"DLK" (space) message & send to 7575

مقبوضہ افغانستان کے پندرہ سال!

آج سے پندرہ سال قبل 7 اکتوبر 2001ء کو امریکی سامراج کی سربراہی میں مغربی سامراجیوں نے 'نیٹو‘ کے فوجی الحاق کے تحت افغانستان پر جارحیت کر دی اور ظاہری طور پر تھوڑے عرصے میں پورے افغانستان پر مکمل قبضہ کرنے کا دعویٰ کرنے لگے۔ پندرہ سال کے بعد مقبوضہ افغانستان میں آج صورتحال کسی بہتری کی بجائے بدتر ہو چکی ہے۔ اس جارحیت کے نتیجے میں نہ صرف افغانستان بلکہ پورا خطہ لہولہان ہے اور بربادیوں کی داستان بن کے رہ گیا ہے۔ افغانستان سامراجیوں کا قبرستان ہے، پوست کا گڑھ ہے اور دنیا کی سب سے زیادہ بمبار زدہ، برباد، تباہ حال اور مظلوم قوم کا ٹھکانہ ہے۔
بہت سے لبرل سیکولر اور 'بائیں بازو‘ کے دانشوروں اور تجزیہ نگاروں کو بھی امریکی مداخلت سے افغانستان کے خونیں انتشار کے خاتمے کی امید تھی۔ اقوامِ متحدہ جیسے لاغر ادارے اور نام نہاد بین الاقوامی کمیونٹی سے عام انسانوں کو یہ آس لگوائی جا رہی تھی کہ یہ ادارے اورعالمی سامراجیوں کے ٹولے افغانستان میں 'امداد‘ اور فوجی جبرو وحشت کے امتزاج سے مسائل حل کرلیں گے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ان سامراجی طاقتوں نے افغانستان میں بڑی 'انویسٹمنٹ‘ کی۔ یورپی سامراجیوں نے 200 ارب ڈالر جبکہ امریکی سامراج نے 700 ارب ڈالر سے زائد رقوم صرف کیں۔ لیکن ان رقوم کا80فیصد سے زائد حصہ کسی تعمیر و ترقی پر نہیں بلکہ تخریب و تباہ کاریوں اور افغانستان کے باسیوں پر وحشیانہ بمباریوں اور ان جنگی آلات پر خرچ کیا گیا جس سے منافع پھر سامراجی 'ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس، 
کے پٹھوئوں کو ہی حاصل ہوا تھا۔بربادی کے بعد نام نہاد تعمیرکے پروجیکٹوں کے ٹھیکے بھی سامراج کی تعمیراتی اجارہ دار کمپنیوں نے ہی حاصل کیے تھے۔ افغانستان میںسوویت یونین کو ردعمل ثور انقلاب کو کچلنے اور برباد کرنے کے لئے امریکی سامراج نے ہی شروع کروایا تھا۔بیشتر دہشت گرد تنظیموںکو سی آئی اے نے ہی تخلیق و تعمیر کروایا تھا۔ طالبان کے خلاف مغربی ذرائع ابلاغ اور ان کے مقامی حواریوں کے تمام تر پروپیگنڈے کے برعکس یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ طالبان ابھار میں امریکی سامراج کی آشیر باد اورفوجی و مالی کمک کا کلیدی کردار تھا۔ 1996ء میں طالبان کا کابل پر قبضہ یقینی بنانے کے لئے امریکہ کے گھاگ سفارتکار رابرٹ اوکلے نے قندھار میں کیش رقم بھجوائی تھی۔ رابرٹ اوکلے نے خود ملا عمر کے حجرے میں جا کر اس کوفنانشل اور فوجی امداد اور حکمت عملی فراہم کی تھی۔ امریکی پالیسی ساز خود مصالحت اور ٹکرائو کی ملی جلی پالیسی پر گامزن ہیں۔جرم اورباطل مقصد کے یارانے کبھی مفادات کے لیے پرانے اور ختم شاید نہیں ہوتے۔ 
2001ء کی جارحیت اور قبضے کے بعد امریکی سامراجیوں نے کابل پر کنٹرول تو حاصل کر لیا لیکن ریاست چونکہ بکھر چکی تھی اس لیے ریاست سے لے کر ، سیاست اور سفارت کے ہر پہلو کو سامراجی مفادات،عزائم اور ضروریات کے تحت ہی استوار کیا گیا۔ افغانستان کی یہ پیوند شدہ کٹھ پتلی ریاست انتہائی کھوکھلی ہے اور کوئی عزم رکھتی ہے ‘نہ حوصلہ۔ فوجیوں کا بھگوڑا پن معمول ہے۔ اس 'نیشنل آرمی ‘کی حالت یہ ہے کہ ٹریننگ کے لئے امریکہ جانے والے بہت سے فوجی افسران وہاں بھاگ کر غائب ہو چکے ہیں۔ اسی طرح عام سپاہیوں کی جانب سے افسران پر گولی چلانے کے واقعات ہر روز ہوتے ہیں۔ یہ سارا سیٹ اپ مختلف علاقائی جنگی سرداروں کے درمیان قائم کئے گئے نحیف سے توازن پر مبنی ہے۔ کابل اور چند دوسرے شہری مراکز سے باہر اس کی رِٹ موجود نہیں 
ہے۔ کرپشن میں یہ ریاست اور سیاست اپنی مثال آپ ہے۔ 
طالبان کو ختم کرنے کے لئے جو جنگ شروع کی گئی تھی آج پندرہ سال بعد اس کا نتیجہ یہ ہے کہ افغانستان کے اکثریتی حصوں خصوصاً جنوب اور مشرق میں سامراجیوں اور ان کی کٹھ پتلی افغان حکومت کو طالبان گروہوں کے وسیع قبضے کا سامنا ہے۔ پچھلے ہفتے قندوز پر طالبان کا قبضہ سامراجیوں کی شکست کا آئینہ دار ہے۔ہر کچھ ہفتوں بعد کسی اہم شہر پر طالبان کا حملہ یا قبضہ معمول بن چکا ہے۔ اس وقت افغانستان کے اہم صوبے ہلمند کے 15اضلاع میں سے 13 طالبان یا سامراج دشمن مزاحمت کرنے والے دوسرے گروہوں کے قبضے میں ہیں۔ امریکیوں نے افغانستان میں 130000 سے زیادہ فوجی بھیجے لیکن پھر بھی افغانستان کو مطیع کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
اس جنگ میں بربادیاںاور معصوم انسانوں کی زندگیاں لٹنے کا عمل اس سامراجی جارحیت کے بعد تیز تر ہوا ہے۔ان سویلین جنگی اموات کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔2001ء کے بعد سے اب تک تقریباً ایک لاکھ افغان باشندے اس جنگ میں ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ بالواسطہ اثرات سے لقمۂ اجل بننے والوں کو شامل کیا جائے تو یہ تعداد ساڑھے تین لاکھ سے تجاوز کر جاتی ہے۔ 2005ء تک اس جنگ میں عام انسانوں کی اموات کی شرح 0.6 فیصد تھی جو کہ 2015ء میں ہولناک حد تک بڑھ کر کل ملکی اموات کا 10 فیصد ہو چکی ہے۔ 
آغاز سے لے کر آج تک، عالمی اور علاقائی سامراجی طاقتوں کی اس پراکسی جنگ، خانہ جنگی اور براہ راست جارحیت میں افغانستان کے عام باسی ہی سماجی ، ثقافتی اور معاشی طور پر برباد ہوئے۔ 40 لاکھ سے زیادہ دربدر ہو کر ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ ان گنت زندگیاں برباد ہو رہی ہیں۔آغاز میں اس 'نیو گریٹ گیم‘ کے اہم فریق امریکہ، فرانس، اور برطانیہ تھے لیکن اب سامراجی عزائم رکھنے والی اور افغانستان کے معدنی وقدرتی وسائل کو نوچنے والی نئی علاقائی سامراجی طاقتیں اس کھیل میں کود پڑی ہیں۔ان میں بھارت سر فہرست ہے۔ اس سے نہ صرف خانہ جنگی اور خلفشار کی پیچیدگی میں اضافہ ہوا اور خونریزی بڑھی‘ بلکہ لگتا ہے کہ وہ اس جنگ کاکوئی حل نہیں ہے۔ 
گزشتہ کچھ دہائیوں میں افغانستان بربادی کی داستان اور علامت بن چکا ہے‘ لیکن افغانستان کی تاریخ میں آسودگی، ترقی اور بہتری کے ابواب بھی ملتے ہیں۔امان اللہ کا دور اقتدار میںترقی پسند رجحانات ،فن تعمیر کا عہد تھا جس میں سماجی آزادی کے کئی اقدامات کئے گئے‘ لیکن سب سے اہم باب 28 اپریل 1978ء کا ثور انقلاب تھا۔ 29دسمبر1979ء کو روسی فوجوں کے مداخلت سے پیشتر 18ماہ تک افغانستان میں اس انقلاب کے ذریعے وہ اصلاحات آئیںاور بہتری ہوئی جو عام انسانوں کے دکھ، درد اور استحصال کے خلاف سب سے بڑے اقدامات تھے۔ جس کے تحت صدیوں کی قبائلی پسماندگی، جاگیر داری اور سرمایہ داری کے خلاف انقلابی اقدامات کئے گئے اور جو جرأت مندانہ اصلاحات شروع کی گئیں ان کی مثال جدید تاریخ میں کم ہی ملتی ہے۔ بنیاد پرستی کی سختی ہویا سامراجی جارحیت کی وحشت ، افغانستان کی عوام کے لیے یہ ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ افغانستان کے مسائل باقی خطے کے عوام کے مسائل اور مفادات سے جڑے ہوئے ہیں۔زر اور زمین کی لالچ کا نظام رہے گا تو جارحیتیں بھی ہوں گی لیکن اگر افغانستان کے وسائل و ہاں کے عوام کی مشترکہ ملکیت اور جمہوری اختیار میں ہوں گے توپھران سے ان کے ان وسائل اور زندگی میں خوشحالی کوئی غیر آکے لوٹ نہیں سکے گا۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں