بدھ کے روز کابل کے بازار میں دو پاکستانی سفارت کاروںکو حراست میں لے لیا گیا۔ نیشنل ڈائریکٹریٹ آف سکیورٹی (این ڈی ایس) نے انہیں تین گھنٹے تک تحویل میں رکھا۔ اس سے قبل افغان فورسز کی جانب سے دو سرحدی دیہات پر حملے کے بعد پاکستانی اور افغان فوجی حکام کی چوتھی فلیگ میٹنگ بغیر کسی پیش رفت کے ختم ہو گئی جس میں 13افراد ہلاک اور 40زخمی ہو ئے تھے۔افغان فوجی افسران کلی لقمان اور کلی جہانگیر کے افغانی حدود میں واقع ہونے پر مصر ہیں اور ان دیہات سے پاکستانی فورسز کا انخلا چاہتے ہیں۔
گزشتہ چند ماہ سے پاکستانی ریاست اور افغانستان کی سامراجی کٹھ پتلی حکومت کے درمیان تعلقات کشیدہ ہوتے جا رہے ہیں اور کافی تنائو موجود ہے ۔سرحدی جھڑپیںخطرناک ہوتی جا رہی ہیں۔دونوں ممالک میں دہشت گردی بظاہر بلا کسی روک ٹوک کے جاری ہے۔تقریباً دو صدیوں سے افغانستان میں جاری گریٹ گیم کے اس نئے کھلواڑ میں کچھ عرصے روسی، چینی اور ہندوستانی ریاستوں اور ان کے سامراجی عزائم کی مداخلت بہت بڑھ گئی ہے۔ امریکی سامراج کی شکست اور ناٹو افواج کے انخلا سے ان قوتوں کو مزید شہ ملی ہے کہ اب وہ اپنی پراکسیوں کے زریعے کہیں زیادہ کھل کر اس آگ کو مزید بھڑکا سکتے ہیں جس میں اس خطے کے عوام نسل در نسل برباد ہوئے جا رہے ہیں۔
حال ہی میں کابل اور جلال آباد میں دہشت گردی کے حملے ہوئے ہیں جن کی ذمہ داری داعش نے قبول کی ہے۔اس سے قبل امریکی افواج نے داعش کے ٹھکانوں پر 'تمام بموں کی ماں‘ نامی بم گرایا تھا۔ مارچ میں امریکی سفارتخانے کے نزدیک ملٹری ہسپتال پر ہونے والے حملے کی ذمہ داری بھی انہوں نے ہی قبول کی تھی۔ان حملوں میںبیسیوں افراد ہلاک اور زخمی ہوئے تھے۔
امریکی سامراجی بوکھلا چکے ہیں ۔در حقیقت وہ شکست خوردہ ہو کر پسپائی پر مجبور ہو گئے تھے لیکن اپنی سامراجی رعونت کے ہاتھوں وہ افغانستان اور خطے پر کسی حد تک کنٹرول رکھنے پر مجبور بھی ہیں۔امریکی تسلیم کر چکے ہیں کہ گزشتہ سال کے دوران اشرف غنی حکومت کے کنٹرول میں افغانستان کا علاقہ72فیصد سے گھٹ کر 57فیصد رہ گیا ہے۔واشنگٹن میں منصوبہ سازبخوبی جانتے ہیں کہ کابل میں ان کی کٹھ پتلی حکومت کی عملداری بہت محدود ہے اور وہ کرپشن اور سنگین جرائم میں ملوث ہے۔سی آئی اے کے سابقہ افسر اور اب واشنگٹن میں بروکنگ انسٹیٹیوٹ تھنک ٹینک سے تعلق رکھنے والے بروس ڑیڈل نے امریکی حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ''ہمسایہ ملک پاکستان کے برتائو میں تبدیلی کے لیے ایک نئی ٹھوس کوشش شروع کریں۔ جب تک پاکستان کی ''ریاست کے اندر ریاست‘‘ طالبان کو سٹریٹجک اثاثہ سمجھتی رہے گی اور انہیں پناہ گاہیں اور مادی امداد فراہم کرتی رہے گی تب تک ان کے لیے مذاکرات میں کوئی کشش نہیں ۔۔۔مسٹر اوباما کی پاکستان کو رشوت اور خوشامد کے ذریعے مزید تعاون پر مائل کرنے کی پالیسی ناکام ہو چکی ہے‘‘۔
وائٹ ہائوس میں مشیر برائے جنوبی اور وسط ایشیا لیزا کرٹس کی ایک حالیہ رپورٹ میں پاکستان کی جانب سے دہشت گرسی کے خلاف لڑائی میں متضاد رویے کے خاتمے کے لیے کئی اقدامات کی سفارش کی گئی ہے۔ جن میں پاکستان کا ''اہم غیر ناٹو اتحادی‘‘ کی حیثیت کا خاتمہ، فوجی امداد پر پابندیوں اور انہیں دہشت گر د گروپوں کے خلاف کارروائیوں سے جوڑنے سے اور پاکستانی سرزمین پر طالبان کے خلاف امریکی فوجی کارروائیوں میں اضافہ شامل ہیں۔ ابتدا میں امریکی ریاست نے ہی 1978ء کے ثور انقلاب کو کچلنے کے لیے سی آئی اے سے سب سے بڑے خفیہ آپریشن میں پاکستانی ریاست اور ایجنسیوں کو ان رجعتی جہادیوں کومنظم اور تربیت دینے میں معاونت فراہم کی۔ انہوں نے ہی پاکستان میں ضیا الحق کی آمریت مسلط کی تھی جس نے سماج کو بہت پامال کیا۔
آج امریکی سامراجی منصوبہ سازوں کی مایوسی عیاں ہے۔ امریکی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے سربراہ ڈین کوٹس نے حال میں کہا کہ '' تقریباً حتمی طو ر کہا جا سکتا ہے امریکی فوجی معاونت میں محدود اضافے کے باوجود 2018ء تک افغانستان میں سکیورٹی اور سیاسی صورتحال مزید خراب ہی ہو گی‘‘۔ امریکی کی طویل ترین جنگ میں16سالہ جارحیت اور قبضے کے باوجود موجودہ حالات کو 'تاریخ کا مکافات عمل ‘ ہی کہا جا سکتا ہے۔
امریکی کمزوری سے فائدے اٹھاتے ہوئے روسی اور چینی مختلف طالبان قیادتوں سے مذاکرات کر رہے ہیں جس سے امریکہ کی مشکلات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ماسکو اور بیجنگ کے عزائم میں زیادہ فرق نہیں اور ان مذاکرات کے پیچھے ان کے اپنے اپنے مفادات اور سٹریٹجک منصوبے ہیں۔ ہندوستان کی پالیسی بھی ان جیسی ہی ہے۔ وہ اپنے ملکوں نے مسلم آبادی کے علاقوں میں داعش کے پھیلائو کے خطرے کو محسوس کرتے ہوئے اسے روکنا چاہتے ہیں۔ ہندوستان کچھ بنیاد پرست گروپوں اور افغان حکومت میں کچھ دھڑوں کو پاکستان کے خلاف پراکسی کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔اس سے پاکستان کی ریاستی اداروں کے منصوبہ سازوں کی کئی دہائیوں سے جاری 'تزویراتی گہرائی‘ کی پالیسی پر عمل درامد مزید مستحکم ہوا ہے جس کے تحت وہ طالبان کی کو مدد اور سہارا فراہم کرتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ان کی افغان پالیسی درست ثابت ہوئی ہے۔ لیکن وہ یہ تسلیم کرنے سے انکاری ہیں کہ پاکستانی ریاست کے ان جنونی گروپوں سے تعلقات کی تاریخ گواہ ہے کہ کالے دھن کے ان پجاریوں پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔اب انہیں صرف کرائے پر لیا جا سکتا ہے، مستقل طور پر خریدا نہیں جا سکتا ۔اس رجعتی مسلح لڑائی میں جنگی سرداروں اور ان دہشت گرد گروپوں کے سربراہ مذہبی پیشوائوں کی وفاداریاں بدلنا ایک معمول بن چکا ہے۔ماضی میں افغان بنیاد پرستوں کی حمایت کی پالیسی میں وفاداریوں کی خرید و فروخت اور آقائوں کی تبدیلی نے تحریک طالبان پاکستان ( ٹی ٹی پی) کو جنم دیا۔افغانستان کی جنگ جلد ہی پاکستان تک پھیل گئی۔ مستقبل میں ایسا پھر سے ہونے سے روکا نہیں جا سکتا۔
افغانستان واحد ملک تھا جس نے قیام پاکستان کی مخالفت کی اور1948ء میں اقوام متحدہ میں پاکستانی رکنیت کے خلاف ووٹ دیا۔ افغان حکمرانوں نے کبھی بھی کسی لکیر کو تسلیم نہیں کیا۔ یہ مسئلہ ابھی تک حل طلب ہے۔ مغربی سامراجوں اور علاقائی ریاستوں کی مداخلت سے افغانستان کی دلدل مزید پیچیدہ اور خونریز ہو گئی ہے۔ افغانستان کی بربادی کا حل قومی بنیادوں پر ممکن تھا اور نہ ہی ہے۔ان قومی ریاستوں کے حکمران ان سماجوں کے اوپر مسلط ہیں جہاں شدید بحران اور سماجی خلفشار پنپ رہے ہیں۔ان کا مقصد افغانستان کے وسائل اور اس کی جغرافیائی اہمیت کو اپنے مالی مفادات کے لیے استعمال کرنا ہے۔ مایہ ناز جرنیل کلازوٹز نے کہا تھا کہ ''جنگ در اصل دوسرے پر تشدذرائع سے داخلی سیاست کا تسلسل ہوتی ہے‘‘۔
استحصال زدہ عوام کو ڈرانے کے لیے حکمران اشرافیہ ان مصنوعی بیرونی خطرات کو استعمال کرتے ہوئے محنت کش لوگوں کو استحصال کے خلاف لڑنے سے روکتے ہیں اور نظام کے خلاف اٹھنے والی بغاوتوں کو قومی سلامتی کے نام پر کچل ڈالتے ہیں۔ لیکن وہ ایک بھی اندرونی یا بیرونی مسئلہ حل نہیں کرسکتے کیونکہ جس نظام پر ان کی حاکمیت قائم ہے وہ خود بحران کا شکار ہے۔ جیسے سماج میں طبقاتی جبر کے ذریعے عوام ذلت،غربت ، بیماری کا شکار ہیں ، اسی طرح جنگوں اور مسلح بغاوتوں میں زیادہ تر غریب ہی مرتے ہیں۔یہ محنت کش طبقات ہی ان اس ظلم اور بربادی کی موجب ریاستوں اور نظاموں کی انقلابی تبدیلی کے ذریعے ہی ان اندرونی اور بیرونی مصائب کا خاتمہ کر سکتے ہیں۔