"DLK" (space) message & send to 7575

کارپوریٹ یا سوشلسٹ؟

پیپلز پارٹی کا 49واں یومِ تاسیس طویل عرصے کے بعد لاہور میں منایا گیا۔ اس حوالے سے منعقدہ تقریب میں نئے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے شرکت کی۔ اس تقریب کو پنجاب میں پارٹی کو اس سیاسی تنزلی سے نکالنے کی کاوش قرار دیا جا رہا ہے‘ جس میں پارٹی کئی دہائیوں سے گرتی چلی جا رہی ہے۔ پیپلز پارٹی پنجاب کی جس نئی قیادت کو نامزد کیا گیا ہے‘ اس نے ترقی پسندی کی سوچ رکھنے کا دعویٰ کیا‘ اور پارٹی کو پھر سے پنجاب میں ایک بڑی سیاسی طاقت کے طور پر ابھارنے کے عزم کا اعادہ بھی کیا ہے‘ لیکن جہاں پارٹی کے بنیادی منشور پر دبے دبے الفاظ میں باتیں کی جا رہی ہیں‘ وہاں اس انقلابی سوشلزم کی جدوجہد کے کھل کر اعلان سے شاید گریز بھی کیا جا رہا ہے۔ یہی وہ سوشلزم کا پروگرام اور نعرہ تھا جو پارٹی کی تاسیسی دستاویزات میں درج تھا اور جو ذوالفقار علی بھٹو اور بائیں بازو کے پیپلز پارٹی کے لیڈروں نے دیا تھا۔ پارٹی کے ان بانیوں نے جو پروگرام دیا‘ اس میں براہِ راست سرمایہ دارانہ نظام کے ایک سوشلسٹ انقلاب سے تبدیلی کا عوام سے وعدہ کیا تھا۔ لیکن ایسا ہو نہ سکا اور پارٹی بتدریج اور مسلسل اسی مروجہ اقتصادی نظام اور اس کی سیاست کا حصہ بنتی چلی گئی‘ جس کے خلاف ایک ناقابلِ مصالحت بغاوت کا عندیہ دے کر پیپلز پارٹی 1968-69ء کے انقلابات کی حمایت اور محنت کشوں کی انقلابی امیدوں کا محور بنی تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو نے بار بار یہ فقرہ دہرایا تھا کہ ''پیپلز پارٹی صرف غریب عوام کی پارٹی ہے‘‘۔ یہ پارٹی پچھلے طویل عرصے سے جس سیاست‘ ریاست اور معیشت کا حصہ بنی رہی یا بنائی جاتی رہی‘ اس میں آج نظریاتی فقدان کی انتہا ہو چکی ہے۔ اس لیے یہ کوئی حادثہ نہیں کہ آج کی حاوی سیاست میں کوئی ایسی پارٹی یا لیڈر نہیں ہے‘ جو یہ کہنے کی جرات کر سکے کہ اس کی پارٹی صرف غریبوں اور محنت کشوں کی پارٹی ہے‘ صرف انہی کے مفادات کے لیے جدوجہد کرے گی۔ محنت کش اور سرمایہ دار طبقات کے مفادات متضاد ہیں بلکہ یہ کہنا زیادہ بہتر ہو گا کہ ایک کی زندگی دوسرے کی موت ہے۔ اس لیے جب طبقاتی بنیادوں پر معاشرے کی اصل اور فیصلہ کن تقسیم کی سیاسی عکاسی و نمائندگی ہو گی تو پھر یہ سیاست مروجہ نہیں بلکہ طبقاتی کشمکش اور لڑائی کی سیاست بن جائے گی۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ ''نئی‘‘ پیپلز پارٹی‘ اپنے احیا کے لیے ہی سہی‘ اس راستے پر چلنے کے لیے تیار ہے؟ لیکن یہ بات ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے کہ عوام کی سیاست کی نعرے بازی اس وقت فریب اور دھوکہ دہی بن جاتی ہے جب اس کو طبقاتی تضادات اور تصادم کی سائنسی سوچ اور نظریات کے تحت حتمی سوشلسٹ فتح کے لیے نہ لڑا جائے۔ اس لیے موجودہ پارٹی کے سامنے سوال یہ بھی ہے کہ کیا یہ پارٹی کارپوریٹ کلچر‘ کارپوریٹ میڈیا‘ کارپوریٹ سیاست‘ کارپوریٹ ریاست کارپوریٹ ملا اور کارپوریٹ امریکہ کے بندھنوں کو توڑ کر اپنے آپ کو آزاد کروا سکتی ہے؟ لیکن پیپلز پارٹی کے جو چند مخلص لیڈر اور کارکنان ہیں‘ ان کو بھی اس سوال سے ایسے ہی ڈر لگتا ہے جیسے کینسر کا کوئی مریض سرجن کے جراحی آلات اور سرجیکل آپریشن سے خوف زدہ ہوتا ہے۔ بہت سوں کو یہ بھی معلوم ہے کہ اس کے علاوہ بقا کا کوئی راستہ نہیں‘ لیکن اس جراحی کے دوران جو درد ملے گا‘ اس کو برداشت کرنے اور پارٹی میں کارپویٹ مگرمچھوں کے خوف سے وہ کبوتر کی طرح آنکھیں بند کیے ہوئے ہیں؛ تاہم اس گریز سے خطرہ ٹلنے والا نہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ لیڈر تو درکنار‘ پچھلے40 سال میں کارپویٹ کلچر نے پارٹی کے اندر اتنی بڑی یلغار کی ہے کہ کارکنان بھی پارٹی کو مروجہ سیاست‘ ثقافت اور اقتدار کے حصول کی پارٹی سمجھنے لگے ہیں۔ بیشتر ''نظریاتی‘‘ کارکنان پارٹی کے آغاز کے دنوں کے ہیں‘ اس لیے بہت ضعیف ہو چکے ہیں ۔ جب اس نظام کی سیاست ہو گی تو انتخابات سے لے کر اقتدار تک کا تعین پیسہ اور پیسے والے ہی کریں گے۔ پیسے والوں نے اگر پارٹی کو ماضی میں اقتدار دیا‘ یا مستقبل میں دیں گے تو وہ اپنے سرمایہ دارانہ نظام‘ منافع خوری اور لوٹ مار جاری رکھنے والے سسٹم اور پالیسیوں کو پہلے بھی نافذ کرواتے رہے ہیں اور اب بھی کروائیں گے۔ اور اگر بالادست طبقات کی سیاست چلے گی اور وہ اقتدار میں آئیں گے تو پھر غریبوں اور محنت کشوں کے اقتصادی اور سماجی مفادات کا خون ہی ہو گا۔ سائنسی طور پر ''مکس اکانومی‘‘ اور ''ملٹی کلاس پارٹی‘‘ کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ یہ سرمایہ دارانہ مفادات کی حامل بعض پارٹیوں میں رائج عوام کو فریب دینے والی گھٹیا اصطلاحات ہیں۔ جب کلاسز کے مفادات ایک دوسرے کے ضد ہوں تو پھر ان کی مشترکہ پارٹی کیسے ہو سکتی ہے؟ اس ''نظریے‘‘ کی شکل ہمیں ''پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ‘‘ اور نظریہ مصالحت (Recociliation) کی پالیسیوں
میں نظرآتی ہے۔ پارٹی کا انحصار جب تک کارپویٹ میڈیا پر رہے گا‘ وہ اپنی پالیسیاں میڈیا کے ذریعے پھیلانے کی بجائے اسی کارپویٹ میڈیا کے پروپیگنڈے کے مطابق اپنی پالیسیاں اپنانے پر مجبور ہو گی۔ مالیاتی سرمائے کی سیاست اور انتخابات لڑنے کا انداز‘ ناگزیر طور پر پارٹی پر مالدار سیاستدانوں کو ٹکٹ دینے سے لے کر اس حکمران طبقے کے نظام میں حصہ داری تک‘ مزدور دشمن پالیسیاں ہی اختیار کرے گی۔ محنت کشوں پارٹیاں کبھی تاریخ میں میڈیا کے ذریعے ابھر کر محنت کشوں کی جدوجہد کو جاری نہیں رکھ سکیں۔
پارٹی کی اپنی تاریخ اس میڈیا‘ سیاست اور طریقہء انتخاب سے بغاوت کی گواہی دیتی ہے۔ جب پارٹی کا 1967ء نومبر میں تاسیسی اجلاس ہوا تو رائج الوقت حاوی ذرائع ابلاغ نے پارٹی کو نہ صرف مسترد کر دیا بلکہ پارٹی کے ابھار کے ہر امکان کو رد بھی کر دیا تھا۔ پارٹی نے اپنے دو جریدوں کے ذریعے عوام تک اپنے سوشلسٹ پروگرام کو پہنچایا۔ اسی طرح 70ء کے انتخابات (جن کے پیچھے68-69ء کے انقلابات کا شدید دبائو تھا) میں پارٹی کے غریب محنت کشوں کو ٹکٹ دے کر اسی سوشلزم کے پروگرام پر سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے تختے الٹا دیے۔ محنت نے سرمائے کو عبرتناک انتخابی شکست دی۔ اگر اپنی ہی تاریخ کے ان واقعات سے آج پارٹی انکار ی ہے تو پھر اس کی عوام میں طاقت تو نہیں ابھر سکتی۔ موجودہ سیاسی صورتحال میں مختلف پیادوں کی طرح ریاست اور میڈیا پیپلز پارٹی کو اپنی گیمیں کھلواتے رہیں گے۔ ایسے میں پارٹی کے سیاست اور میڈیا میں ابھرنے کا دارومدار حکمران طبقات کی ضرورت کے مطابق ہو گا‘ عوام کی نہیں۔ اس وقت پاکستان میں کل 12 فیصد آبادی سیاست میں دلچسپی اور شراکت رکھتی ہے۔
ایسے ماحول میں پیپلز پارٹی کا وسیع بنیادیں حاصل کرنا مشکل محسوس ہوتا ہے۔ لیکن جہاں تک 88 فیصد عوام کو سیاست میں سرگرم کرنے کا تعلق ہے تو پھر ایک طرف وہ معروض کے بدلنے اور تحریک کے ابھرنے سے سیاست کے میدان میں اتریں گے‘ دوسری جانب ایک موضوعی عنصر بھی درکار ہوتا ہے جو معروض پر فیصلہ کن اثرات مرتب کرتا ہے۔ لیکن ایسا موضوعی عنصر بننے کے لیے پارٹی کو میڈیا اور اس نظام کی دانش کے موضوعات اور ایشوز کو مسترد کرتے ہوئے محروم طبقات کے سلگتے ہوئے مسائل پر جدوجہد کرنا ہو گی۔ برنی سینڈرز سے لے کر جیرمی کوربن تک کئی رہنما میڈیا کے ذریعے نہیں‘ اس کو چیر کر حالیہ عرصے میں ابھرے ہیں۔ ٹرمپ کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ لیکن جہاں نظریاتی اور سیاسی لائحہ عمل کو یکسر تبدیل کرنے کی ضرورت ہے وہاں کارپویٹ کلچر اور کارپوریٹ مگرمچھوں کی پارٹی میں سے تطہیر کے بغیر ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھا جا سکتا۔ پارٹی جس دوراہے پر کھڑی ہے راستے مقاصد اور منزلیں واضح ہیں۔ یہ ایک شاید کٹھن لیکن انقلابی فتح کا راستہ ہے۔ دوسرا مصالحت اور مروجہ سیاست میں ریڈیکل بیان بازی سے جگہ بنا کر اسی نظام میں محکومی کے اقتدار کا راستہ ہے۔ اگر پیپلز پارٹی آج اپنے جنم کا انقلابی سوشلزم کا راستہ نہیں اپناتی تو پھر محنت کش طبقے نے تو اس ذلت اور بربادیوں کے نظام سے نجات حاصل کرکے رہنا ہے۔ یہ 20 کروڑ انسانوں کی بقا کا مسئلہ ہے۔ اگر محنت کش طبقہ تحریک میں انقلابات کے راستے پر چل پڑا تو پھر وہ اپنی نئی پارٹی تراش کر لے آئے گا۔ ایسے تناظر میں پیپلز پارٹی کی داستان تک نہ رہے گی داستانوں میں!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں