بھارت کے حکمران طبقات نے بعد از بٹوارے کی تمام تاریخ میں کشمیر کے مسئلہ کو بڑی ہی بے دردی سے استعمال کیا۔ لیکن ہر چیز کی کوئی حد ہوتی ہے، مظلوم عوام کے ساتھ ہمیشہ ناٹک نہیں چل سکتا۔ کشمیریوں کے گن گا کر یہاں کی سفارت کاری نے حاکمیت سے کشمیریوں کے حقوق کو ہی سب سے زیادہ پامال کیا ہے۔ حالیہ تحریک‘ جو تقریباً دس ماہ پہلے بھارتی مقبوضہ کشمیر میں اٹھی تھی‘ تھوڑے بہت عروج و زوال کے ساتھ چلتی رہی‘ اور پچھلے چند دنوں میں یہ تیزی سے بھڑک اٹھی ہے۔ بھارتی رجعتی ریاست کی قوتوں نے مظالم کی انتہا کر دی ہے۔ بہت سے صحافت اور سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والے افراد اور ادارے اس کی کوریج کر کر کے شاید تھک گئے ہیں، لیکن کشمیری نوجوانوں اور محنت کشوں اور اب خواتین کی بغاوت ظاہر کرتی ہے کہ حقیقی تحریکیں اور اطاعت سے انکار میں اتنی شکتی اور جذبے ہیں کہ نئی توانائی کے ساتھ یہ بغاوتیں پھر سے اُمڈ آتی ہیں۔ ماضی میں پاکستان سے خصوصاً لائن آف کنٹرول کی جھڑپوں اور گولہ باری سے ہونے والی ہلاکتوں کو داخلی طور پر کشمیر میں تحریکوں کو زائل کرنے اور ان کے بکھر جانے کے ہتھکنڈے میں کسی حد تک بھارتی حکمرانوں کی کامیابی حاصل ہوئی تھی۔ لیکن اس مرتبہ مودی سرکاری کو جس نئی ناکامی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے وہ یہی ہے کہ یہ جھڑپیں اور ہندوستانی فوجیوں کی لاشوں کو پاکستانی فوج کے ہاتھوں مسخ کیے جانے والے پروپیگنڈے نے کشمیر کے عوام پر اثر انداز ہونا چھوڑ دیا ہے۔ یہ نسخہ اب ناکام و نامراد ہو چکا ہے۔ یہ بھارتی اور دوسرے سرمایہ دارانہ حکمرانوں کے لیے ایک تشویش کا باعث بنا ہوا ہے‘ کیونکہ ماضی میں اس بیرونی تصادم کے حربے سے جنم لینے والا قومی شائونزم اب ابھر ہی نہیں رہا ہے۔ بالادست طبقات نے ہر خطے میں داخلی مزاحمتوں کو دبانے اور زائل کرنے کے لیے بیرونی جنگوں اور تنازعات کا فارمولا طویل عرصے سے جاری رکھا ہوا تھا وہ کم از کم کشمیر میں ناکام ہو چکا ہے۔ کشمیر کی تحریک بار بار بھڑک اٹھتی ہے اور اس مرتبہ یہ واقعات ان کو دبانے کی بجائے ابھارنے کا باعث بنے ہیں۔
بھارتی فوج، نیم فوجی دستوں (سی آر پی ایف) اور پولیس نے اس حکمت عملی پر عمل پیرا ہوتے ہوئے وسیع پیمانے پر کریک ڈائون کا آغاز کیا، نوجوانوں کو سڑکوں پر گھسیٹا گیا اور بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا، متعدد گرفتاریاں عمل میں لائی گئیں، سنگبازی کے الزام میں ایک نوجوان کو بھارتی فوج کے ایک میجر کی گاڑی کے آگے باندھ کر سرینگر کی شاہراہوں پر یہ اعلانات کروائے گئے کہ پتھر مارنے والوں کے ساتھ آئندہ اس طرح کا سلوک کیا جائے گا۔ 16 اپریل 2017ء کو طلبا و طالبات کے احتجاج کی ایک نئی لہرنے اس وقت جنم لیا جب بھارتی فوج، پولیس اور نیم فوجی دستے گورنمنٹ ڈگری کالج پلوامہ کے احاطہ میں چوکی قائم کرنے اور گرفتاریوں کی غرض سے داخل ہوئے۔ پانچ ہزار کے قریب طلبا و طالبات نے فورسز کے اس اقدام اور درسگاہ کے تقدس کو پامال کئے جانے کے خلاف احتجاج کیا۔ احتجاج کو بری طرح سے کچلنے کیلئے فورسز نے فائرنگ اور آنسو گیس کی شیلنگ کا سہارا لیا جبکہ طلبا و طالبات نے فورسز پر جوابی پتھرائو شروع کر دیا۔ کئی گھنٹے تک نہ صرف کالج بلکہ پورا پلوامہ قصبہ میدان جنگ بنا رہا۔ کاروبار اور ٹرانسپورٹ کا سلسلہ معطل، نظام زندگی مفلوج ہو کر رہ گیا تھا۔ قابض افواج کی فائرنگ اور شیلنگ سے پچاس سے زائد طلبہ زخمی ہوئے جن میں اکثریت طالبات کی ہے۔
طلبا کے ساتھ پہلی مرتبہ ہزاروں کی تعداد میں طالبات بھی احتجاج میں شریک ہیں اور بھارتی قابض افواج کے مظالم کیخلاف سراپا احتجاج ہیں۔ سرینگر، کلگام، پلوامہ اور بانہال کے علاقوں میں طلبہ نے تمام شاہرائوں کو ٹریفک کیلئے بند کر رکھا ہے جبکہ کاروباری سرگرمیاں بھی معطل ہو کر رہ گئی ہیں۔ محبوبہ مفتی حکومت نے درسگاہوں میں تعطیلات کا اعلان کرتے ہوئے افواج سے مظالم روکنے کی بجائے والدین اور طلبہ سے پرامن رہنے کی اپیل کی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ بھارتی حکمرانوں نے وادی بھر میں انٹرنیٹ و موبائل سروس سمیت میڈیا کے دیگر ذرائع پر پابندیوں کے ایک نئے سلسلے کا بھی آغاز کر دیا ہے جو تحریک کے دیگر حصوں میں ممکنہ پھیلائو کے حکومتی خدشات کا اظہار ہے۔
کشمیر کے عوام کی جانب سے یہ جرات اور دلیری کا نیا اظہار ظاہر کرتا ہے کہ شعور کس حد تک آگے بڑھ گیا ہے۔ حکمرانوں کی ان چالوں کو کشمیر کے محنت کش عوام خوب اچھی طرح بھانپ گئے ہیں۔ حکمرانوں کے لیے صورتحال اتنی زیادہ بگڑ گئی ہے کہ ماضی میں حکمرانوں کا ایک ہتھکنڈا یہ بھی تھا کہ ریاستی و نجی میڈیا اور انٹیلی جینشیا کے ذریعے معصوم لوگوں پر دہشت گردی کا الزام لگا کر ان کو قتل کر دیا جاتا تھا۔ اس سے عام کشمیری ان کی حمایت میں کھل کر اپنا اظہار نہیں کرتے تھے لیکن اب تو ان کے جنازوں میں ہزاروں کی تعداد میں عوام شریک ہوتے ہیں، کھل کر ان کی حمایت کرتے ہیں اور مذموم ریاستی دہشت گردی کی پرجوش اور جراتمندانہ مظاہروں اور احتجاجوں کے ذریعے مذمت کی جاتی
ہے۔ اس میں خواتین اور خصوصی طور پر طالبات ہراول کردار ادا کر رہی ہیں۔ بھارتی ریاست صرف تشدد بڑھا رہی ہے لیکن جتنا تشدد بڑھ رہا ہے‘ وہ بغاوت کو کچلنے کی بجائے اس کے شعلوں کو مزید بھڑکانے کا باعث بنتا ہے۔ دوسری جانب اہم تبدیلی یہ بھی ہے کہ بیرونی مداخلت اور تخریب کار عناصر‘ جن کو مختلف سامراجی ریاستی عزائم کی پشت پناہی حاصل ہوتی ہے‘ بھی ایک ابھری ہوئی آبادی اور تحریک کی اس حدت میں مداخلت کرنے میں ناکام ہونے لگے ہیں۔ تحریک کی جب اپنی شدت اتنی زیادہ ہو جائے تو پھر وہ مخصوص مفادات کے لیے سیاست کا آلہ کار نہیں بنتی بلکہ اپنی قومی، سماجی اور معاشی آزادی کے ایجنڈے کو اولین ترجیح رکھتی ہے۔ ایسے میں تحریک اتنی جرات پکڑ جاتی ہے کہ ریاستی دہشت اس کی بغاوت کے آگے بے بس دکھائی دیتی ہے۔ اس کی ایک اہم وجہ نریندر مودی کی نہ صرف مذہبی جنونیت کی پالیسیاں ہیں‘ بلکہ اس ہندوتوا حکومت کا جارحانہ سرمایہ داری کا پروگرام بھی ہے‘ جو امیروں کو امیر تر اور غریبوں کو مزید غربت کی کھائی میں دھکیلنے کا موجب ہے۔ اس حاکمیت کے خلاف اتنی نفرت اور بغاوت کی بڑی وجہ صرف ان پر ہونے والا فوجی جبر ہی نہیں‘ بلکہ اس نظام کے مزید تسلط سے ان کی روزمرہ کی زندگیوں میں بنیادی ضروریات سے لے کر اجتماعی سہولیات تک کا چھن جانا ہے۔
مودی سرکار کا اس دنیا کی ''سب سے بڑی جمہوریت‘‘ میں سب سے رجعتی حاکمیت کے طور پر مسلط ہونے سے ظاہری طور پر نہ صرف بھارت بلکہ دوسرے ممالک میں بھی ایسی ہی رجعتی قوتوں کو تقویت ملی ہے۔ بھارت میں ہندو بنیاد پرستی کی درندگی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان ممالک کی مذہبی رجعتیت کی کالی قوتوں نے بھی فسطائیت پر مبنی قتل و غارت گری کو تیز کیا ہے‘ لیکن کشمیر کی یہ تحریک کشمیر میں حکمرانوں کو منہ توڑ جواب دے رہی ہے اور بھارت اور برصغیر کے دوسرے خطوں میں بھی نوجوانوں اور محنت کشوں کو ترقی پسندی کے رجحانات کے لیے جدوجہد کرنے اور جراتمندانہ مزاحمت کے جذبوں سے سرشار کر رہی ہے۔ آنے والے وقتوں میں جب محنت کش اور نوجوان ایسی تحریکوں میں اس نظام کے ظلم و بربریت کے خلاف ابھریں گے تو اس میں کشمیر کے نوجوانوں کی موجودہ جراتمندانہ مزاحمتی تحریک کا کردار کبھی فراموش نہیں کیا جا سکے گا۔ یہی یکجہتی جب طبقاتی بنیادوں پر محنت کشوں کو اکٹھا کرکے تاریخ کے میدان میں اتارے گی تو پورے جنوب ایشیا کا سیاسی و سماجی منظر بدل جائے گا۔ انقلاب کا‘ آزادی کا حصول ایک حقیقت کے روپ میں معاشرے کے سامنے واضح ہو کر آئے گا۔ کشمیر کے نوجوانوں کی اس عظیم الشان بغاوت سے پورے برصغیر کے حکمران اور ان کے ایوان لرزاں ہیں۔ ان واقعات پر برصغیر کے کمیونسٹ شاعر جوش ملیح آبادی کے کچھ اشعار ذہن کے دریچوں میں گونجنے لگتے ہیں: ؎
جفائے تاج داری سے بہ تنگ آ کر بجنگ آ کر
سزائوں ذلتوں پابندیوں فاقوں سے گھبرا کر
بھڑکتے جذبۂ ناموسِ انسانی کی شہ پا کر
چھچھورے حاکموں کی ناز برداری سے اُکتا کر
غرورِ آسماں کو جب زمیں نیچا دکھاتی ہے
مجھے بے ساختہ اپنی جوانی یاد آتی ہے
جو مظلوموں کی ٹوٹی ہڈیوں کو جوڑ دیتی ہے
جو عفریتِ حکومت کی کلائی موڑ دیتی ہے
جو شاہیں چشم فرعونوں کی آنکھیں پھوڑ دیتی ہے
جو قلعوں کو فقط ضربِ نظر سے توڑ دیتی ہے
کسی جاں باز میں جب وہ بغاوت گڑگڑاتی ہے
مجھے بے ساختہ اپنی جوانی یاد آتی ہے