"DLK" (space) message & send to 7575

کھیل ختم؟

یکم نومبر کو سپریم کورٹ کے فیصلے اور پاناما لیکس کے معاملے میں تحقیقات کا حکم سنانے کے بعد عمران خان نے اسلام آباد کا ''لاک آئوٹ‘‘ کرنے کی کال واپس لے لی۔ جہاں اس اقدام سے تحریک انصاف کے درمیانے طبقے سے تعلق رکھنے والے حمایتیوں میں مایوسی پیدا ہوئی‘ وہاں عمران خان کی جانب سے آئندہ کوئی خاطر خواہ 'تحریک‘ چلانے کی صلاحیت بھی اب مشکوک ہو گئی ہے۔ تحریک انصاف ایک ایسا غبارہ ہے جس کی ہوا کئی بار نکلنے کے بعد ریاست اور میڈیا کے کچھ حصوں کی جانب سے دوبارہ بھری جاتی رہی‘ لیکن یہ عمل ہمیشہ جاری نہیں رہ سکتا۔ 
سپریم کورٹ میں نواز شریف کا پیش ہونا، ان پر مقدمہ چلنا، تحقیقات وغیرہ اب بہت بعد کی باتیں ہیں۔ نواز شریف کا نحیف اقتدار اگرچہ برطرف بھی ہو سکتا ہے‘ لیکن یوں لگتا ہے کہ فی الوقت سامراج، ریاست اور بالادست طبقات کے فیصلہ کن حصوں کے پاس نواز شریف کا کوئی متبادل نہیں ہے۔ اہم سوال یہ ہے کہ پے در پے ناکامیوں اور مسلسل یُوٹرن لینے کے بعد عمران خان دوبارہ جذباتی تقاریر اور نعرے بازیوں کے ذریعے کوئی بڑا دھرنا یا احتجاج کر پائے گا؟ 2016ء کا اختتام ہو رہا ہے۔ اگلے انتخابات 2018ء میں ہونے ہیں لیکن یہ بھی خارج از امکان نہیں کہ مزید کسی مسئلے سے بچنے کے لئے تحریک انصاف کی اس ''اخلاقی فتح‘‘ کے بعد نواز شریف انتخابات کا اعلان 2017ء میں ہی کر دیں۔ 
ایک مرتبہ جب اتنے بڑے پیمانے پر سنسنی اور مڈل کلاس کے ''جوش و جذبے‘‘ کی ہوا نکل جائے تو دوبارہ یہ سب کرنا اگر ناممکن نہیں تو انتہائی مشکل ضرور ہو جاتا ہے۔ پچھلے تین سال میں درجن بھر ایسے جلسے، مارچ اور دھرنے عمران خان نے نواز شریف کو فارغ کرنے کے لئے منعقد کئے لیکن انجام سب کا ایک سا ہوا۔ 2 نومبر کا ''لاک آئوٹ‘‘ عمران خان کے مطابق آخری اور حتمی ''عوامی ریلا‘‘ تھا جس نے وزیر اعظم نواز شریف کو بہا کر لے جانا تھا لیکن انہوں نے تحریک انصاف کے غبارے میں ایک اور سوراخ کر دیا ہے۔
''لاک آئوٹ‘‘ کو اگر طبقاتی سیاست کے نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو انگریزی زبان کی اس اصطلاح کا مطلب کسی صنعت میں مزدوروں کی ہڑتال کے خلاف سرمایہ دار مالکان کا جوابی اقدام ہوتا ہے۔ اس واردات کے ذریعے مالکان مزدوروں کی ہڑتال یا اس کے متوقع خطرے سے بچنے کے لئے فیکٹریوں کے گیٹ بند کرکے محنت کشوں کو باہر ہی روک دیتے ہیں‘ یعنی ان کو ''لاک آئوٹ‘‘ کر دیا جاتا ہے۔ اس اصطلاح کے معنی پی ٹی آئی کے کارکنان کو یقینا پتا نہیں ہوں گے لیکن جس قیادت نے اسے بار بار استعمال کیا اس کی رجعتی اور مزدور دشمن ذہنیت خوب عیاں ہوتی ہے۔ پتا چلتا ہے کہ وہ کس طبقے کی نمائندگی کرتے ہیں اور پی ٹی آئی اس طبقاتی سماج میں کس طبقے کی طرف دار پارٹی ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ نواز لیگ اس سرمایہ دار طبقے کی زیادہ گھاگ، پرانی اور روایتی سیاسی نمائندہ ہے۔ 
