینیز نے منگل کو بیان دیا کہ رواں ہفتے کے دوران 'تین ماہ میں سب سے بڑی‘ ہڑتال ہو گی۔ ایئر فرانس کے پائلٹوں کی یونین نے بھی 10 جون کو یورو 2016ء کے آغاز کے بعد دو یا چار روزہ ہڑتال کی دھمکی دی ہے۔ مارچ سے لاکھوں افراد ان مظاہروں میں شریک ہو چکے ہیں جو اکثر پُرتشدد ہو جاتے ہیں، گزشتہ ہفتے فرانس کے تقریباً بیس فیصد پٹرول پمپ خالی ہو چکے تھے کیونکہ سی جی ٹی کی کارروائیوں سے ریفائنریاں اور (تیل کے) ڈپو کی ناکہ بندی تھی۔ ایک اندرونی رپورٹ کے مطابق پانچ ریفائنریوں کی ناکہ بندی سے توانائی کے ایک گروپ کو ہر ہفتے کروڑوں ڈالر کا نقصان ہو رہا ہے... پیرس کے دو بڑے ہوائی اڈوں کو کیروسین سپلائی کرنے والی شمالی بندرگاہ لی ہاورے کے محنت کشوں نے بدھ کے روز بھی ناکہ بندی جاری رکھی‘‘۔
ان ہڑتالوں اور مظاہروں سے یورو چمپیئن شپ کی تیاریاں بھی کھٹائی میں پڑ گئی ہیں‘ جسے دیکھنے کے لیے دس لاکھ بین الاقوامی شائقین کی آمد متوقع ہے اور یہ ایک ماہ تک جاری رہے گی۔ سرمایہ داری کے سنجیدہ منصوبہ ساز پریشان ہیں۔ کچھ دن قبل ہی اکانومسٹ نے لکھا تھا کہ ''دونوں میں سے کوئی بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہے... مسٹر اولاند کی حمایت کی ریٹنگ صرف 13 فیصد ہے اور وہ پہلے ہی کمزور ہیں... سی جی ٹی بھی حالیہ برسوں میں کمزور ہوئی ہے، اور اسے طاقت کے مظاہرے کی اشد ضرورت ہے... اس کا انجام فرانس میں بائیں بازو کے لیے فیصلہ کن ہو سکتا ہے۔ اگر سوشلسٹ باغی اور سی جی ٹی کامیاب ہوتے ہیں تو حکومت کا مستقبل خطرے میں پڑ جائے گا اور بائیں بازو کے کنٹرول کے لیے لڑائی کھل جائے گی۔ شاید سب سے اہم سبق سیاسی طور پر اپنا جواز بر قرار رکھنا ہے۔ 2012ء میں سوشلسٹ امیدوار کے طور پر اولاند نے مالیاتی سرمائے کے خلاف لڑنے، کٹوتیوں کے خاتمے اور امیروں سے مال نکلوانے کا وعدہ کیا تھا، نہ کہ لیبر کوڈ میں نرمی کا۔ مسٹر اولاند کے برعکس مسٹر والز کافی عرصے سے سینٹر کی جانب مزید جھکائو کی وکالت کرتا رہا ہے‘ لیکن اس کے پاس ایسی اصلاحات کرنے کا مینڈیٹ نہیں ہے۔ فرانس عدم استحکام کا شکار ہے، یہاں مزاحمت کے ساتھ ایک رومانوی ہمدردی وابستہ ہے اور سڑکوں پر ڈرامائی واقعات کی پرانی روایت موجود ہے۔ مختصراً یہ کہ ملک کو اس سمت میں لے کر جانا مشکل ہے‘ جس کے خلاف مسٹر اولاند منتخب ہوا ہے‘‘۔
کچھ عرصے سے فرانسیسی سیاست دائیں اور بائیں جانب جھول رہی ہے۔ بورژوا میڈیا نے مقامی اور علاقائی انتخابات میں انتہائی دائیں بازو کے 'نیشنل فرنٹ‘ کی کامیابی کو فرانس میں دائیں بازو کی جانب ایک تبدیلی قرار دیا تھا؛ تاہم ہڑتالوں کی تحریک سے فرانسیسی پرولتاریہ کی قوت اور ثابت قدمی واضح ہے۔ مارکس اور اینگلز نے فرانس کو ''انقلابات کی ماں‘‘ کہا تھا۔ پرولتاریہ کا پہلا انقلاب پیرس کمیون تھا جب 15 مارچ سے 28 مئی 1871ء تک اقتدار محنت کشوں کے ہاتھ میں تھا۔ یہ طبقاتی جدوجہد کی تاریخ کا اہم سنگ میل تھا۔ اسی طرح فرانس میں مئی 1968ء کا انقلاب ایک عظیم انقلابی بغاوت تھا‘ جو کامیاب ہو کر تاریخ بدل سکتا تھا۔ بدقسمتی سے یہ انقلاب قیادت کی نااہلی اور غداری کی نذر ہو گیا۔ آج ایک بار پھر فرانس کے محنت کش اور نوجوان میدان عمل میں اتر رہے ہیں۔ حالیہ بحران کے عرصے میں انہوں نے بہت کچھ سیکھا ہے اور دور رس نتائج اخذ کئے ہیں۔ لیکن آج بھی انہیں ایک مارکسی قیادت درکار ہے۔ ایک انقلابی قیادت کے تحت فرانس کا انقلاب نہ صرف یورپ کو بدل کر رکھ دے گا بلکہ ساری دنیا میں سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف انقلابی بغاوتوں کو بھڑکانے والی چنگاری ثابت ہو گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں