آصف علی زرداری پاکستان لوٹ آئے۔ زرداری جو اس 'زرزدہ سیاست ‘میں جوڑ توڑ، سودے بازی اور اپنی چالاکی کے لیے مشہور ہیں، اپوزیشن پارٹیوں کاایک گرینڈ الائنس بنائیں گے۔ پریس کو جاری بیان میں کہا گیا، ''پارٹی تمام اپوزیشن جماعتوں سے رابطہ کرکے مشاورت کا عمل شروع کرے گی، اتفاق رائے پیدا ہونے کے بعد گرینڈ الائنس کا اعلان کیا جائے گا۔‘‘ ترجمان نے مزید وضاحت کی کہ اس گرینڈ الائنس کا مقصد ''حکومت کی غیر قانونی پالیسیوں اور سرگرمیوں، جیساکہ پاناما لیکس، کے خلاف لڑنا ہے۔ اس الائنس سے تمام اپوزیشن پارٹیاں ایک پلیٹ فارم پر متحد ہوجائیں گی تاکہ اپنے احتجاج کو واضح اور پرزور انداز میں پیش کریں۔‘‘
یہ کوئی نئی بات تو نہیں؟ اس بیان سے ہی بے عملی اور رائج الوقت سیاست سے مصالحت کی بو آتی ہے۔ تبدیلی کہاں ہے؟ پارٹی کو دوبارہ زندہ کرنے کا ارادہ کہاں گیا؟ شاید پارٹی کی اعلیٰ قیادت تبدیلی چاہتی ہی نہیں یا اس سیاست اور امیروں کے جمہوری ناٹک میں ایک اتحادی بنے رہنا چاہتی ہے۔ لیکن پارٹی کی گرتی ہوئی ساکھ کی اس کیفیت میں کون انہیں اس لوٹ مار کے اتحاد میں جگہ دینے کو تیار ہوگا؟قبل ازیں، سامراجیوں اور ریاست کی مقتدر قوتوں نے عوامی بغاوت کے خوف کے نتیجے میں پیپلز پارٹی کو اقتدار دیا تھا۔ عمران خان نے میڈیا اور بعض ریاستی دھڑوں کی پشت پناہی کے ذریعے ہر طریقے سے نواز شریف کو گرانے کی کوشش کی لیکن بری طرح ناکام ہوگیا۔کیا پیپلز پارٹی کی موجودہ قیادت عوام کو متحرک کرکے مسلم لیگ ن کی حکومت کو گراسکتی ہے؟ لیکن پہلا سوال یہ ہے کہ عوام کہاں ہیں؟ موجودہ سیاسی منظر نامے سے عوام کو دھتکار دیا گیا ہے۔جواباً محنت کش طبقات نے بھی اس سیاست کو نفرت آمیز حقارت سے مسترد کردیا ہے۔ یہ 'مفاہمت‘ کی سیاست ہی ہے جس نے طبقاتی جدوجہد کی اس غیر مصالحانہ پالیسی کا گلا گھونٹ دیا ہے، جس سے روگردانی کے سنگین مضمرات کے بارے میں بھٹو نے راولپنڈی جیل میں اپنی آخری کتاب میں ٹھوس انداز میں لکھا تھا۔ لیکن کسی کو کیا پروا ؟ اپنے کمروں میں بھٹو کی تصویریں ٹانگ کراور موبائل فون میں بھٹو کے رنگ ٹونز لگا کر پارٹی کا مقتدر ٹولہ یہ سوچنا بھی گوارا نہیں کرتا کہ پارٹی کے تاریخی زوال کی کیا وجوہ ہیں اور بھٹو کی زندگی اور موت کے اسباق کیا ہیں۔
پارٹی اپنے بنیادی سوشلسٹ پروگرام سے واضح طور پر منحرف ہوچکی ہے۔اس سماجی اور معاشی زخموں کے عالم میں محنت کشوں کو پتا ہے کہ اس سیاسی سرکس میں ان کے لیے کچھ بھی نہیں ہے۔ قنوطیت بھرے جمود ، بدعنوانوں اور امیروں کے سیاسی بالائی ڈھانچے سے نفرت کی کیفیت میں محنت کشوں نے اس غلیظ دھندے کی ہر شکل کو دیکھا ہے۔ عمران خان سماج کو درپیش حقیقی مسائل کی بات نہیں کرسکا اور نہ ہی اسے کرنا چاہیے،کیونکہ اس کی بنیاد ہی دائیں بازو کے نیم مذہبی اور نیم لبرل پاپولزم کے بیہودہ ملغوبے پر ہے۔ لیکن ساٹھ کی دہائی کی پیپلز پارٹی تو کم از کم ایسے نہ تھی۔ آج کی مسلط کردہ سیاسی نوراکشتی، عوام کی اکثریت کی اذیتوں سے بے نیاز ہے۔ پیپلز پارٹی کی قیادت نے انتہائی ڈھٹائی اور گھنائونے انداز میں پیسے کی کرپٹ سیاست میں خود کو غرق کیا ہے۔
اقوام متحدہ کی حالیہ رپورٹ پاکستان میں سماجی و معاشی زوال کو واضح طور پر دکھاتی ہے۔ پچھلی چار دہائیوں میں پاکستان میں بھوک میں اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان، جس کا سرکاری جی ڈی پی تقریباً 270 اَرب ڈالر ہے، آبادی کے لحاظ سے دنیا کا چھٹا بڑا ملک ہے اور غربت کو کم کرنے میں دنیا کا دوسرا سب سے ناکام ملک ہے۔ پاکستان کی چالیس فیصد آبادی 14 سال سے کم عمر بچوں پر مشتمل ہے جسے دہائیوں سے مختلف حکومتوں نے نظرانداز کیا ہوا ہے۔ پانچ سال سے کم عمر بچوں میں نامکمل نشونما کی شرح 2000ء کی نسبت مزید بڑھ گئی ہے۔اس فہرست میں مزید صرف تین ممالک ہیں۔ ہر حکومت اپنے دور میں جی ڈی پی کے بڑھنے کی ڈینگیں مارتی ہے، لیکن تمام تر پارٹیوں اور فوجی آمروں کی حکومتیں،ملک کے بچوں کی ہولناک غذائی قلت کو ختم نہیں کرسکیں، الٹا اس میں اضافہ ہی ہوا ہے۔ جنوبی ایشیا میں پاکستان تعلیم پر سب سے کم خرچ کرنے والا ملک ہے۔ یہ رپورٹ محض اعدادوشمار نہیں بلکہ یہ اس سرمایہ دارانہ نظام میں آنے والے تاریک مستقبل کی تصویر ہے۔ اگر مستقبل کی آنے والی نسل کی یہ حالت ہو تو بربادی کی نوعیت کا بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے۔اس نظام کے ہاتھوں عوام کو ایک وحشت کا سامنا ہے۔ اگرغربت اور بیماری زدہ،خوفناک جھونپڑپٹیوں اور مضافاتی علاقوں کو دیکھا جائے تو خواتین، عمررسیدہ افراد اور آبادی کے کمزور حصوں کی بدحالی اور بربادی مزید واضح نظر آئے گی۔ آبادی کا وسیع حصہ زندگی کی بنیادی ضروریات جیسے خوراک، رہائش، پانی، صحت، تعلیم اور نکاسی کی سہولتوں سے محروم ہیں۔ محنت کش طبقات سطحی معاملات جیسے آئین، جمہوریت، سیکولرازم، طاقت کی نچلی سطح پر منتقلی، بلوں اور قانون کی شقوں میں قطعاً کوئی دلچسپی نہیں رکھتے۔ سیاسی سیٹ اپ چاہے جو بھی ہو وہ مالیاتی سرمائے کی آمریت کے ہاتھوں برباد ہورہے ہیں۔ ان کی زندگیاں اپنے وجود کو برقرار رکھنے کے لیے بنیادی ضروریات کی تکمیل کی تگ ودو میں گزر جاتی ہیں۔
نوازشریف بورژوازی (سرمایہ داروں) اور کاروباریوں کا نمائندہ ہے۔ مالیاتی اور تاریخی طور پر پاکستان کے بورژوا طبقات نااہل، بدعنوان اور ریاست اور سماج کو لوٹنے کا کردار رکھتے ہیں۔ وہ صنعتی انقلاب کرنے میں ناکام رہے ہیں اور جو کچھ پاکستان میں سامنے آیا وہ کوئی کلاسیکی خطوط پر استوار جدید سرمایہ دارانہ سماج نہیںہے بلکہ قبائلیت اور جاگیرداری سے لے کر مختلف تاریخی نظاموں کے باقیات کا مجموعہ ہے، جو ایک دوسرے کی جگہ نہیں لے سکے اور جنہیں یہاں کی نحیف اور متروک سرمایہ داری نے ایک ملغوبے کی شکل دے دی۔ حتیٰ کہ سیدھے سادے سماجی تعلقات، معاشی رشتے اور پارلیمانی نظام بھی قائم نہ ہو سکے۔ یہ حکمران طبقات صرف مغرب کی بھونڈی نقالی کرتے ہیں۔ یہی چیز پاکستان کے حکمران طبقات، ان کے ریاستی اداروں، ڈھانچوں، اخلاقیات، ثقافت، اقدار اور ذہنی حالت میں منعکس ہوتی ہے۔
بڑے واقعات ہونے کو ہیں۔ اگر نوازشریف کو اوپر سے کسی بھی طریقے سے ہٹا دیا جاتا ہے، جس کے امکانات ہیں، تو نئی حکومت اس سے کم بدعنوان، استحصالی، منافق اور جھوٹی نہیں ہوگی۔ لیکن سب سے بڑھ کر اس بدقسمت ملک کے عوام کے عذابوں میں کوئی کمی نہیں ہوگی۔ کوئی بنیادی تبدیلی نہیں ہوگی۔ غربت، محرومی، تشدد اور استحصال اسی طرح جاری رہے گا۔ طاقت اور پیسے کی سیاست نے محکوموں کو کچھ نہیں دیا ہے نہ دے سکتی ہے۔ اب تو بورژوازی کے سب سے نامور معیشت دان اور ماہرین بھی تیزی سے اس نتیجے پر پہنچ رہے ہیں کہ یہ بحران اس نظام کے نامیاتی زوال کا نتیجہ ہے۔حکومت کو گرانے کے لیے، عوام کو متحرک کرنے کے لیے پارٹی کو ٹھوس مطالبات اور پروگرام کے ساتھ آنا ہوگا جو عوام کے جذبات کی ترجمانی کرسکے۔ اگر قیادت مخلص ہے تو اسے ان مطالبات کو سماجی و معاشی نظام کی تبدیلی کے ساتھ جوڑنا ہوگا۔پیپلز پارٹی کی بنیادی دستاویز میں ایسے بہت سے مطالبات درج ہیں۔ لیکن اگر 'نئی‘ قیادت عوام کا اعتماد حاصل کرنے کے لیے بائیں جانب جھکتی ہے تو نیم دلانہ اور اصلاح پسندانہ اقدامات پارٹی کی بحالی کے لیے نقصان دہ ثابت ہونگے ۔اگرچہ موجودہ کیفیت میں اس بات کے امکانات بہت کم ہیں، لیکن اگرپیپلز پارٹی طبقاتی سیاست کے ساتھ جڑنے کا ارادہ کرتی ہے، 'مصالحت کے نظرئیے‘ کے فریب کو ترک کرکے انقلابی سوشلزم کے لیے لڑتی ہے توعوام انقلابی تحریک میں نکل کر پارٹی کو وہی شہرت دیں گے جو 1960ء کی دہائی میں اسے حاصل ہوئی تھی۔ محنت کشوں نے اس عرصے میں اپنے تجربات اور اسباق حاصل کیے ہیں۔ عہد اور معاشی جبر کے اپنے اثرات ہوتے ہیں۔انقلابی تحریک کی اپنی حرکیات اور عہد ہوتے ہیں۔ لیکن ایک طبقاتی سماج میں جلد یا بدیر وہ ضرور اٹھے گی۔ پیپلز پارٹی کی قیادت فی الوقت بورژوا سیاست اور سماجی اقدار میں گھری ہوئی ہے۔ انہوں نے سرمایہ داری مخالف بیان بازی تک بھی عرصہ قبل چھوڑ دی ہے۔ یہ 'لیڈران‘ اب پیپلز پارٹی کو محنت کشوں کی پارٹی کہنے سے بھی کتراتے ہیں۔ 'طاقت کا سرچشمہ عوام‘ کا نعرہ اس وقت بے معنی ہوجاتا ہے جب پارٹی اپنے مطالبات اور جدوجہد سے محنت کشوں کے مفادات اور مطالبات کو نکال دیں۔ لیکن عوام نے اپنی نجات اور بقا کے لیے لڑنا ہے۔ جب بھی وہ تاریخ کے میدان میں اتریں گے تو انقلابی تحریک کی کھوکھ سے انقلابی پارٹی کی تشکیل ہوگی۔