ایسے ادوار میں جب محنت کش طبقات جمود اور سیاسی بیگانگی کی کیفیت میں مبتلا ہو کر سیاست سے ہی بدظن ہو جاتے ہیں تو اس کی وجہ جہاں ان کی روایتی قیادتوں کی غداریاں ہوتی ہیں وہاں معاشی حملوں کی شدت میں ان کو مذہبی، فرقہ وارانہ اور ماضی کے دوسرے رجعتی تعصبات میں الجھایا بھی جاتا ہے۔ ایسے میں حکمران طبقات کو یہ زعم ہوتا ہے کہ محنت کش طبقات اور استحصال میں پسے ہوئے عوام کبھی نہیں اٹھیں گے اور یہ کہ طبقاتی کشمکش کا خاتمہ ہو چکا ہے۔ پاکستان جیسے پسماندہ معاشروں میں معاشی اور اقتصادی بحران کی شدت کے ادوار میں حکمرانوں کی لوٹ مار اور کرپشن بھی بڑھ جاتی ہے۔ ایسے میں سیاست اور ریاست کے مختلف دھڑوں میں حصہ داری پر جنم لینے والے تضادات بعد اوقات ناگزیر تصادموں میں بدل جاتے ہیں۔ سیاسی اقتدار (اگرچہ نحیف ہی سہی) میں ہونے کی وجہ سے حکمران اور ان کے حواری مال بنانے کے زیادہ امکانات اور 'پروجیکٹس‘ پر دسترس رکھتے ہیں۔ اس سے حکمران طبقات کے دوسرے دھڑے نالاں ہوتے ہیں اور حصہ داری میں 'ناانصافی‘ پر
انہیں مسلسل تنگ بھی کرتے ہیں۔ جس سیاست میں کوئی پارٹی خود کو صرف محنت کشوں یا غریبوں کی پارٹی کہنے سے بھی گریزاں ہو‘ اس میں ساری کشمکش اور تصادم انہی حکمرانوں کے مختلف دھڑوں کے درمیان ہی ہوتے ہیں۔ جہاں ان کھرب پتی سرمایہ داروں نے مختلف سیاستدانوں اور پارٹیوں پر انویسٹمنٹ کی ہوئی ہوتی ہے‘ وہاں وہ ریاستی اداروں میں بھی وارداتیں کرتے ہیں۔ 
آج کل سارے مالیاتی ادارے اور مانیٹرنگ ایجنسیاں پاکستانی معیشت کی ریٹنگ بڑھا رہی ہیں اور ترقی کا بڑا شور ہے۔ منافعوں، کمیشن اور مال بنانے کے دوسرے طریقوں پر مبنی حکمرانوں کی معیشت شاید واقعی ''ترقی‘‘ کر رہی ہو لیکن عوام کی معیشت ہمیشہ زبوں حالی کا شکار رہی ہے‘ جو مسلسل بڑھ ہی رہی ہے۔ میگا پروجیکٹس مغلیہ عمارات سے مماثل ہیں‘ جنہیں دیکھنے والے عوام کے پیٹ میں روٹی نہیں۔ حکمرانوں کی ہمیشہ مغل شہنشاہوں والی یہی پالیسی رہی ہے۔ بہت سوں کی طرح عمران خان کرپشن کو سارے مسائل کی وجہ قرار دیتا ہے‘ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس نظام میں صحت، تعلیم، پانی اور دوسری بنیادی ضروریات کے لئے جو برائے نام فنڈ مختص کئے جاتے ہیں وہ پوری 'دیانتداری‘ سے لگا بھی دئیے جائیں تو کچھ نہیں بدلنے والا۔ مسائل کے مقابلے میں اس بحران زدہ سرمایہ داری میں وسائل اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر ہیں۔ کرپشن اس نظام کی بیماری کی علامت ہے، وجہ نہیں۔ بیماری یہ ہے کہ یہاں کے سرمایہ دار طبقات 'جائز‘ طریقوں سے مطلوبہ شرح منافع حاصل نہیں کر سکتے ہیں۔ یہاں کا حکمران طبقہ اگر کرپشن نہ کرے تو اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکتا۔ 
