"DLK" (space) message & send to 7575

متحارب اشرافیہ کے تضادات

نواز شریف کی نااہلی نے پاکستان کی سیاست کو ایک بحرانی دور میں داخل کر دیا ہے۔ کچھ دھڑوں نے نواز شریف کی بذریعہ جی ٹی روڈ گھر واپسی کو لاحاصل تصور کیا تھا‘ لیکن جوں جوں ان کا قافلہ آگے بڑھتا گیا ، لوگوں کی اس میں شمولیت بڑھتی گئی۔ ایسی خبریں بھی گردش میں ہیں کہ گھر واپسی کا روٹ ن لیگ کی اعلیٰ قیادت میں سپلٹ کا باعث بنا۔ مبینہ طور پر چودھری نثار کا دھڑا بضد تھا کہ اقتدار سے دستبردار ہوتے ہوئے بذریعہ موٹر وے یا پھر ہوائی جہاز کے ذریعے ایک خاموش اور تابعدار واپسی عمل میں لائی جائے‘ جبکہ دوسرا یعنی نواز شریف کا حمایتی اکثریتی دھڑا چاہتا تھا کہ ایک لڑاکا انداز میں نکلا جائے، اور بالآخر وہ کامیاب رہا۔
این اے 120 کے ضمنی انتخاب میں کلثوم نواز کی جیت نے ن لیگ کے ان نام نہاد باغی ''شیروں‘‘ کوحوصلہ دیا۔ مریم نواز، جنہوں نے اس انتخابی مہم میں 'جون آف آرک‘ کا کردار اپنائے رکھا، نے غصے اور نفرت کا بھرپور اظہار کیا۔ ایسا تاثر مل رہا ہے کہ انہوں نے اکثریتی کارپوریٹ میڈیا سمیت تمام تر مخالف قوتوں پر اپنی سبقت بنا لی ہے‘ جو نواز شریف سے انتقام لینے کی آگ میں ''سرکاری اعلامیے‘‘ کی رَٹ لگائے ہوئے تھیں۔ میڈیا میں اپنے انٹرویوز میں انہوں نے کئی بار کہا کہ وہ ہار ماننے کی بجائے لڑ کر زیر ہونا چاہیں گی۔ پچھلے منگل کو انہوں نے ایک بیان میں کہا کہ نواز شریف کو احتسابی عدالت میں پیش نہیں ہونا چاہیے اور نہ ہی احتساب کے جھانسے میں ذاتی و سیاسی انتقام کا شکار ہونا چاہیے۔ لیکن نہ تو نواز شریف 'لینن‘ ہیں اور نہ ہی مریم نواز 'روز الکسمبرگ‘۔ ان کے پاس دولت کے انبار ہیں۔ یہ اس نظام کی پیداوار اور اس سرزمین کے احساسات سے عاری بدعنوان اشرافیہ کا حصہ ہیں۔ شریف خاندان شاید پاکستانی بورژوازی کا سب سے سنجیدہ سیاسی نمائندہ ہے۔ لیکن بورژوازی کے اس حصہ کی اپنی ہی ریاست کے خلاف بغاوت‘ بحران کی اس شدت کا اظہار کر رہی ہے‘ جس میں سرمایہ دارانہ معاشی، سماجی اور ریاستی ادارے دھنس چکے ہیں۔ ماضی میں ریاست جس توازن پر قائم تھی، اب یہ ٹوٹ کر بکھر رہا ہے۔
شریف خاندان اور اس کے وفادار سیاستدان جس نہج تک اداروں پر حملہ کر رہے ہیں، وہ حیران کن ہے‘ لیکن اس سے بھی زیادہ باعث حیرت بات ان کے خلاف کسی قسم کی ایسی کارروائی سے ہچکچاہٹ ہے‘ جیسی ماضی میں بائیں بازو کے سرگرم کارکنان پر جبر اور قید کی انتہاؤں تک کی جاتی رہی ہے۔ یہ صورتحال اندورنی تضادات و بحران کی بھی غمازی کر رہی ہے۔ بڑھتے ہوئے تضادات کے ساتھ تذبذب بھی آشکار ہوتا جا رہا ہے۔ کارپوریٹ میڈیا بھی ریاست کا ایک فیصلہ کن 'ستون‘ بن چکا ہے اور نظام کے بالائی طبقے کے فیصلوں پر اثر انداز ہو رہا ہے۔ دولت کے ان داتا اب صرف سیاستدانوں پر پیسے نہیں برساتے بلکہ ان میں میڈیا انڈسٹری میں منافع بخش سرمایہ کاری کا بھی رحجان پروان چڑھ رہا ہے۔ اس ضمن میں میڈیا کے نواز شریف پر کیے جانے والوں حملوں سے بھی ملک کے حکمران طبقے میں پائے جانے والے تضادات کی سنگینی کا اندازہ ہوتا ہے۔ میڈیا کا یہ اوزار نہ صرف ان کی دولت کے ارتکاز کو تحفظ اور جواز فراہم کرتا ہے‘ بلکہ طاقتوں کے مراکز کو بھی ان کی طرف متوجہ کرواتا ہے۔
یہ روایتی مراکز بھی اب بھرپور انتشار کا شکار ہیں۔ ماضی میں صرف ایک سامراجی وحشی طاقت 'امریکہ‘ تھی‘ جس کی دخل اندازی سے کسی حد تک ریاست یکجا ہو جاتی تھی‘ اور سکوت کے ادوار میں سیاستدانوں کے اقتدار پر براجمان ہونے کے فیصلے کیا کرتی تھی۔ لیکن بہت سے اور ''دوست‘‘ بھی ہیں‘ جن کے متحارب مفادات ہیں اور ان کے تحفظ کی خاطر وہ پاکستان کے معاملات میں مداخلت کرتے ہیں‘ جس کے نتیجہ میں ملک کے مختلف سیاسی و سماجی ڈھانچوں میں ان کی لوکل پراکسیوں میں تضادات ابھر کر سامنے آتے ہیں۔ اسی طرح کالے دھن کی بھاری مداخلت بھی بگاڑ کی صورت پیدا کر رہی ہے۔ اسی لیے اداروں میں تذبدب اور کشیدگی نظر آتی ہے۔ کچھ دھڑے نواز شریف کو پاکستان کے سیاسی منظرنامے سے ہٹانے کے درپے ہیں جبکہ کچھ ایک قابل اعتماد پیادے سے محروم ہونے کے خوف کی وجہ سے زیادہ محتاط ہیں‘ اس لیے مزاحمت کر رہے ہیں۔ 
اس کا دوسرا پہلو نظام پر غلبے کی خاطر سامراجیوں اور دوسرے گروہوں کی متواتر بدلتی ہوئی وفاداریاں، سیاست اور ہر طرف پراکسیوں کی تبدیلیاں‘ ہے۔ مشرق وسطیٰ کی طرح پاکستان کے مظلوم عوام بھی سامراجیوں کے مفادات، سٹریٹیجک مفادات ‘خطے میں سیاسی اثر و اہمیت اور معدنیاتی دولت کی وجہ سے ان متحارب سرمایہ داروں کا نشانہ بن رہے ہیں‘ جس سے بلوچستان جیسے خطے تاراج ہو رہے ہیں۔ کالی معیشت کے غلبے نے اس بحران کو زیادہ شدید تر کر دیا ہے۔ نودولتیے سرمایہ دار جرائم پر مبنی کالے دھن کے ذریعے نام نہاد کلاسیکل بورژوازی پر مختصر دورانیے میں غلبہ حاصل کرنے کی تگ و دو میں ہیں۔ جرائم پر مبنی دولت کے ارتکاز میں اس بدعنوان بورژوازی کے گروہی تضادات کو حل کروانے کی کوشش کامیاب نہیں ہو پا رہی۔ عالمی سرمایہ داری کے بڑھتے ہوئے بحران نے اور پاکستان میں اس کے تاخیر زدہ کردار نے معاشی، سماجی، سیاسی اور معاشرتی انتشار کو جنم دیا ہے۔
معاشی و سماجی صورتحال میں کسی معنی خیز بہتری کے امکانات ناپید ہو چکے ہیں۔ ریاست و نظام کے اعلیٰ ماہرین میں مایوسی پائی جا رہی ہے۔ نواز شریف کے سیاسی حریف اور جماعتیں محض ان طاقتوں کی تعمیل کر رہی ہیں‘ لیکن اس صورتحال میں ان کی طاقت کے ایوانوں میں گنجائش نہایت ہی معدوم ہے۔ عام تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ خفیہ ادارے ہی الیکشنوں کے نتائج کا فیصلہ کرتے ہیں، یہ گورنمنٹ کو بناتے اور گراتے ہیں اور ملک میں جو کچھ بھی ہوتا ہے‘ انہی غائبی طاقتوں کی مرہون منت ہے۔ لیکن زمینی حقائق اس سے مختلف ہیں۔ یہ ادارے خاص طور پر الیکشنوں میں محدود حد تک اثر انداز ہو سکتے ہیں‘ اور وہ بھی سیاسی جمود کے ادوار میں ممکن ہو پاتا ہے۔ وہ سیاسی پارٹیاں‘ جو عوام میں اپنی ساکھ کھو بیٹھی ہیں‘ کسی بھی ہتھکنڈے کے زور پر بڑے پیمانے پر ووٹ حاصل نہیں کر سکتیں‘ اور نہ ہی اقتدار کے ایوان ان پر اس قسم کی مہربانی کرنے کے لیے تیار ہوں گے‘ اور وہ ایسا کریں بھی کیوں؟
اس اقتصادی و سماجی گراوٹ نے پاکستان کو ایک سیاسی پراگندگی اور نظام کو ایک گہرے انتشار کی جانب دھکیل دیا ہے۔ نظام زر کے محافظین اور اشرافیہ کی سیاست میں مداخلت کا حتمی مقصد عوام کو منظم شکل میں قابو رکھنے کے سوا کچھ نہیں۔ ایک عوامی بغاوت کی صورت میں حکمرانوں کی یہ تمام تر لڑائیاں اور مخالفتیں ہوا میں معلق ہو جائیں گی۔ لیکن موجودہ صورتحال یہ ظاہر کر رہی ہے کہ بہت بڑے پیمانے کی عوامی بغاوت اور مزاحمتی تحریکیں نہ ہونے کے باوجود حکمران طبقات سیاسی و سماجی توازن برقرار رکھنے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکے ہیں۔ لینن نے اپنی شہرہ آفاق تصنیف 'سامراج‘ سرمایہ داری کی آخری منزل‘ میں لکھا تھا ''یہ مالیاتی سرمائے اور اجارہ داریوں کا دور ہے، جس نے ہر طرف غلبے کی روش متعارف کروائی، نہ کہ آزادی کی۔ ہر سیاسی نظام میں ان رجحانات کا حتمی نتیجہ صرف رجعت پرستی اور سیاست و ریاست میں تنازعات کی انتہائی شدت ہے‘‘۔
اس امر کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ محنت کش عوام کو اس نظام کی سیاست اور اس کے سٹرکچر سے کوئی امید نہیں رہی۔ اور یہ واضح نظر بھی آ رہا ہے۔ نوازشریف رہیں یا نہ رہیں، لیکن حکمران طبقہ ایک صحتمند، خوشحال، پُرامن اور مستحکم معاشرے کا قیام عمل میں نہیں لا سکتا۔ اس کی معاشی بنیادیں متضاد، بدعنوان اور بوسیدہ ہو چکی ہیں۔ سوسائٹی کی کوکھ میں بے چینی اور عدم اطمینان کا لاوا کھول رہا ہے اور اس کی تپش اس نظام کی حکمرانی کو تہہ و بالا کر رہی ہے۔ بحران کی شدت کے ساتھ محنت کشوں کی شریانوں میں ابلتی ہوئی یہ بغاوت گلیوں اور چوراہوں میں پھوٹے گی‘ اور پھر ان مظلوم عوام کی سیاست اور ان کے نظام کا آغاز ہو گا۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں