اعداد و شمار میں ہیر پھیر پاکستان کے حکمران طبقے کے دانشوروں کا وتیرہ بن گیا ہے۔ بدعنوان اور متروک سرمایہ دارانہ نظام پر مبنی ہر نئی حکومت غربت میں کمی کا دعویٰ کرتی ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال وزارت منصوبہ بندی اور ترقی کی رپورٹ ہے۔ رپورٹ پچھلے سوموار کو وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے اسلام آباد میں پیش کی جس میں کثیرالجہتی غربت کے انڈیکس کو دکھایا گیا جس کے مطابق 2004ء سے 2015ء کے دوران شدید غربت کی شرح 55 فیصد سے گھٹ کر 39 فیصد ہوگئی ہے۔ لیکن اسی رپورٹ کے مطابق پاکستان کی ایک تہائی سے زیادہ آبادی شدید غربت کی زندگی گزار رہی ہے۔ تاہم سابق حکومت کی 2012ء میں دی گئی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں شدید غربت کی شرح 29 فیصد تک گھٹ گئی تھی۔ اسی طرح مشرف کی حکومت کے دوران جھوٹے اندازوں اور اعداد و شمار کے ذریعے یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی کہ غربت کی شرح 2000-01ء میں 35 فیصد سے گھٹ کر 2004-05ء میں 23 فیصد ہوگئی۔ موجودہ حکومت کے تحت ہی 2013ء میں ہونے والے 'قومی غذائی سروے‘ کے مطابق 60 فیصد آبادی غذائی عدم تحفظ کا شکار ہے اور اس آبادی میں 50 فیصد خواتین اور بچے باقاعدہ غذائی قلت سے دو چار ہیں۔اب چند سال بعد کہا جا رہا ہے غربت کی شرح 39 فیصد ہوگئی ہے۔ غرضیکہ ریاست کے اپنے اعداد و شمار میں ہی مسلسل تضاد ہے۔ جو ریاست 16 سال سے مردم شماری نہ کروا پائی ہو اور جہاں سرکاری معیشت سے بڑی غیر سرکاری یا سیاہ معیشت چل رہی ہو (اس کا مطلب ہے کہ حکومت کو ملکی جی ڈی پی کا ہی پتا نہیں ہے) ، وہاں ایسے تضادات حیران کن نہیں ہونے چاہئیں اور نہ ہی حکومتی اعداد و شمار کو سنجیدہ لیا جا سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے سرمایہ دارانہ معیشت دانوں نے بھی غربت میں کمی کے امکان کو مسترد کیا ہے۔مضحکہ خیز بات ہے کہ کچھ مہینے قبل احسن اقبال صاحب خود ہی فرما رہے تھے کہ جب تک جی ڈی پی گروتھ 7 فیصد سے تجاوز نہیں کرتی تب تک کسی بہتری کا امکان نہیں ہے!
احسن اقبال کی حالیہ رپورٹ کے مطابق دیہی اکثریتی آبادی (54.6 فیصد) شدید غربت میں رہ رہی ہے جبکہ شہروں میں یہ تناسب 9.4 فیصد ہے۔ نہ جانے ''غربت‘‘ کی تعریف اور معیار ان حکمرانوں کے نزدیک کیا ہے لیکن یہ اعداد وشمار قطعاً شہروں میں سماجی و معاشی حالات اور زمینی حقائق کی عکاسی نہیں کرتی۔ لیکن شہر اور دیہات کے فرق سے ہٹ کر، جو کہ اب بہت دھندلا ہوچکا ہے، پاکستان میں صوبوں، خطوں اور قومیتوں کے درمیان ایک واضح خلیج موجود ہے۔حالیہ سروے کے مطابق صوبوں میں بلوچستان میں کثیرالجہتی غربت سب سے زیادہ ہے (71.2 فیصد) اور خیبرپختونخوا میں 49.2 فیصد ہے یعنی پختوانخوا میں آدھی آبادی شدید غربت اور محرومی کی زندگی گزار رہی ہے۔ اسی رپورٹ کے مطابق سندھ کی 43.1 فیصد آبادی تعلیم و صحت کی سہولیات کے فقدان اور کم تر معیار زندگی کی وجہ سے شدید غربت میں رہ رہی ہے۔ گلگت بلتستان میں یہ 43.2 فیصد اور پنجاب میں 31.4 فیصد ہے۔
تاہم وزیر منصوبہ بندی نے حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرنے کی کوشش کرتے ہوئے وہ کہہ دیا جو عام طور پر حکمران طبقات اور ان کے ماہرین بتانے سے ہچکچاتے ہیں۔ ان کے مطابق ، ''غربت میں کمی کی وجہ غیر رسمی معیشت (کالی معیشت) کی بڑھوتری ہے... بدقسمتی سے لاکھوں لوگ اب بھی غربت کا شکار ہیں۔‘‘ انہوں نے قبول کیا کہ ''اعداد وشمار کتنے ہی خوش نما کیوں نہ ہوں ، اس طرح کی ترقی سے صرف امیروں اور طاقت ور لوگوں کو فائدہ پہنچتا ہے۔‘‘ یہی معاملے کا اصل جوہر ہے۔ پچھلی چار دہائیوں میں پاکستان کی معیشت کا انحصار غیر رسمی شعبے پر بڑھ گیا ہے۔ یہ کالی معیشت اب ملک کی مجموعی معیشت کا کم از کم 70 فیصد بن چکی ہے (کچھ اندازوں کے مطابق اس سے بھی زیادہ)۔ تاہم اس طرح کی معاشی بڑھوتری زیادہ تر ان شعبوں میں ہوتی ہے جہاں کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ منافع حاصل کیا جاسکتا ہے۔ اس میں سرمایہ کاری زیادہ تر خدمات کے شعبوں(سروسز)، رئیل سٹیٹ، ٹرانسپورٹ، جرائم اور بھتہ خوری میں ہوتی ہے۔ وفاقی وزیر جس 'امیر اور طاقتور‘ طبقے ، جو جرائم اور بدعنوانی سے حاصل کردہ کالے سرمائے کے مالک ہیں، کی بات کررہے ہیں وہ کوئی کلاسیکی صنعت کار یا پرانے جاگیر دار نہیں ہیں بلکہ منشیات کی تجارت، زمینوں پر قبضوں، بدعنوانی اور بھتہ خوری میں ملوث مافیا ہیں۔
مینوفیکچرنگ انڈسٹری اور زراعت میں زوال کے باعث یہ غیر رسمی یا متوازی معیشت ہی معاشی نمو کا واحد شعبہ رہ گیا ہے۔ بعض اندازوں کے مطابق اس غیر جانچ پڑتال شدہ اور غیرقانونی معیشت کی شرح نمو 9 فیصد سالانہ ہے جبکہ سرکاری معیشت کی شرح نمو اکثر 4 فیصد سے زائد نہیں ہوتی، وہ بھی اعداد و شمار کے ہیر پھیر کے باوجود۔ اسی طرح 78 فیصد نوکریاں اسی متوازی معیشت سے آتی ہیں۔ یہ بات بالکل واضح ہے کہ یہ نوکریاں مکمل طور پر دیہاڑی یا کنٹریکٹ پر ہوتی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پنشن، میڈیکل، صحت، تعلیم کی سہولیات اور نوکری کی کوئی گارنٹی نہیں ہے۔ یہ معاشی نسخہ جسے معاشی بڑھوتری اور غربت میں کمی کا شاخسانہ مانا جاتا ہے دراصل حکمران طبقے اور ان کے نظام کی بوسیدہ کیفیت کو ظاہر کرتا ہے۔
ان حالیہ اعداد و شمار کا سب سے پریشان کن پہلو غربت کی شدت ہے کیونکہ ہر غریب آدمی غربت کے معیار کو ناپنے کے لیے چنے گئے انڈیکیٹرز میں سے آدھے سے محروم ہے۔رپورٹ کے مطابق پاکستان کی 60.6 فیصد آبادی کوکنگ آئل سے محروم ہے، 48.5 فیصد بچے سکول کی تعلیم مکمل نہیں کر پاتے، ہر دس میں سے چار افراد (39 فیصد) کے پاس کوئی جائیداد نہیں اور 38 فیصد سے زائد آبادی ایک کمرے کے مکان میں رہتی ہے۔ ایک تہائی آبادی صحت کی سہولیات سے محروم ہے۔ یہ اعداد وشمار واضح طور پر تحریف شدہ ہیں لیکن پھر بھی خوفناک صورتحال کے عکاس ہیں۔ اسی طرح غربت کے دوسرے اعشاریے جیسے ناقص خوراک،بچوں اور زچگی کے دوران اموات کی شرح تشویشناک حد تک زیادہ ہیں۔ پاکستان میں نوزائیدہ بچوں کی اموات کی شرح دنیا میں تیسرے نمبر پر ہے جہاں پانچ لاکھ سے زائد خواتین نئی زندگی کو جنم دیتے وقت اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں۔
جیسے جیسے ریاست سماجی انفراسٹرکچر پر ہونے والے اخراجات میں کٹوتیاں کر رہی ہے، ان بنیادی ضروریات کی تیز ترین نجکاری سے صحت اور تعلیم کے شعبے میں محرومیاں مزید بڑھ رہی ہیں۔ ان شعبوں میں غیر رسمی شعبے کی سرمایہ کاری بھی بہت ہے۔ مینوفیکچرنگ کے شعبے میں زوال کے ساتھ اب تو سامراجی کارپوریشنز اور بڑے قومی سرمایہ دار بھی ان شعبوں کی طرف آرہے ہیں تاکہ بلند ترین شرح منافع حاصل کر سکیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آبادی کے وسیع حصے کی صحت اور تعلیم کی بنیادی سہولیات سے دوری مسلسل بڑھ رہی ہے۔
نیو لبرل معاشیات کی یہ تمام تر جارحانہ پالیسیاں محرومی اور غربت میں اضافہ کررہی ہیں۔ تین ہزار روپے ماہانہ آمدنی کو خط غربت کے پیمانے کے طور پر استعمال کرنا بذات خود زندگی کی تلخ حقیقتوں سے متصادم ہے۔سرکاری افراط زر میں کمی کے باوجود اجناس کی بڑھتی ہوئی قیمتیں، ان میکرواکنامک اعشاریوں میں بہتری لانے کی حکومتی شیخیوں کے باوجود، عام لوگوں کی زندگیوں پر قہر ڈھا رہی ہیں۔ کوئی یہ نہیں پوچھتا کہ یہ رقم کس طرح خط غربت سے اوپر ہونے کا پیمانہ ہے جبکہ اسی میں خوراک، لباس، رہائش، تعلیم، صحت، ٹرانسپورٹ، خوشی، غمی کے اخراجات ''خط غربت سے اوپر‘‘ کے افراد نے پورے کرنے ہیں۔
یو این ڈی پی (UNDP) کے کثیرالجہتی غربت کے انڈیکس کے مطابق پاکستان میں مناسب معیار زندگی ، تعلیم، صحت اور دوسری بنیادی سہولیات تک رسائی کے تناظر میں شدید غربت کی شرح تقریباً 44 فیصد ہے۔اسی طرح ورلڈ بینک کے 2014ء کے سروے کے مطابق 60.19 فیصد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے جس میں 21.4 فیصد آبادی ''شدید غربت‘‘میں زندہ ہے۔
عالمی سطح پر سرمایہ دارانہ نظام کی زوال پذیری کی کیفیت میں پاکستان کی بوسیدہ سرمایہ داری ترقی یافتہ ممالک کی نسبت کہیں زیادہ بد حال ہے اور ایسے میں غربت میں کمی کی باتیں نہ صرف جھوٹ ہیں بلکہ غربت اور ذلت میں سسکتے کروڑوں انسانوں کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہیں۔ منڈی کی معیشت کی حدود میں رہتے ہوئے استحصال زدہ عوام کے لیے کوئی سکون، کوئی آسودگی نہیں ہے۔ سنجیدہ بورژوا ماہرین پاکستان کی معیشت کے مستقبل کے بارے میں مایوس ہیں۔ محکوم طبقات کو اپنی معاشی، سماجی اور سیاسی آزادی کے لیے جدوجہد کرکے سماج میں ایک انقلابی تبدیلی لانا ہو گی۔