ایک طرف برصغیر کے حریف حکمران طبقات الیکٹرانک ، پرنٹ اور سوشل میڈیا پر ایک نئی جنگ لڑ رہے ہیں تو دوسری طرف ہندوستان اور پاکستان میں محکوم طبقات پر جبرجاری ہے۔ ان محکوموں میںایک، جنہیں پچھلی ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے مذہب اور فرقے کے نام پر قتل عام کا سامنا ہے ، کوئٹہ کی ہزارہ کمیونٹی ہے۔ منگل کو ہزارہ کمیونٹی سے تعلق رکھنے والی پانچ خواتین کو کوئٹہ کے کرانی روڈ پر بظاہر فرقہ وارانہ بنیادوں پر قتل کر دیا گیا۔ یہ خواتین شہر سے خریداری کے بعد اپنے الگ تھلگ رہائشی علاقے ہزارہ ٹائون کی طرف واپس آرہی تھیں کہ اتنے میں مسلح افراد نے بس کو روکا اور اس کے اندر گھس کر اندھا دھند فائرنگ شروع کردی۔ جنگی جنون میں مبتلا میڈیا میں اس وحشیانہ قتل کو نظر انداز کر دیا گیا۔
ریاستی سکیورٹی کی حالت یہ ہے کہ محرم کے دوران حکام کی جانب سے سکیو رٹی کے اقدامات کو سخت کرنے کے دعووں اور حکومت کی دفعہ 144کے نفاذ اور ڈبل سواری پر پابندی کے باوجود یہ جان لیوا حملہ ہوا۔ شہر کی انتظامیہ کی جانب سے ایف سی، پولیس اور قانون نافذ کرنے والے دوسرے اداروں کی اضافی نفری کی تعیناتی کے باوجود یہ واقعہ پیش آیا۔ حسب معمول اسلام آباد میں وزیر اعظم نوازشریف اور بلوچستان کے وزیر اعلیٰ نواب ثنا اللہ زہری نے اس واقعے کی 'شدید مذمت‘ کی اور اس کی رپورٹ مانگی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو قاتلوں کی گرفتاری کو یقینی بنانے کی ہدایت کی۔ اعلیٰ ریاستی عہدیداروں نے اپنے ترجمانوں کے ذریعے میڈیا میں اپنے دکھ کا اظہار کیا لیکن ہزارہ کمیونٹی پر یہ جبر مسلسل جاری ہے۔
اگرچہ اس صدی کے آغاز سے ہی ہزارہ کمیونٹی پر گاہے بگاہے حملے ہوتے رہے ہیں لیکن پچھلے کئی سالوں میں انہیں کئی بڑے قتل عام کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک پاکستانی انگریزی اخبار نے حالیہ دنوں میں قتل عام کے ان واقعات کا ذکر کیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق 16فروری 2013ء کو ہزارہ ٹائون کی مارکیٹ میں ایک خود کش حملے میں 89افراد ہلاک ہوئے۔ اس سے پہلے جنوری 2013ء میں علمدار روڈ پر ایک کاربم دھماکے میں 81افرادہلاک اور 121زخمی ہوئے۔ 20ستمبر 2011ء کو ایران جانے والے ہزارہ کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے 26افراد کو بسوں سے اتار کر قتل کردیا گیا۔ ستمبر 2010ء میں ایک ریلی پر خود کش حملے میں 50سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔ مارچ 2004ء میںکوئٹہ میں عاشورہ کے جلوس پر حملے میں 42افراد ہلاک اور اس سے کئی زیادہ لوگ زخمی ہوئے۔
ان حملوں کی ذمہ داری زیادہ تر لشکر جھنگوی نے قبول کی ‘جو پاکستانی طالبان سے منسلک ایک تنظیم ہے۔ ان حملوں کے بعد وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے شیعہ زائرین کے کوئٹہ سے تفتان تک سڑک کے راستے سفر کرنے پر پابندی لگا دی کیونکہ اس کے مطابق اس پورے راستے کو مکمل تحفظ دینا ناممکن ہے۔ کیا اب وہ ہزارہ کمیونٹی پر چند کلومیٹر دوربازار جانے پر بھی پابندی لگا دیں گے؟ یہ حکمران ٹولے کی ذہنیت اورنا اہلی کی عکاسی کرتی ہے۔
ویسے تو پاکستان میں کافی عرصے سے مختلف شیعہ اور سنی مسلح گروہوں کے فرقہ وارانہ تشددکے واقعات ہوتے رہے ہیں۔ لیکن پچھلے پانچ سالوں میں لشکر جھنگوی اور جیش الاسلام جیسے گروہوں نے کئی فرقہ وارانہ دہشت گردی کے وحشیانہ واقعات کیے ہیں۔ بلوچستان اس وحشیانہ قتل عام کا مرکز بن گیا ہے( حالانکہ بلوچستان میں ماضی میں فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات نہ ہونے کے برابر تھے) 2001ء میں امریکہ کی افغانستان میں مداخلت اور جبر کے بعد سے، بلوچستان کی ہزارہ کمیونٹی کواسلامی فرقہ وارانہ جارحیت کے ذریعے محدود و معذورکر دیا گیا ہے۔ 2008ء کے بعد سے کوئٹہ اور اس کے مضافات میں فرقہ وارانہ دہشت گردی سے 500سے زائد ہزارہ ہلاک ہوئے ہیں۔ جنوری اور فروری 2013ء میں کوئٹہ میں ہزارہ کمیونٹی پر وحشیانہ بم دھماکوں سے حملے کیے گئے، اس ایک شہر میں 5لاکھ سے زائد ہزارہ مقیم ہیں۔ تقسیم ِ برصغیر کے بعد سے یہ پاکستان کی تاریخ کے سب سے بھیانک فرقہ وارانہ حملے تھے جن میں اتنی بڑی تعداد میں ہلاکتیں ہوئیں۔
ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ کے مطابق، ''تشدد کے ان واقعات کی طرف پاکستانی حکومت کے ردعمل سے نااہلی اور لاپروائی یا سکیورٹی فورسز اور دوسرے ریاستی اداروں کی انتہا پسند گروہوں کے ساتھ ملی بھگت نظر آتی ہے۔ حکام واقعات کی ذمہ داری قبول کرنے والی تنظیموں، بشمول لشکر جھنگوی، کے دہشت گردوں کو پکڑنے اور سزا دینے میں ناکام رہے ہیں۔ پاکستانی اور بلوچستانی حکام 2008ء سے شیعوں کے خلاف حملوں میں ملوث درجنوں مشکوک افراد کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن ان میں سے بہت کم افراد کسی جرم میں ملزم پائے گئے ہیںـ‘‘۔
حکومتوں کی روایتی نااہلی اور مستقل خوف کے ماحول کی وجہ سے پوری ہزارہ آبادی ذہنی اذیت میں مبتلا ہے۔ عدم تحفظ کے ان حالات نے انہیں ایک مخصوص علاقے میں قید کر دیا ہے۔ 2008ء سے کوئٹہ کے ہزارہ کمیونٹی کو اپنی زندگیاں، معمولات اور سرگرمیاں مری آباد اور ہزارہ ٹائون کے علاقوں تک محدود کرنا پڑی ہیں۔ اس سے ان پر معاشی جبر مزید بڑھا ہے۔ نقل و حرکت محدود ہوجانے کی وجہ سے تعلیم تک رسائی بھی مشکل ہوگئی ہے۔ یہ کوئی حادثہ نہیں ہے کہ ہزارہ نوجوانوں کی بڑی تعداد اس گھٹن بھری علیحدگی اور تنہائی ، معاشی جبر اور سماجی ثقافتی محرومی سے نکلنے کے لیے تگ و دو کر رہے ہیں۔ بڑی تعداد ہجرت کرچکی ہے اور اب بھی پاکستان سے ہجرت جاری ہے تاکہ مختلف ممالک جیسا کہ آسٹریلیا میں پناہ لے سکیں۔
لیکن جبر کے شکار ہزارہ کمیونٹی کی حالت مزید ابتر ہوئے ہیں۔ اتنے لمبے عرصے تک نشانہ وار قتل عام کے مسلسل واقعات شدید نفسیاتی اور سماجی صدموں کا باعث بنے ہیں۔ ایک بے چینی اور بے اعتنائی کمیونٹی کی نفسیات کا حصہ بن چکی ہے۔ لیکن اب کمیونٹی کے وجود کو ہی سنجیدہ خطرات لاحق ہیں۔ مودی کی عیارانہ نعرے بازی سے قطع نظر، جو بلوچستان والوں کے لیے زیادہ خطرناک ہے، صرف پراکسی جنگوں کو مورد الزام ٹھہرانا اور دوسری سرکاری وضاحتیں اب خطے کے لوگوں کے لیے کافی نہیں ہیں۔ عمومی طور پر پاکستان کے اس سب سے پسماندہ صوبے کے عوام کے ذہنوں میں روزافزوں سوالات جنم لے رہے ہیں۔
اس خطے کی بیگانگی اور آئسولیشن کی ایک تاریخ رہی ہے۔ پاکستان 14اگست 1947ء کو بنا لیکن مارچ 1949ء تک ریاست قلات ایک الگ ریاست تھی۔ اسی وقت سے یہ خطہ مسلسل انتشار اور خونی جنگوں کی زد میں ہے۔ معدنیات کے وسیع ذخائر کی دریافت ، بشمول سونے اور چاندی کے ذخائر ،کے بعد عالمی اور خطے کی دوسری سامراجی طاقتیں ان وسائل کی لوٹ مار کے لیے خطے پر ٹوٹ پڑی ہیں۔ بیگانگی، قومی اور سماجی و معاشی محرومی کے احساسات اور بڑھتی ہوئی استحصال کے خلاف نفرت مزید بڑھ گئی ہے۔ پنجاب اور دوسرے خطوں میں نسبتاً کم تشدد اور ساتھ ہی یہاں بڑھتی ہوئی فرقہ واریت، قومی اور طبقاتی جبر سے بالخصوص نوجوانوں میں ایک سرکشی کی نفسیات جنم لے رہی ہے۔ لیکن تشدد کے مختلف درجوں کے باوجود پورا جنوبی ایشیا اور اس کے پار بھی استحصال مسلسل بڑھ رہا ہے۔ مذہبی، فرقہ وارانہ، قومی اور جنسی استحصال کے خلاف جدوجہد کو ایک اجتماعی جدوجہد میں جڑنا ہوگا۔ یہ جڑت صرف طبقاتی بنیادوں پر ہی ہوسکتی ہے۔ طبقاتی جدوجہد کی اس فتح سے ہی بنی نوع انسان کے خلاف اس طرح کے گھنائونے جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کو شکست دی جاسکتی ہے۔