عمومی طور پر ترقی یافتہ سماجوں میں مرد م شماری کا مقصد یہ بیان کیا جاتا ہے کہ کسی معاشرے میں موجود انسانوں کی تعداد کے مطابق اس معاشرے کی ضروریات اور درکار سہولیات کا تعین کیا جاسکے۔ کسی معاشرے کو ترقی یافتہ یا خوشحال بنانے کی خاطر اسکے افراد کی اجتماعی ضروریات کی تکمیل کے لیے ایک منصوبہ بندی درکار ہوتی ہے۔ لیکن آج عالمی طور پر معاشروں کی اکثریت جس نظام زر میں جکڑی ہوئی ہے اس میں وسائل بالادست طبقات لوٹ لیتے ہیں اور معاشرے کے عام انسانوں کی وسیع تر اکثریت محرومی اور ذلت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوتی ہے۔ لیکن پاکستان کے سرمایہ دارانہ نظام میں تو صورتحال ترقی یافتہ ممالک سے کہیں زیادہ بدتر ہے۔ امارت اور غربت کی تفریق انتہائوں پر ہے ۔مقامی اورسامراجی حکمران طبقات نہ صرف وسائل کو لوٹ رہے ہیںبلکہ اس معاشرے کی محنت کا استحصال کر کے اس کی دولت بھی دن دیہاڑے غبن کررہے ہیں۔ایسے استحصالی نظام اور قلت کے معاشرے میں جتنی بھی مردم شماریاں کرلی جائیں وہاں کسی منصوبہ بندی اور اشتراکی ضروریات اور آسودگی سے عاری معاشرہ محروم اور مجبورہی رہے گا۔
15مارچ سے ملک بھر میںمردم شماری کا آغاز کیا جاچکا ہے، لوگوں کو سمجھانے ، تعاون کرنے اور صرف درست معلومات دینے کے لیے آگاہی مہمیں بھی چلائی جا رہی ہیں۔این جی اوز کے ذریعے منعقد کرائی جانے والی یہ آگاہی مہم اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ عوام کی اکثریت اس بات سے واقف ہوچکی ہے کہ نہ ہی مردم شماری سے آج تک کوئی فرق پڑا ہے اور نہ ہی آگے پڑنے والا ہے ۔ یہ تاثر عام کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں کہ جیسے افراد کی گنتی کرنے سے تمام سماجی، معاشرتی و اقتصادی مسائل ایک لمحے میں حل ہو جائیں گے۔ حالیہ مردم شماری کے لئے محض 20کروڑ افراد تک رسائی کے
لئے تقریباً 20 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ ہندوستان میں ہوئی 2011ء کی مردم شماری میں تقریباً 1.3 ارب لوگوں تک 22 ارب روپیوں کے اخراجات میں رسائی کی گئی۔ یہ اعدادوشمار اس بات کو عیاں کرنے کے لئے کافی ہیں کہ یہاں ہونے والی حالیہ مردم شماری ایشیا کی مہنگی ترین مردم شماریوں میں سے ایک ہوگی ۔یہ باور کرایا جا رہا ہے کہ اس مردم شماری کے ذریعے اب طویل عرصے بعد ''حقیقی ‘‘ آئینی بنیادوں پر قومی و صوبائی اسمبلیوں میں نمائندگی ، فنڈز کی ''درست ‘‘ تقسیم کار، وفاقی نوکریوں میں ''سہی‘‘کوٹہ وغیرہ ہ اب ممکن ہوسکے گا ۔جتایا کچھ ایسے جارہا ہے کہ پچھلی دو دہائیوں سے ملک میںجو سب کچھ غلط ہورہا تھا اور اب اچانک سب ٹھیک ہونے جارہا ہے ۔
ویسے تو مردم شماری کروانے کی ذمہ داری پاکستان بیورو آف اسٹیٹسٹکس کی ہے لیکن حالیہ عمل کو منطقی انجام تک پہنچانے میں تقریباً تین لاکھ کے قریب اہلکار حصہ لیں گے جن میں سویلین کی تعداد ایک تہائی سے بھی کم ہے۔ سوال یہاں یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر اس مردم شماری کے ذریعے کیا حاصل کیا جاسکے گا؟ کیا سلگتے مسائل میں تپتی عوام کا اس عمل کے بعد روز جلنا بند ہوجائے گا؟ کیا صوبوں کو واقعی ان کی خودمختیاری اور اسمبلیوں میں حقیقی نمائندگی مل سکے گی؟ کیا بیروزگاروں کی بڑھتی فوج کے لئے مردم شماری کے اختتام پر نوکریاںممکن ہوسکیں گی؟ کیا غربت اور لاعلاجی جیسے مسائل مردم شماری کے بعد ختم ہوجائیں گے؟
ان تمام تر سوالوں کے جوابات سے نہ کسی سرمایہ دارریاست کوکبھی دلچسپی رہی ہے اور نہ ہی ان مسائل کے حل کے لئے کوئی سنجیدگی سے سوچنے کو بھی تیار ہے۔ پچھلی پانچ مردم شماریوں کی طرح یہ مردم شماری بھی عوام کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے ہی مترادف ہوگی۔ حالیہ مردم شماری بھی ایک ایسے وقت میں سپریم کورٹ کے حکم پر کروائی جارہی ہے جب تمام صوبوں کے مابین اسے لے کر شدید اختلافا ت موجود ہیں ۔ بلوچستان میں موجود افغان پناہ گزینوں کی ایک بڑی تعداد کی موجودگی میں اور ملکی حالات کی مسلسل خرابی کے باعث لاکھوں لوگوں کی نقل مکانی و ہجرت نے کراچی اور سندھ کے دوسرے علاقوں کا رخ کیا ہے۔اس طرح پنجاب کے حوالے سے شدید اعتراضات موجو ہیں جبکہ دوسری جانب سندھ میں ''پاکستان پیپلزپارٹی ‘‘ اور''ایم کیو ایم‘‘ پہلے ہی اپنے خدشات کا اظہار کرچکی ہیں جس میں ان کے مطابق شہری اور دیہی بندربانٹ کے باعث درست نتائج اخذ نہیں کئے جاسکتے ۔ ایک سروے کے مطابق ملک کا شہری حصہ جی ڈی پی میں 80 فیصد تک حصہ ادا کرتا ہے جبکہ سب سے زیادہ ٹیکس بھی اسی کے ذریعے حاصل کیا جاتا ہے ۔دوسری جانب موجودہ شہری آبادیوں میں غربت کا تناسب بھی اب دیہات کی نسبت شدت اختیار کرتا جارہا ہے خاص طور پر بڑے شہروں میں جہاں لوگوں کی بڑی
تعداد جھونپڑ پٹیوں اور ڈربے نما فلیٹوں میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے ۔ بظاہر پنجاب میں شہری آبادی کا تناسب پورے ملک سے زیادہ ہے لیکن گزشتہ پوری دہائی میں ملک کے شمالی علاقوں سے ہونے والی ہجرت نے سندھ کے بڑے شہروں کا رخ کیا ہے جس سے یہاں تیزی سے آبادی میں اضافہ ہوا ہے مثلاً صرف کراچی میں ہر سال 8.8 فیصد تک آبادی میں اضافہ ہورہا ہے اور یہ کہنا کسی طور پر غلط نہیں ہوگا کہ اب صرف اس شہر کی آبادی 1998ء کی مردم شماری سے دوگنی ہوچکی ہے۔ایم کیو ایم اسی صورتحال کا زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کرنے کے لئے مختلف حربے استعمال کررہی ہے اسی سلسلے میں انہوں نے سپریم کورٹ کا بھی رخ کیا ہے ۔ پیپلزپارٹی بھی اپنی گھٹتی ساکھ کے مدنظر اس معاملے کو وفاق کے ساتھ ''تضاد ‘‘ کی صورت میں پیش کرنے کی کوششیں کررہی ہے۔ حکمران طبقے کے مابین اس قسم کے معاملات میں ہونے والی ہر لڑائی بے بنیاد اور اور ا ٓخری تجزیے میں عوام کے ساتھ دھوکے کے سوا کچھ بھی نہیں ۔ خیبر پختونخوا کے حصے میں شدید کمی ہونا متوقع ہے جہاں سے ایک بہت بڑی تعداد بلوچستان اور سندھ کے علاقوں میں ہجرت کرچکی ہے۔ ایسی کیفیت میں کروائی جانے والی مردم شماری کسی طور پر تضادات کو حل نہیں کرپائے گی اور مزید نئے تضادات کو جنم دے گی۔ خاص طور پر جو کچھ پچھلے دنوں پنجاب اور سندھ کے بیشتر علاقوں میں پختونوں کے ساتھ کیا گیا حکمران طبقے کی نیت کی خوب عکاسی کرتا ہے۔ حالیہ مردم شماری کو حکمران طبقہ اپنے مفادات کے حصول کے لئے قومی جذبات کو بھڑکانے اور نفرتیں بکھیرنے کے لئے استعمال کرے گا ۔
اگر غور کریں تومعاشرے کے تمام افراد کی بیشتر ضروریات مشترک ہوتی ہیں۔ غذائی ضروریات ،علاج، تعلیم، ٹرانسپورٹ، رہائش، پانی، بجلی، گیس، کپڑا ، نکاس اور دوسری بے شمار بنیادی ضروریات معاشرے کے ہر فرد کو درکار ہوتی ہیں۔ لیکن موجودہ نظام میں چند لوگوں کے پاس دیوہیکل محلات ہیں اور کروڑوں جھونپڑیوں میں سسک رہے ہیں۔ کسی کے پالتوں جانوروں کو اعلیٰ غذا ملتی ہے تو کروڑوں بچے او ر بزرگ بھوک سے مرجاتے ہیں۔ ہر ضرورت کا یہی حال ہے۔ اونچ نیچ کے اس نظام میں اگر انسانوں کو مساوی حیثیت حاصل نہیں ہوسکتی تو اس میں کسی مردم شماری کے تحت کوئی ایسی منصوبہ بندی بھی نہیں ہوسکتی جس سے معاشرے کو اشتراکی ترقی ،خوشحالی اور سہل زندگی حاصل ہوسکے۔ امیر اور غریب، ظالم و محکوم اور محنت اور دولت کی تفریق کے نظام کو ختم کرکے ہی ایسی منصوبہ بندی کی جاسکتی ہے جس سے کوئی فرد یا گروہ وسائل کی ملکیت اور دولت پر قابض نہ ہو بلکہ یہ وسائل معاشرے کی اجتماعی ملکیت میں ہوں اور سہولت کے لیے استعمال ہوسکیں۔ ایسے معاشروں میں ہی مردم شماری کا حقیقی فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے جہاں چند امیروں کی منڈی کی سرمایہ دارانہ معیشت کا خاتمہ کرکے منصوبہ بندی کی سوشلسٹ معیشت کا اجراء کیا جائے۔
حالیہ مردم شماری کے لئے محض 20کروڑ افراد تک
رسائی کے لئے تقریباً 20 ارب روپے مختص کئے
گئے ہیں۔ ہندوستان میں ہوئی 2011ء کی مردم
شماری میں تقریباً 1.3 ارب لوگوں تک 22 ارب
روپیوں کے اخراجات میں رسائی کی گئی۔یہ
اعدادوشمار اس بات کو عیاں کرنے کے لئے کافی
ہیں کہ یہاں ہونے والی حالیہ مردم شماری ایشیا کی
مہنگی ترین مردم شماریوں میں سے ایک ہو گی۔