نشاۃ ثانیہ کے بعد خصوصاًیورپ کے بورژوا انقلابات نے ابھرتی ہوئی سرمایہ دارانہ معیشتوں سے مطابقت رکھنے والی جدید قومی ریاستیں تشکیل دی تھیں۔ ان نئی ریاستوںکا ایک اہم ستون عدلیہ تھی۔ حکمران طبقات اور ان کے سنجیدہ ماہرین نے یقینی بنایا کہ عدلیہ کو سماج کی تمام تر برائیوں اور خرابیوں سے دور ایک ''مقدس ادارے‘‘کے طور پر پیش کیا جائے۔ عدلیہ کے احترام اور خوف کو قائم رکھنے کے لیے کئی کہانیاں گھڑکر سماج میں پھیلائی گئیں۔لیکن آ ج کل ا نصاف کے ا یوا نو ں میں جو نا ٹک چل رہے ہیں و ہ فلم او ر تھیٹر کو بھی مات دے گئے ہیں، کچھ توڈ ر ا مہ سیریل کی طرح طو ا لت ہی ا ختیا رکر تے چلے جا رہے ہیں، تاہم ان کی بوریت اتنی زیا د ہ ہے کہ عام انسان اِن سے سخت بیزار ہیں۔ جے آئی ٹی کی نئی قسط کوبہت سنسنی خیزبنانے کی کوشش کی گئی ہے۔میاں صاحب کے فرزندکی تصویراسی سنسنی میںاضافے کے لیے ہی ریلیزکی گئی تھی لیکن میاں صاحب کی اپنی پیشی اوراس کے بعدکاخطاب موصوف کی مقبولیت بڑھانے کی چال لگتاہے۔
یہ ایسے ناٹک محسو س ہوتے ہیںجن کاکوئی اختتام،کوئی انجام ہی نہ ہو۔اوراگرکوئی انجام ہوگا بھی توعو ام ان ڈرامو ں سے اتنے اکتا چکے ہوںگے کہ ان کے اثرات بے معنی سے ہوجا ئیں گے۔ کسی بھی سر ما یہ د ا ر ا نہ معا شر ے اوربالخصوص پاکستان جیسے پسماندہ سماجوں میں عدل و انصاف کے ادارے بنیادی طورپرحکمرانوں نے اپنے آپسی تنازعات کوا یسے گھن چکر و ں ا و ر بھول بھلیوں کی ڈ گر پر گا مز ن کر نے کے لئے تشکیل د ئیے ہو تے ہیں جن کی کو ئی منزل نہ ہو۔ یہ راستہ و ا پس و ہیں پہنچتا ہے جہا ں سے شروع ہو ا ہو تا ہے ۔ ا گر ا نصا ف کے دیوتائوں کے ڈ ا ئیلا گ اور باتیں سنی جائیں تو ا یسے محسوس ہو تا ہے کہ یہ مقد س لو گ نہ جانے کیسی د یو ما لا ئی قو تو ں کے ما لک ہیں اور ا ن کا قہر و غضب یہاں ہر مجر م، ہر کر پٹ سیا ست د ا ن ا و ر حکمرا ن کو نشٹ کر د ے گا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ عد لیہ جیسے اعلیٰ ر یا ستی ا اداروں کا ز یا د ہ تر ا ستعما ل اس و قت ہو تا ہے جب حکمر ا ن طبقات ا و ر ر یا ستی دھڑوں میں کشید گی شد ید ہو جا تی ہے ا و ر سماج میں سے ابھرنے والے د با ئو ا و ر بے چینی کی تپش ا س جبر کے نظام کو کسی معا شر تی جمود کی کیفیت میں بھی کھو کھلا کر تی جا ر ہی ہو تی ہے۔ پچھلے طو یل عر صہ سے عد لیہ کی یہ بے جا ا و ر تندو تیز حر کت د ر حقیقت نظام کے گہرے بحر ا ن ا و ر خلفشا ر کی غما ز ی کر ر ہی ہے ۔ یہ ایسی کیفیت ہوتی ہے جب محنت کش عو ا م خو د ا بھی تا ر یخ کے میدان میں نہیںاترے ہو تے لیکن معا شر ے کی ر گو ں اور شر یا نو ں میں شورش ، ا نتشا ر ا و ر بے چینی ا تنی بڑ ھ جاتی ہے کہ پو ر ا ر یا ستی ڈھانچہ ہچکو لے کھا نے لگتا ہے۔ آ ج پاکستا ن اسی کیفیت سے گز ر رہا ہے ۔ جہاں عا م ا نسا نو ں کی غر بت ا و ر ذ لت بڑھتی ہی جا ر ہی ہے۔ لوگ بہت برد ا شت کر ر ہے ہیں، لیکن بر د ا شت کر نے سے اذیت کم نہیں ہو تی۔ جہا ں تعلیم اور علا ج کا نجکار ی کے ذریعے جنا ز ہ نکلا جا رہا ہو ۔ انتہائی بنیا د ی ضروریا ت ز ند گی تک دستر س خوا ب بن جائے ۔ ز ند گی تلخی کا شکا ر ہو ۔ معاشی حملوں کے ز خمو ں پر د ہشت گر د ی ا و ر جر ا ئم کا ز ہریلا نمک چھڑکا جا ر ہا ہو ۔ جہا ں ا میر ا میر تر ا و ر غر یب ا فلاس کی گہرائیو ں میں غرق ہو ر ہے ہو ں ۔ جہا ں بیما ر ہو نا ، انصا ف کا طلبگا ر ہو نا ، محنت کش ا و ر غر یب ہو نا خو د ایک جر م بن جائے ۔یہی آ ج اِس سما ج کی کیفیت ہے۔
ا علیٰ عدالتوں میں حکمرانو ں کے آپسی مقد ما ت ا تنے ا لجھ گئے ہیں کہ فیصلے ٹالنے پڑگئے ہیں۔اِس عدلیہ کی حقیقت یہ ہے کہ نسلیں گزرجاتی ہیں لیکن مقدمات ختم نہیں ہوتے۔انصاف طبقاتی سماج کی سب سے مہنگی ا جناس میں سے ایک ہے ۔ تا ر یخ پہ تا ر یخ پڑتی جاتی ہے ا و ر طا قتو ر لمبی لمبی تاریخیں لے کر جبر ، جر ا ئم ا و ر دھونس کو برقرا ر ر کھتے ہیں ۔ غر یبو ں کے پا س ر و ٹی کے پیسے نہیں ہیں ، و ہ اس مسلسل مہنگے ہو تے ہو ئے ا نصا ف کو بھلا کیسے حا صل کر یں گے ؟ لیکن یہ بھی ''جمہوریت‘‘ا و ر '' آ ز ا د ی‘ ‘ کا حسن قرار د یا جا تا ہے ۔ آز ا د صحا فت کی طر ح یہ آ ز ا د عدلیہ بھی حکمرانوں کے تنازعوں کو لٹکاتی ہے۔ لیکن غریبوں، محنت کشوں اور ناداروں کے لیے یہی نظامِ عدل ان کی زندگی کا بچا کھچا چین بھی چھین لیتا ہے۔ پیسے کے اس اندھے
کھلواڑ اور غارت گری سے برباد ہوتے ہوئے معاشرے میں حکمرانوں کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اُن کی دولت اِسی بربادی سے وابستہ ہے۔ نواز شریف اور عمران خان، دونوں نے اپنے اثاثوں کا جو قلیل سا حصہ ڈکلیئر کیا ہے اُس کے مطابق بھی دونوں ارب پتی ہیں۔ زرداری کی دولت کی وسعت کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ملائوں کی دولت کا کوئی شمار ہی نہیں ہے ۔ جرنیلوں کو یہاں کوئی پوچھ بھی نہیں سکتا۔ اور یہ سب کے سب آج ''کرپشن‘‘ کے خلاف مدعی بھی بنے ہوئے ہیں اور منصف بھی۔ سرمایہ دارانہ نظام کے پاس دینے کو صرف یہی کچھ ہے۔ یقینی طور پر اس نظام کی حدود میں رہتے ہوئے حالات میں بہتری نہیں آئے گی، سرمایہ دارانہ نظام کے سنجیدہ ماہرین کا بھی یہی تناظر ہے۔ جو نظام ملک کی اسی فیصد آبادی کو پینے کا صاف پانی مہیا کرنے سے قاصر ہو وہاں انصاف کی فراہمی اور ''قانون کی بالادستی‘‘ کی باتیں محض فریب ہیں! لیکن اگر اِن محروم اور استحصال زدہ محنت کش عوام کی رگوں او ر شریانوں میں اِن حکمرانوں کے خلاف طیش اور بغاوت کی شورش شدت اختیار کرگئی تو کسی وقت بھی بھڑک کر گلیوں، بازاروں، فیکٹریوں، کھیتوں اور کھلیانوں میںانقلاب برپا کر دے گی۔ ایسے انقلابی طوفان کے آگے بڑی سے بڑی طاقت بھی بند نہیں باندھ سکتی۔