یہ دھرنا یا 'لاک آئوٹ‘ بھی عوام کو روٹی، کپڑا، مکان، تعلیم، علاج، روزگار کی فراہمی کے لئے نہیں کیا جا رہا تھا۔ تحریک انصاف کے پروگرام میں آج کی دوسری تمام سیاسی جماعتوں کی طرح وسیع تر عوام کے سلگتے ہوئے مسائل سے متعلق کوئی نکتہ، کوئی گنجائش نہیں۔ اور ایسا بے سبب نہیں ہے۔ یہ حکمران اچھی طرح جانتے ہیں کہ وہ حقیقی ایشوز کو حل کر ہی نہیں سکتے ہیں‘ لہٰذا پوری سیاست اور میڈیا نان ایشوز پر چل رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دھرنوں اور تماشوں کی اس سیاست میں درمیانہ طبقہ ہی دلچسپی لیتا ہے یا شامل ہوتا ہے۔ درمیانہ طبقہ اپنا وجود برقرار رکھنے کے لئے خود ہمیشہ تذبذب کا شکار رہتا ہے اور طاقت اور دولت کے دیوتائوں کا طواف مسلسل کرتا رہتا ہے۔ 
محنت کش طبقے کی حمایت مسلم لیگ ن سمیت اس سیاست کی کسی پارٹی کو حاصل نہیں ہے۔ میگا پروجیکٹس، ترقی کے فریب اور یہ تماشے عوام کی بغاوت کو ہمیشہ کے لئے نہیں ٹال سکتے‘ لیکن جب تک یہ طبقاتی بغاوت نہیں ابھرتی‘ تب تک یہ پیسے پر چلنے والی نان ایشوز کی سیاست اتار چڑھائو کے ساتھ جاری رہے گی۔ اس سیاست کے دھرنے اور احتجاج ہوں یا نام نہاد انتخابات، ان سے حکمرانوں کو کوئی ڈر نہیں ہے‘ کیونکہ جیتنے والا کوئی بھی ہو اس کا تعلق اسی بالادست طبقے اور اسی سرمائے کی کسی سیاسی پارٹی سے ہو گا۔ اس سرمایہ دار طبقے کی یہی روش ہوتی ہے کہ وہ اپنی دولت کے تحفظ کے لئے اسی جانب راغب ہوتے ہیں‘ جہاں طاقت اور اقتدار ہو۔ اقتدار کی واردات کے موجودہ حکمران پرانے کھلاڑی ہیں۔ ان کو دولت کے اقتدار سے نکال کر طبقاتی جدوجہد کے میدان میں ہی شکست دی جا سکتی ہے۔ انہی کی وکٹ پر ان کے خلاف کھیلنا بڑا مشکل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عمران خان کا ہر دھرنا اپنے اختتام پر حکمرانوں کو زیادہ مضبوط کر جاتا ہے۔ 
ان حکمرانوں کی نجکاری، ٹھیکیداری اور وحشی منافع خوری کی دوسری پالیسیوں نے محنت کشوں پر تابڑ توڑ حملے کئے ہیں‘ لیکن اس نظام میں تو یہی ہوتا آیا ہے اور ہو گا۔ بھوک، محرومی اور ریاستی جبر بڑھیں گے اور ان سیٹھوں کے سیاسی کھلواڑ عوام کی امنگوں اور دکھوں سے مبرّا ہوں گے۔ مارکس نے کہا تھا کہ محنت کش طبقے کی نجات کا فریضہ صرف محنت کش طبقہ خود ہی ادا کر سکتا ہے۔ جب تک محنت کشوں کی تحریک اور پارٹی ابھر کر اس سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ نہیں کرتی، حکمرانوں کے یہ سیاسی دنگل اور نورا کشتیاں چلتی رہیں گی۔ غریب ہی ان میں کچلے جاتے رہیں گے‘ لیکن تاریخ گواہ ہے کہ یہ طبقاتی جبر جب حد سے بڑھ جائے تو بغاوت کا آتش فشاں پھٹ پڑتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں