بھارت میں ''ڈاکٹر گرومیت رام رحیم سنگھ انسان‘‘ نامی درندہ صفت ہندو گرو کی گرفتاری کے بعد اس پر 15 سالہ بچی کو زنا بالجر کا نشانہ بنا کر قتل کرنے کا مقدمہ چل رہا ہے۔ اس گرو کے لاکھوں چیلوں کا پنجاب اور ہریانہ کے مشترکہ دارالحکومت چندی گڑھ میں رکنا‘ اور پنجاب ہریانہ ہائی کورٹ پر دھاوا بولنے کا اقدام بھارت میں بڑھتی درندگی اور مذہبی وحشت کی غمازی کرتا ہے۔ اس ہنگامہ آرائی میں 36 افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہوئے۔ چونکہ یہ گرو یا پیر مودی سرکار کا حامی تھا‘ اس لیے ہریانہ میں بی جے پی کی صوبائی حکومت نے اس مجمعے کو ڈھیل دی‘ اور ان کو سرکاری املاک کی توڑ پھوڑ اور بلوے کرنے سے نہیں روکا۔ اس کا اظہار ہائی کورٹ کے ججوں کے بیانات سے ہوتا ہے۔
28 اگست کو دوپہر تین بجے ہائی کورٹ کا جج جگدیپ سنگھ ہیلی کاپٹر پر روہتک جیل گیا۔ ہزاروں فوجیوں اور ریاستی سکیورٹی دستوں نے جیل کو گھیرے میں لے رکھا تھا۔ سخت سکیورٹی اقدامات میں ہائی کورٹ نے اپنے جیل میں دیئے گئے فیصلے میں ''ڈیرہ سچا سودا‘‘ کے اس گاڈ فادر کو دو خواتین مریدنیوں کا بلادکار کرنے کے جرم میں 10 سال کی سزا سنائی۔ اس واقعہ اور عوام و سرکاری رد عمل سے بھارت میں بڑھتی ہوئی وحشت کی انتہا نظر آتی ہے۔ دنیا کی '' تیز ترین ترقی‘‘ کرنے والی معیشت میں کتنی جہالت اور پسماندگی پل رہی ہے‘ جو غربت کی انتہائوں سے جنم لیتی ہے۔ مودی سرکاری اس واقعہ سے ہل گئی ہے۔ آنے والے دنوں میں بھارت کے سماج کے ہراول دستے یعنی مزدور اس سرکار کے خلاف طبقاتی جدوجہد کی تحریکوں میں ابھریں گے‘ اور بی جے پی کے لمبے عرصہ تک بھارت پر حکمرانی کرنے کے عزائم چکنا چور کر دیں گے۔
بھارت کی تاریخ کے سب سے مہنگے انتخابات کے بعد 26 مئی 2014ء کو اقتدار میں آنے والی مودی سرکار کو رواں برس تین سال مکمل ہو چکے ہیں۔ بھارتی میڈیا میں حکومت کی جانب سے اپنی کامیابیوں کا بڑا چرچا کیا جا رہا ہے‘ جس میں بھارتی حکومت کی جانب سے اپنے اقدامات کو تاریخی کارناموںکے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ حقائق کی روشنی میں یہ عیاں ہے کہ نریندر مودی اور ان کی پارٹی نے عوام سے جو وعدے کئے تھے‘ ان میں ایک بھی وفا نہ ہو سکا۔ طرح طرح کے پروگرام کرکے لوگوں کوگمراہ کیا گیا۔ کئی ٹی وی چینلوں اور اخبارات نے مختلف سروے شائع کئے‘ جن میں بتایا گیا کہ ملک کے 80 فیصد لوگوںکو نریندر مودی ہی پسند ہیں۔ آج بھارتی میڈیا نریندر مودی کو بے مثال، باہوبلی، ان داتا، بھگوان کا اوتار کے طور پر پیش کر رہا ہے۔ نئے روزگار کا وعدہ اس وقت الٹ ہو کر بیروزگاری کی شرح میں حیران کن اضافہ دکھا رہا ہے۔ بھارت میں ہر سال تقریباً 12 ملین یعنی 1 کروڑ 20 لاکھ لوگ محنت کی منڈی میں داخل ہوتے ہیں۔ سہ ماہی ایمپلائمنٹ سروے کے مطابق اکتوبر 2016ء اور جنوری 2017ء کے درمیان 1.22 لاکھ روزگار یا ملازمتیں فراہم کی گئیں۔ اپریل اور جولائی 2016ء کے درمیان 77 ہزار اور جولائی اور اکتوبر کے دوران 31 ہزار افراد کو ملازمتیں فراہم کی گئیں۔ کنسٹرکشن اور آٹو موبائل دو ایسے شعبے ہیں‘ جہاں نوجوانوں کو روزگار کے لئے امید رہتی ہے۔ نئی ملازمتوں کے لئے نئے منصوبوں کی ضرورت ہے اور نئے منصوبوں کے لئے نئی انویسٹمنٹ کی۔ حکومت کے بلند بانگ دعووں کے باوجود بھارت میں سرمایہ کاری مایوسن کن ہے۔ او ای سی ڈی کے ایک حالیہ سروے کے مطابق 15 سے 29 سال کی عمر کے 30 فیصد نوجوان بے روزگار ہیں۔ یہ تناسب چین کے نوجوانوں کی بیروزگاری کے مقابلے میں دو گنا ہے، جہاں بیروزگاری کا تناسب 14.6 فیصد ہے۔ مودی سرکار نے بنیادی ضرورتو ں پر مزید کٹوتیاں کی ہیں۔ مثال کے طور پر -14 2013ء کی یو پی اے حکومت کے آخری بجٹ میں حکومت نے اعلیٰ تعلیم کے لئے بجٹ کا 4.57
فیصد حصہ مختص کیا تھا‘ لیکن مودی حکومت نے اعلیٰ تعلیم کے لئے مختص بجٹ کو -18 2017ء کے بجٹ میں کم کر کے 3.8 فیصد کر دیا۔ صنعتی ترقی کے باوجود بھارت آج بھی ایک زرعی ملک ہے‘ جہاں 70 فیصد آبادی دیہاتوں میں رہتی ہے۔ مودی کی حکومت بننے سے پہلے زرعی شعبے میں ترقی کی شرح 3.6 فیصد تھی، مگر اب زرعی شعبے میں ترقی کی شرح کم ہو کر 1.7 فیصد رہ گئی ہے۔ شدید معاشی مشکلات کے باعث کسانوں کی خود کشیاں کئی برسوں سے بھارت میں ایک سنجیدہ مسئلہ بنا ہوا ہے۔ مودی اور بی جے پی کا انتخابی دعویٰ تھا کہ ان کے دور میں کوئی کسان خود کشی نہیں کرے گا۔ نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے مطابق 2014ء میں 5,650 کسانوں نے خود کشی کی اور 2016ء میں 8,007 کسانوں نے۔ مودی نے سکہ بندی کی پالیسی کوکالے دھن کے خلاف ایک انقلابی قدم قرار دیا تھا‘ لیکن سکہ بندی یا ڈیجیٹل انڈیا کے نام پر مودی نے ملک کو واقعی قلاش بنا دیا ہے۔ زر بندی پالیسی کا اصل مقصد کالے دھن پر روک لگانے یا کالے دھن کی بیرونی ممالک سے واپسی کے وعدوں کی عدم تکمیل پر تنقید سے بچنا تھا‘ تاکہ عوام کو مسائل میں الجھا کر ان کے سوچنے، سمجھنے اور سوال کرنے کی صلاحیتوں کو مجروح کیا جا سکے۔ لیکن اس فیصلے کی وجہ سے جن کی اپنی محنت کی کمائی تھی وہ اس سے محروم ہو گئے جبکہ کالے دھن میں بے تحاشا اضافہ دیکھا گیا۔ معاشی حوالوں سے کئی شعبوں میں سخت گراوٹ دیکھی گئی۔ وزیر اعظم نے ہاتھ جوڑ کر بھارتی عوام سے 50 دن کی مہلت مانگی تھی کہ 50 دن بعد سب کچھ بہتر ہو جائے گا۔ کچھ بہتر تو نہیں ہوا لیکن ہر بھارتی بدترین حالات میں زندگی گزارنے کا عادی ضرور ہو گیا۔ سماجی و سیاسی حوالوں سے پاکستان دشمنی، فرقہ پرستی، نفرت اور گائے کے گوشت پر پابندی جیسے نان ایشوز گرم رکھے گئے۔ ہندوستانی معاشرے کو ایک بار پھر تاراج کرنے کی گھنائونی سازش رچائی گئی۔ یو پی میں ان کے ہم خیال اور مستقبل کے امکانی رفیق آدتیہ ناتھ یوگی کو اقتدار ملا تو فرقہ پرستوں کے حوصلے اور بھی بڑھ گئے۔ گاؤ رکھشکوں کی جانب سے علی الاعلان حملے روزمرہ کے معاملات میں سرایت کر چکے ہیں۔
اس تمام خلفشار اور میڈیا پر پیش کردہ پیلے آسمان کے کہیں پرے معاشرے میں طبقاتی تضادات مزید سلگ رہے ہیں۔ ان تین سالوں میں محنت کش طبقے کی جانب سے دو بڑی عام ہڑتالیں کی گئیں تو کسانوں میں بھی تحریک بیدار ہوئی۔ رواں ماہ مہاراشٹر اور مدھیہ پردیش میں کسانوں کے شاندار احتجاج ہوئے‘ جس میں انہوں نے مودی سرکار کو چیلنج کیا۔ اسی طرح طلبہ تحریک کی ایک اٹھان دیکھی گئی جو کہ آنے والے وقت میں مزید مضبوط ہو گی۔ مودی سرکار کے دوران قومی تحریکوں کو ایک نئی اٹھان ملی ہے۔ رپورٹس کے مطابق بھارت میں بہار، آندھرا پردیش، اترا کنڈ، ناگا لینڈ، منی پور، ملائیلا، کرناٹک، چنیش گڑھ، اتر پردیش اور دوسرے کئی صوبوں میں آزادی کی تحریکیں چل رہی ہیں جو کسی بھی وقت طوفان کا پیشہ خیمہ ثابت ہو سکتی ہیں۔ ان میں اہم کشمیر کی تحریک ہے جہاں طلبا کے ساتھ پہلی مرتبہ ہزاروں کی تعداد میں طالبات بھی احتجاج میں شریک‘ اور بھارتی قابض افواج کے مظالم کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ مودی سرکار کے اس دنیا کی ''سب سے بڑی جمہوریت‘‘ میں سب سے رجعتی حاکمیت کے طور پر مسلط ہونے سے ظاہری طور پر نہ صرف بھارت بلکہ بنگلہ دیش اور دوسرے ممالک میں بھی ایسی ہی رجعتی قوتوں کو تقویت ملی۔ بھارت میں ہندو بنیاد پرستی کی درندگی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان ممالک کی مذہبی رجعت کی کالی قوتوں نے بھی فسطائیت پر مبنی قتل و غارت گری کو تیز کر دیا ہے‘ لیکن جب طبقاتی بنیادوں پر محنت کش متحد ہو کر تاریخ کے میدان میں اتریں گے تو پورے جنوب ایشیا کا سیاسی و سماجی منظر بدل جائے گا۔