"DLK" (space) message & send to 7575

’اورنج ٹرین‘، تاریخی ورثے اور عوام

لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے تاریخی عمارات کے قریب اورنج لائن ٹرین منصوبے کا تعمیراتی کام روک دینے اور روٹ کی مجوزہ تبدیلی پر بہت شور مچا ہے۔ سول سوسائٹی نے جشن منایا جبکہ حکمرانوں نے سپریم کورٹ جانے اور منصوبے کو اسی روٹ پر جاری رکھنے کا ارادہ ظاہر کیا۔ یہ دلیل درست ہے کہ تاریخی عمارات کا تحفظ نہ صرف شہر کی خوبصورتی کو قائم رکھتا ہے بلکہ ثقافت کے ارتقا کے مختلف ادوار کا پتا بھی دیتا ہے۔ ہر 'مہذب‘معاشرے کے دوسرے فریضوں کے ساتھ اپنے تاریخی ورثے کا تحفظ اور اسے آنے والی نسلوں تک منتقل کرنا بھی لازم ہوتا ہے۔ 
لاہور کتنی بار اجڑا اور تاراج ہوا ہے۔ منگولوں سے لے کر مغلوں اور نادر شاہ سے لے کر سکھوں تک، ہر نئی جارحیت نے اپنی پسماندگی اور وحشت کی وجہ سے اس ثقافت کو اجاڑا ہے اور پھر یہ طاقتیں اپنے مفادات کے تحت دوبارہ تعمیر کرتی رہی ہیں۔تاہم تقریباً ہر سلطنت کو برصغیر کا کم از کم ثقافتی دارالحکومت لاہور کو ہی بنانا پڑا ۔ اکبر، جہانگیر، شاہ جہان اور سب سے بڑھ کر داراشکوہ نے لاہور کو پررونق اور رنگین شہر بنانے کی کاوش کی۔ داراشکوہ کے منصوبے ادھورے ہی تھے کہ اس کے مذہبی جنونی بھائی نے اسے قتل کروا دیا۔ بعد ازاں انگریزوں نے جو کچھ تعمیر کیا اسے ہی لاہور کا تاریخی ورثہ سمجھا جانے لگا ہے۔ لیکن جہاں مختلف حملہ آوروں نے لاہور کا انفراسٹرکچر تاراج کیا وہاں ضیا الحق کے دور میںیہاں بھی ثقافت کو مجروح کیا گیا۔ اسی طرح اس نظام کے لالچ، ہوس اور کمینگی نے لاہور کے تاریخی ورثے کو تجاوزات اور قبضہ گیری کے ذریعے ایسا بربا د کیا ہے کہ تاریخی عمارات نظروں سے اوجھل ہو چکی ہیں اور ان کی شکل ایسی بگڑی ہے کہ سامنے ہو کر بھی وہ پہچانی نہیں جاتیں۔
'دنیا‘ اخبار کی ایک تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق ''شہر کے قدیم
دروازے تجاوزات کے پنجوں میں ہیں۔ کئی نظروں سے اوجھل تاریخی حویلیوں، میناروں اور مساجد کا حسن گہنا گیا ہے۔ باغات لینڈ مافیا کی نذر، مقبرے ترقی کے ہجوم میں چھپ گئے ہیں۔ اورنج ٹرین کی زد میں آنے والی چند عمارتیں بچی ہیں، دیگر ثقافتی ورثوں کا کوئی پرسان حال نہیں۔ اربنائزیشن کے باعث کئی تاریخی مقامات کا نام و نشان مٹ گیا۔ محکمے، سول سوسائٹی خاموش رہے‘‘۔ لیکن اگر ہم اورنج لائن کے روٹ پر آنے والی 'بچ گئی‘ عمارات کا جائزہ لیں تو ان کی حالت بھی بہت مخدوش ہے۔ اگر اورنج لائن نہیں بھی بنتی تو ان کے گرنے کے امکانات موجود ہیں۔ ماحولیات سے لے کر مرمت کے فقدان تک اور قبضہ گروپوں کے پیش نظر وہ زیادہ عرصہ بچ نہیں سکیں گی۔ اگر لکشمی بلڈنگ کا ہی جائزہ لیں تو محض ایک دیوار بچی ہے، عمارت پیچھے سے غائب ہو چکی ہے۔ یہ دیوار بھی اس قدر بوسیدہ ہو چکی ہے کہ کسی دن آندھی سے بھی گر سکتی ہے۔ پھر 'لکشمی منزل‘ کا نام تک کھرچ کے پیشانی پر ایک نعرہ درج کر دیا گیا ہے۔ اسی طرح اگر ہم چوبرجی کی عمارت کا جائزہ لیں تو یہ رات کو بے گھر باسیوں سے بھری ہوتی ہے۔ اس تاریخی ورثے کے انداتا رات کو سونے والے ان غریب محنت کشوں سے بھی غنڈہ ٹیکس لیتے ہیں اور منشیات کا کاروبار بھی یہاں زوروں پر ہے۔ یہی حالات دیگر 'تاریخی عمارات‘ کے بہت طویل عرصے سے ہیں۔ اسی طرح قدیم علاقوں، سڑکوں اور چوراہوں کے نام تبدیل کر دئیے گئے ہیں اور آج بھی لاہور کی حکومتوں اور بیوروکریسی پر ضیاالحق کی باقیات کا راج ہے۔ 
مسئلہ اصل میں گہرا ہے۔ یہ نظام ایک شہر کو پینے کا صاف پانی، نکاس کا بہتر نظام اور تعطل کے بغیر بجلی نہیں دے سکتا، تعلیم، علاج او ر روزگار سے لوگ محروم ہو رہے ہیں، رہائش کے کرائے غریبوں کی ساری آمدن لے اڑتے ہیں۔ جہاں زندہ انسانوں کو معاشی اور سیاسی طور پر درگور کیا جا رہا ہے‘ وہاں تاریخی ورثے کے تحفظ کا سوال تو اس نظام میں پیدا ہی نہیں ہوتا۔ اورنج لائن چونکہ ایک سیاسی اور مالیاتی معاملہ ہے لہٰذا حکمرانوں کے مختلف دھڑوں کا یہ تنازع زیادہ اجاگر ہو گیا ہے۔ عدلیہ نے عدل و انصاف کا بول بالا کر نے کی کوشش کی ہے۔ جبکہ انصاف اس سرمایہ دارانہ نظام میں آسانی سے نہیں ملتا۔ کروڑوں محنت کشوں کے سلگتے ہوئے مسائل پر ایسے فیصلے آتے ہیں نہ کوئی 'سو موٹو ایکشن‘ ہوتا ہے۔ دواساز کمپنیوں نے گزشتہ چند ہفتوں میں اپنے طور پر ہی کئی دوائوں کی قیمتوں میں کئی سو فیصد اضافہ کر دیا ہے، کوئی پوچھنے والا نہیں۔ غربت اور محرومی کے ہاتھوں انسانیت کے اس مخفی قتل عام پر کوئی ادارہ، کوئی پارٹی کبھی آواز بلند نہیں کرتی۔ کبھی عوام کی طرف سے کوئی آواز اٹھتی بھی ہے تو میڈیا کے نان ایشوز تلے دبا دی جاتی ہے۔ 
میاں شہبار شریف نے ہر منصوبے کی طرح اورنج لائن ٹرین کے بارے میں بھی یہی دعویٰ کیا ہے کہ اس منصوبے میں کرپشن ثابت ہو جائے تو وہ استعفیٰ دے دیں گے۔ جبکہ چھ مہینے میں لوڈ شیڈنگ ختم نہ کرنے پر ان کا استعفیٰ ابھی تک تاخیر کا شکار ہے۔ کنسٹرکشن کے ایسے دیوہیکل منصوبوں میں شاید براہ راست کرپشن نہیں ہوتی۔ لیکن ایسا تو نہیں ہے کہ اقتدار میں بیٹھے یہ سرمایہ دار اور ٹھیکیدار قرضوں سے 'عوام کی سہولت‘کے لئے اتنی بھاری کاوش کر رہے ہیں۔ اس پراجیکٹ سے بھی یہاں کے محنت کشوں کی کمائی لوٹی جائے گی، حکمران اپنا کمیشن بنائیں گے اور پھر افسر شاہی اور ٹھیکیدار مافیا اپنے اپنے حصے بنائیں گے۔ لیکن اس سب کے باوجود بھی عین ممکن ہے کہ کسی پر کرپشن کا ایک روپیہ ثابت نہ ہو پائے۔ 
میاں صاحبان کی 'ترقی‘ کا طریقہ کار مغل بادشاہوں سے ملتا جلتا ہے۔ مغل بادشاہوں نے یہاں محنت کرنے والوں کا خون پسینہ نچوڑ کر بلند و بالا عمارات تعمیر کیں جو تاریخی ورثے بن گئے۔ تاریخی کے مختلف شہنشاہوں کی طرح یہ شریف برادران بھی یہاں ایک سلطنت ہی بنا اور چلا رہے ہیں۔ وہ اقتدار میں آ کر ایسے منصوبے تعمیر کر جاتے ہیں کہ کم از کم لوگ ان کو دیکھتے رہتے ہیں۔ ان کے پیٹ میں روٹی ہو نہ ہو، علاج کے لئے دوائی ہو نہ ہو، بچوں کی فیس کے پیسے ہوں نہ ہوں، بس دیکھتے رہتے ہیں! 
اورنج ٹرین کو موجودہ روٹ سے آگے پیچھے کرنے کے لئے 400 مزید گھر اور عمارات گرانی پڑیں گی۔ اس سے منصوبے کی لاگت میں 72 ارب روپے کا مزید اضافہ ہو جائے گا۔ یہ سارا پیسہ عوام نے ہی بھرنا ہے۔ پہلے ہی عوام کی نسلیں ان حکمرانوں نے مقروض کر دی ہے۔پاکستان جیسی دیوالیہ معیشت میں ایسے منصوبے قرضوں کے بغیر بن ہی نہیں سکتے۔ موجودہ حکومت تقریباً پانچ ارب روپے کا قرض روزانہ لے رہی ہے اور مجموعی ریاستی قرضہ 20 ہزار ارب روپے تک پہنچ چکا ہے۔ اس میں مسلسل اضافہ محنت کش عوام کو مزید برباد کرے گا۔ 
ان 'میگا پراجیکٹس‘کے جتنے حصے دار ہوتے ہیں اس کے پیش نظر مجموعی لاگت میں سے کم ہی تعمیری طور پر خرچ ہوتا ہے۔ بیرونی سرمایہ کاروں کے سود، سیاسی حکمرانوں اور افسر شاہی کے کمیشن، ٹھیکیداروں اور صنعت کاروں کے منافعے وغیرہ نکال دئیے جائیں تو کسی بھی منصوبے کی لاگت شاید آدھے سے بھی کم ہو جائے۔قلت کے اس نظام میں یہ تعمیرات بھی ادھوری اور مسخ ہی رہتی ہیں۔ورنہ یہ سارے کا سارا روٹ زیر زمین بھی ہو سکتا تھا۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ زیر زمین ٹرین چلانے سے لے کر تاریخی عمارات کی حفاظت تک، درکار وسائل اور رقوم اس بحران زدہ نظام معیشت میں فراہم نہیں ہو سکتیں۔ 
دوسری قدیم عمارات اور نوادرات کے برعکس اسی پاکستان میں وادی سندھ کی تہذیب اور اس سے پیشتر مہرگڑھ کی تہذیبوں کے آثار ایک مختلف داستان سناتے ہیں۔یہ آثار قدیمہ ایک ایسے معاشرے کی غمازی کرتے ہیں جو مساوات پر مبنی تھا۔ بڑے چھوٹے، جابر و مجبور کے رشتے ان سماجوںمیں ابھی استوار نہیں ہوئے تھے۔ اناج اور دوسری ضروریات کی پیداوار اور استعمال میں اشتراک تھا۔ یہ اپنے دور کے ترقی یافتہ اور خوشحال ترین سماج تھے۔ یہ وہ سبق ہے جو ہزاروں سال پرانی یہ تہذیبیں آج سکھاتی ہیں۔ اونچ نیچ، ذرائع پیداوار کی ذاتی ملکیت، استحصال، منڈی اور منافع سے پاک ایسا سماج آج کی جدید ٹیکنالوجی کے تحت ایک بلند تر پیمانے پر قائم کیا جا سکتا ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں