"DLK" (space) message & send to 7575

لٹیری اشرافیہ

کچھ سالوں سے میڈیا میں کرپشن کے الزامات کا بہت شور ہے۔ تمام سیاسی بحثوں کا موضوع بھی یہی ہے۔ میڈیا اور سیاست کے 'ماہرین‘ صبح شام یہی راگ الاپے جا رہے ہیں اور عوام ہیں کہ حیران و پریشان۔ مفلوک الحال لوگوں کے زندہ رہنے کے لیے پاکستان میں کرپشن ایک طرز زندگی بن چکی ہے۔ عوام کرپٹ طبقات کی جانب سے کرپشن کے اس شور سے لاتعلق ہی نہیں بیزار بھی ہیں۔ جیسے جیسے کرپشن کے خلاف شور بڑھ رہا ہے اسی رفتار سے سماج میں کرپشن میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ 
ریاستی اور سماجی اداروں سے لے کر کاروباری سودوں اور بنیادی سہولیات کی فراہمی سے روزمرہ کے امور تک ہر جگہ یہ سرطان سرایت کر چکا ہے۔ ستر برس میں حکمران اشرافیہ نے اس ملک کو معاشی انہدام کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔ بلکہ ایک کرپٹ، نااہل اور مجرم حکمران طبقہ اس لوٹ مار کے ذریعے ہی اپنی مراعات اور سماجی بالادستی قائم رکھ سکتا ہے۔ ان کی بیہودہ دولت اور عیاش زندگی کا سارا بوجھ عوام کے کاندھوں پر ہی ڈالا جاتا ہے۔ 
اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام ( یو این ڈی پی) کے پاکستان سے سبکدوش ہونے والے ڈائریکٹر مارک آندرے فرانچ نے حال ہی میں اس خونخوار اشرافیہ پر تنقید کرتے ہوئے ایک انگریزی اخبار کو انٹرویو میں بتایا کہ ''مال کمانے کے لیے اشرافیہ انتہائی سستی غیر تعلیم یافتہ لیبر سے فائدہ اٹھاتی ہے لیکن عیاشی کرنے کے لیے یہ لوگ لندن کا رخ کرتے ہیں، خریداری کے لیے دبئی میں پائے جاتے ہیں اور جائیداد میں سرمایہ کاری دبئی، یورپ یا نیو یارک میں کرتے ہیں۔ ایسی اشرافیہ کے ساتھ ملک نہیں چل سکتا۔ اشرافیہ کو فیصلہ کرنا ہو گا کہ انہیں یہ ملک چاہیے یا نہیں... میں کئی بڑے زمین داروں سے ملا ہوں جو صدیوں سے زمین سے آمدنی حاصل کر رہے ہیں، پانی کے لیے ایک پیسہ ادا نہیں کرتے اور اکثر لوگوں کو عملاً غلام بنا کر رکھتے ہیں۔ اور پھر اقوام متحدہ اور دوسرے اداروں سے کہتے ہیں کہ وہ ان کے علاقوں اور لوگوں کے لیے پانی، نکاس اور تعلیم میں سرمایہ کاری کریں۔ میرے نزدیک یہ بہت شرمناک ہے‘‘۔ 
پاکستان میں معاشی تفریق پر حیران و پریشان فرانچ مزید کہتا ہے: ''محفوظ چاردیواریوں میں باقی سماج سے کٹی رہائشی کالونیوں میں پاکستان قائم نہیں رہ سکے گا۔ ایک جانب جھونپڑ پٹیاں اور دوسری جانب امرا کے لیے بڑے بڑے شاپنگ مال بن رہے ہیں۔ کوئی انسان اپنے بچوں کو ایک ایسے سماج میں نہیں رکھنا چاہے گا... پاکستان میں مواقع کی کمی اور تفریق بہت خوفناک ہے اور یہی وجہ ہے کہ نوجوانوں کی بڑی تعداد ملک چھوڑنے کی کوششوں میں ہے۔ یو این ڈی پی پاکستان میں ان مسائل پر یقینا کام جاری رکھے گا اور معلومات کی بہتر فراہمی اور عدم مساوات کے بہتر تجزیے کے لیے وسائل صرف کرے گا‘‘۔ اگرچہ اس نے اشرافیہ کو زیادہ صدمہ نہ پہنچانے کی کوشش کی لیکن اس کی تنبیہ بڑی واضح ہے۔ اگرچہ فرانچ کوئی مارکسسٹ نہیں‘ لیکن وہ آنے والے دنوں میں عوامی بغاوتوں اور ہنگامہ خیز واقعات کے امکان کو محسوس کر رہا ہے۔ ''مجھے پاکستان میں فی الحال ایسے حالات نہیں نظر آ رہے لیکن بالآخر کسی نہ کسی شکل میں یہ ہو گا ضرور۔ جہاں 40 فیصد آبادی غربت میں رہتی ہو وہ ملک نہیں چل سکتا‘‘۔
ملک کے سنگین حالات اور آبادی کی وسیع اکثریت کی سماجی اور معاشی ابتری کو سمجھنے کے لیے اقوام متحدہ کے افسروں اور مغربی ماہرین کے اعترافی انٹرویوز کی ضرورت نہیں‘ نہ ہی اس دھرتی کے باسیوں کی اذیتوں اور ماحولیاتی بربادی کو جانچنے کے لیے سرکاری اور غیر سرکاری اعداد و شمار درکار ہیں۔ شہری اور مضافاتی کچی بستیوں میں سے گزرتے ہوئے غلاظت، ذلت، غربت اور محرومی انسانی شعور کا مذاق اڑاتی ہیں۔ دیہات‘ جو کبھی نسبتاً پُرفضا اور صاف ہوا کرتے تھے‘ اب سرمایہ دارانہ ترقی کے ہاتھوں گندگی اور بربادی سے اٹے پڑے ہیں۔
اب موجودہ نظام کے کچھ سنجیدہ ادارے یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہو رہے ہیں کہ پاکستان میں جمہوریت یا آمریت میں سیاست اور ریاستی ادارے غریب دشمن اور امیر نواز پالیسیاں اپنا رہے ہیں۔ ٹیکس ریفارم کمیشن کی رپورٹ کے مطابق ''پاکستان میں ٹیکس کا نظام بڑے پیمانے پر امیروں کی حق میں ہے... ایسا دکھائی دیتا ہے کہ پاکستان میں غریبوں پر بھاری اور سخت بالواسطہ ٹیکس ہیں جبکہ اشرافیہ کو مفت مراعات اور فائدے حاصل ہیں جن میں بہترین جگہوں پر موجود سرکاری پلاٹوں کی انتہائی کم قیمتوں پر فروخت بھی شامل ہے‘‘۔ عالمی بینک کی 2011ء کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں امیر ترین 18,000 افراد کی مجموعی آمدن 1.3 ارب ڈالر یعنی فی کس 72,700 ڈالر ہے۔ غریب ترین 30 فیصد آبادی کو مجموعی آمدن کا محض چار فیصد حاصل ہے، یعنی ان کی فی کس سالانہ آمدن 400 ڈالر ہے۔ ان اعداد و شمار سے پاکستان میں موجود محرومی کا کچھ اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ گزشتہ پانچ برسوں میں یہ حالات بدتر ہوئے ہیں لیکن سنجیدہ اعداد و شمار میسر نہیں۔ ایک ہی شہر میں نومولودوں کی شرح اموات، حمل اور زچگی کے دوران اموات میں فرق غریب اور امیر ممالک کے فرق جتنا ہوتا ہے۔ 'سیو دی چلڈرن‘ کی گلوبل رپورٹ کے مطابق ''پاکستان میں شہری علاقوں کے غریب افسوسناک حالات میں رہ رہے ہیں۔ شہری علاقوں میں غریبوں کی موت کا امکان امیروں کے مقابلے میں دوگنا زیادہ ہے‘‘۔
دولت مند رجعتی اشرافیہ صنعت اور پیداوار میں سرمایہ کاری سے گریز کرتی جا رہی ہے۔ جرائم اور کرپشن کے ذریعے مال اکٹھا کرنے والے سرغنہ امیر ترین افراد میں شامل ہیں۔ ان کے کردار اور ثقافت کا اندازہ ان کی دولت کے ذرائع سے لگایا جا سکتا ہے۔ سرمایہ داری کی ایک مسخ شدہ اور جرائم پر مبنی شکل پروان چڑھ رہی ہے جس میں سیاست کو اپاہج اور مطیع بنا دیا جاتا ہے اور اس کالے دھن کو تحفظ دیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ جرائم پیشہ گروہ تخلیق کیے گئے ہیں جو ہر طرح کے حالات میں یہ جبر قائم رکھتے ہیں۔
سابق صنعتی بورژوازی کے بڑے حصے خدمات کے شعبے کی جانب آ چکے ہیں بالخصوص صحت، تعلیم، توانائی، پانی اور جائیداد کے کاروبار میں۔ اس طرح سے تیز ترین اور بے پناہ شرح منافع کو ان کے دوسرے اکائونٹس اور سرمایہ کاریوں میں لگایا جا سکتا ہے۔ نسبتاً جمود کے اس عہد میں وہ محروم محنت کش طبقات کو مزید مایوس اور بے دل کرنے کے لیے اپنی بیہودہ دولت کی نمائش کرتے ہیں۔ پاکستانی کی بورژوازی ملک کے قیام کے وقت ایک جدید صنعتی ریاست بنانے کے کچھ خواب دیکھتی تھی‘ لیکن ان کی موجودہ تنزلی ان کے اس ملک کے مستقبل پر عدم اعتماد کا اظہار ہے۔ ان کے فرار کے منصوبے تیار ہیں۔ دبئی اور دیگر جگہوں پر پہلے ہی کاروبار اور محلات موجود ہیں۔ یہ مجرم اشرافیہ اس ملک کو بے رحمی سے نوچ کھا رہی ہے۔ وہ محنت کشوں اور غریبوں کا خون چوس رہے ہیں جن کی محنت کے استحصال سے ان کی دولت کی ابتدا ہوئی جو بعد میںکالے دھن کا مجرمانہ ارتکاز بن گیا۔
مغربی اور مقامی بورژوازی کے سنجیدہ ماہرین مجبور طبقات کے انتقام کی حدت کو بھانپ رہے ہیں۔ ان کا خوف بالکل جائز ہے‘ لیکن پاکستان کی کرپٹ اور کند ذہن اشرافیہ یا تو تاریخ کے انتقام سے بے خبر اور بے پروا ہے یا شعوری طور پھر اپنی ناکامی اور شکست کو تسلیم کرتے ہوئے عوام کی بغاوت سے فرار کی تیاری میں ہیں۔ ان کی کہانی ختم ہو چکی ہے۔ محنت کشوں اور نوجوانوں کے پاس زندہ رہنے کا واحد راستہ اس متروک طبقے کے اقتدار کو اکھاڑ پھینکنا ہے۔ محنت کش طبقات کی نئی نسل کا فریضہ سماجی و معاشی نظام کو سارے سماج کی مشترکہ ملکیت اور عملداری میں ایک منصوبہ معیشت میں تبدیل کرنا ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں