"DLK" (space) message & send to 7575

اس دشت میں اِک شہر تھا

عام حالات میں انسانی نفسیات‘ حالات، ماحول اور کیفیات کی اتنی عادی ہو جاتی ہے کہ ان کے'بدلائو کے تغیر‘ کو کم ہی محسوس کرتی ہے‘ لیکن اگر کوئی شخص لمبے عرصے یا وقفے کے بعد‘ اسی مقام پر پھر وارد ہوتا ہے، جہاں سے وہ کبھی گیا تھا‘ تو وہ ان تبدیلیوں پر حیران ہو جاتا ہے۔ پاکستان کے شہروں اور دیہات سے گئے ہوئے پردیسی جب واپس آتے ہیں تو‘ وہ اپنے گلی، محلے اور شہروں کی تنزلی اور بربادی دیکھ کر صدمے سے دوچار ہوتے ہیں۔ اگر ہم ملک کے طول و عرض کا جائزہ لیں تو ماحولیاتی آلودگی سے لے کر غلاظت کے ڈھیروں اور اُبلتے گٹروں تک کے مناظر نظر آتے ہیں۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ شہروں میں سیوریج کا نظام گل سڑ چکا ہے‘ اور دیہات میں پانی کا استعمال بڑھنے سے وہاں صفائی کی بجائے گندگی کی بھرمار ہے۔ اسی طرح دیہات‘ شہروں اور مضافات میں بے ہنگم تعمیرات اور بگڑے ہوئے انفراسٹرکچر کی وجہ سے بڑے بڑے (محلات نما) مکان بھی غلاظت میں گھرے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ناجائز تجاوزات، منصوبہ بندی کے بغیر اور بھونڈے انداز میں کی گئی ان تعمیرات اور آبادیوں کا پھیلائو اس طرح ہوا ہے کہ پورے ملک کا چہرا ہی بگاڑ کر رکھ دیا گیا ہے۔ آج سے 50 سال قبل کے دیہات میں اتنی جدیدیت نہ ہونے کے باوجود صفائی اور تازگی کی فضائیں تھیں۔ ملاوٹ اور بیماریوں کی اس قدر بھرمار نہ تھی اور غربت کے باوجود لوگ اتنی غلاظت میں نہیں رہ رہے تھے۔ سڑکوں کچی تھیں، لیکن ان میں آج کی دیہی پکی سڑکوں کی طرح کھڈے اور گندگی نہیں تھی۔ مکان کچے تھے، لیکن صحن صاف ستھرے تھے۔ جب حکمران یہاں ترقی کے گن گاتے ہیں‘ تو اس ترقی کا انجام دیکھ کر اس ترقی سے گھِن آنے لگتی ہے۔ سب سے پہلے تو یہ تاثر ہی غلط ہے کہ پاکستان کی آبادی کی بھاری اکثریت دیہی علاقوں میں بستی ہے۔ چند دہائیوں سے جس طرح کے طرز تعمیر نے یہاں پھیلائو اور وسعت اختیار کی ہے، اس سے شہروں، ان کے مضافات اور دیہات میں فرق کم رہ گیا ہے۔ شہروں کے درمیانی علاقوں سے پُرسکون ویرانے ختم ہوتے چلے جا رہے ہیں۔آبادیاں اتنی گاڑھی اور گھنی ہو گئی ہیں کہ جدید تحقیق کے مطابق پاکستان کی 70 فیصد آبادی اس مجتمع شدہ کیفیت میں شہری ماحول میں رہتی ہے‘ جبکہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ابھی تک شہری آبادی صرف 36 فیصد بتائی جا رہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں 15 سال سے مردم شماری ہی نہیں ہوئی۔ اس لئے کوئی بھی حکمران نہیں بتا سکتا کہ اس ملک کی کل آبادی کتنی ہے؟ شہری اور دیہی آبادی میں تفریق کے اعداد و شمار تو بہت بعد میں آتے ہیں۔
''ورلڈ پاپولیشن ریویو‘‘ کے مطابق پاکستان میں دس لاکھ سے زائد آبادی کے 8 شہر ہیں اور تقریباً اتنے ہی شہروں میں پانچ سے دس لاکھ آبادی پائی جاتی ہے۔ 51 شہر ایسے ہیں جن میں ایک لاکھ سے 5 لاکھ تک کی آبادی ہے‘ لیکن ان میں بہت سے ایسے شہر ہیں جن کے درمیان پھیلے ہوئے ''مضافات‘‘ نے درمیانی خالی زمین ہی ختم کر دی ہے۔ مضافات کی اہم ترین شکل ہائوسنگ سوسائٹیوں کے طور پر ابھری ہے۔ ان شہروں اور ان کے مضافات کے اس بے ہنگم پھیلائو کے بارے میں مشہور آرکیٹیکٹ، ٹائون پلانر اور مفکر عارف حسن نے روایتی انتظامی امور‘ مقامی و صوبائی حکومتوں کے درمیان اختیارات کے تنازعوں وغیرہ کی وجوہ کو مسترد کرتے ہوئے بتایا کہ ''اس (تعمیرات) کے شعبے میں غیر سرکاری (یعنی کالے دھن) کا فیصلہ کن کردار ہے‘ یہاں جنم لینے والی معاشرت اور سماجی قدروںکو سمجھنے اور ان کی اس کیفیت کی وجوہ جاننے کے لیے بھی اس شعبے کے کردار کا تجزیہ کرنا ہو گا‘‘۔ کالادھن‘ ایسے شعبوں میں زیادہ استعمال ہوتا ہے جہاں سرمایہ کاری سے منافع خوری میں کم از کم وقت درکار ہو۔ رئیل اسٹیٹ اور ہائوسنگ کالونیوں ایسے شعبوں میں یہ سب سے زیادہ بڑھ رہا ہے۔ دوسری جانب ایک کرپٹ ریاست اور سیاست میں کالے دھن کے پاس اتنی گنجائش ہوتی ہے کہ وہ رشوت ستانی کے ذریعے سرکاری اہل کاروں کو خرید سکے‘ بجلی اور پانی کے شعبوں سے اپنی کالونیوں کے لیے ترجیحات حاصل کر سکے اور سب سے بڑھ کر ناجائز قبضوں اور زمینوں سے یہاں غریب باسیوں کو بے دخل کرکے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو کند کر سکے۔ من پسند نقشے پاس کروانا اور تجاوزات کھڑی کرنا‘ ایسے میں بڑی معمولی سے وارداتیں بن جاتیں ہیں۔ دوسرا المیہ یہ ہے کہ اس طبقاتی معاشرے میں امیر اور غریب کی تفریق تیزی سے بڑھ رہی ہے، عدم مساوات کی انتہا ہو چکی ہے۔ اب تو امیروں اور غریبوں کے درمیان سکول‘ ہسپتال‘ رہائشی علاقے‘ بجلی اور پانی کا حصول‘ سڑکوں اور سہولیات کی فراہمی تقریباً علیحدہ علیحدہ ہو چکے ہیں۔ امراء اور درمیانے طبقے کی بالادست پرتوں کے جہان ہی اور ہیں۔ ان کے اس غربت، ذلت اور محرومی کے بحر میں مختلف جزیرے ہیں، جن کو سکیورٹی کی دیواروں اور گارڈوں کے ذریعے محفوظ بنایا گیا ہے۔ غریبوں اور محنت کشوں کے علاقوں میں لوڈ شیڈنگ عام ہے، پینے کا صاف پانی میسر نہیں۔ سیوریج کا نظام یا تو ہے ہی نہیں یا پھر اتنا خستہ ہے کہ نکاس کی بجائے گندگی پھیلانے کا موجب بنتا ہے۔ یہاں تشدد ہے، غنڈہ گردی اور جرائم پلتے ہیں۔ زندگی مسلسل عذاب اور جبر بن کر رہ گئی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بالادست طبقات کے ان جزیروں کی دنیا ہی کچھ اور ہے۔ محنت کشوں کی کچی آبادیاں سماج کے رستے ہوئے زخم بن چکی ہیں‘ لیکن چونکہ یہ طبقہ 80 فیصد سے زائد ہے اس لیے اگر پورے ملک کی حالت دیکھی جائے تو غربت اور غلاظت کی گھنائونی تصویر نظر آتی ہے۔
چند بھاری منصوبوں کی حیثیت اس ذلت کے صحرا میں محض نمائشی ہی رہ جاتی ہے‘ لیکن یہاں کا کارپوریٹ میڈیا اور مالیاتی سیاست‘ ہمیںکوئی اور ہی روپ دکھاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں پلنے والی غربت، بیروزگاری، محرومی اور ذلت کے خاتمے اور عوام کے سلگتے ہوئے ایشوز کی بجائے نان ایشوز، حکمرانوں کے سیکنڈل اور نورا کشتیوں پر مبنی خبریں اور ٹاک شوز کی بھاری تعداد ہوتی ہیں‘ لیکن زندگی کی ٹھوس ضروریات اور حقائق میں یہاں کے حکمرانوں کے ''وطن‘‘ کوئی اور ہیں، وہاں غریبوں کے 'دیس‘ برباد ہیں۔ عام درمیانے طبقے کے حالات ان دونوں کیفیات میں بٹے ہوئے ہیں۔ لیکن جہاں حکمرانوں اور محکوموں کے مادی حالات الٹ ہیں وہاں ان کی تہذیبیں اور ثقافتیں بھی علیحدہ ہی ہیں۔ موجودہ کٹھن عہد میں محنت کش عوام ان اذیت کے ستم جھیل تو رہے ہیں، لیکن اندر سے دکھی ہیں۔ ان کے شہروں کی رونقیں چھین لی گئی ہیں اور ان کے دیہات کا سکون مجروح کر دیا گیا ہے‘ لیکن یہ دکھ اور درد اب ایک غصے میں بدلے گا اور یہ غصہ بغاوت بن سکتا ہے۔ اس امارت اور غربت کی تفریق کا خاتمہ دولت کی طاقت کو مسمار کر دے گا۔ ایک منصوبہ بند سوشلسٹ معیشت سے تعمیر کی طرز اور مقصد بدلا جا سکتا ہے۔ منڈی اور سٹہ بازی کے کاروبار کی بجائے عام انسانوں کی رہائش اور سکونت کے لیے تعمیر ہونے والے شہروں کے نقشے ہی بدل جاتے ہیں۔ اشتراکی رہن سہن کا یہ طرز تعمیر غالباً (دوسروں کو کمتر ثابت کرنے والا) اور 'عالیشان‘ تو نہیں ہو گا، لیکن یہاں کے تمام باسیوں کی مشترکہ ضروریات کی فراہمی یقینی ہو جائے گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں