"DLK" (space) message & send to 7575

کردستان کا ریفرنڈم!

پاکستان کی وزارت خارجہ نے پیر کے روز کردستان میں ''علیحدگی و آزادی‘‘ کے مسئلہ پر ہونے والے ''ریفرنڈم‘‘ کو غیر قانونی اور ''عراق کی سالمیت‘‘ پر وار قرار دیا ہے۔ مشرقِ وسطیٰ میں ہزاروں سال سے مختلف قوموں، نسلوں، فرقوں، قبائل اور مذاہب پر مبنی آبادیاں پائی جاتی رہی ہیں‘ لیکن حالیہ چند دہائیوں میں نسلی، مذہبی اور قومیاتی تعصبات اور تضادات میں شدت آ گئی ہے۔ کرد آبادی ایران، شام، عراق، ترکی، لبنان اور دوسرے علاقائی ممالک میں اقلیت کے طور موجود ہے۔ ترکی میں کردوں کی تاریخ کئی دہائیوں پر مبنی ہے۔ جبر و استحصال اور سیاسی و عسکری تصادم کی طویل تاریخ۔ اسی طرح ایران میں بھی کردوں میں علیحدگی کے رجحانات اور استحصال کا جبر شاہ کے دور سے جاری ہے۔
2003ء میں امریکی سامراج کی عراق کو ''آزادی اور جمہوریت‘‘ دلوانے والی جمہوریت نے عراق کو اتنا تاراج کیا ہے کہ اس کی ریاست درحقیقت ٹوٹ گئی ہے اور مختلف نسلوں، مذاہب، فرقوں اور قومیتوں نے اپنی نیم خود مختار ریاستیں کم از کم کاغذی طور پر بنائی ہوئی ہیں۔ امریکی سامراجیوں نے عراق میں لاکھوں کا قتل عام کرکے نہ صرف دریائے دجلہ و فرات کے پانیوں کا رنگ سرخ کر دیا بلکہ عراق کی سالمیت کو بھی تار تار کر دیا ہے۔ عراق کی فوج اور ریاست کے بکھر جانے اور کسی طبقاتی یکجہتی و تحریک کے فقدان کی کیفیت میں زیادہ طاقتور گروہوں نے مختلف حصوں پر قبضہ کرکے اپنی حکمرانیاں قائم کر لی ہیں۔
ان میں بصرہ میں مقتدیٰ الصدر اور عراقی کردستان میں مسعود بارزانی نے اپنی حاکمیت اربیل کے شہر میں قائم کی۔ لیکن اس کے ماتحت کرد ملیشیا نے ایسے علاقوں پر بھی قبضہ کر لیا جہاںکرد آبادی کی اکثریت نہیں تھی۔ اس میں سب سے کلیدی کرکوک کا شہر اور ضلع ہے‘ جہاں تیل کے بہت بڑے ذخائر ہیں۔ داعش کی پسپائی اور شکست کے آثار نمایاں ہو ہی رہے ہیں کہ عرب اور کرد ملیشیا دستے‘ جو مشترکہ طور پر داعش کے خلاف برسرِ پیکار تھے‘ باہمی مسلح تصادم کی جانب تیزی سے بڑھنا شروع ہو گئے ہیں۔ داعش کی پہلی بڑی شکستوں کے بعد مسعود بارزانی‘ جو طویل عرصے سے عراقی کردستان کا صدر چلا آرہا ہے‘ نے 25 ستمبر کو کردستان کی آزادی کے ریفرنڈم کا اعلان کر دیا۔ اس اعلان کے خلاف عراق کے صدر حیدرالعبادی نے بیان دیا کہ یہ ریفرنڈم عراق کی (یوٹوپیائی) سالمیت کے برعکس ہے۔ اس بیان کے بعد اس نے بھی اپنی خستہ حال فوجوں کے کچھ دستے کرد حصوں کے سامنے مخمور کے شہر بھیج دیئے‘ لیکن اگر کردستان کی نیم خود مختار صوبائی حکومت (جس پر مسعود بارزانی 2004ء سے حکمرانی کر رہا ہے) کا جائزہ لیا جائے تو اس کا دیوالیہ نکل چکا ہے۔ کرد عوام اس حکومت کے تحت بھی شدید اقتصادی اور سماجی محرومی کا شکار ہیں۔ اس کی امریکی حمایت یافتہ ''پیش مرگہ‘‘ ملیشیا فورس مختلف خاندانی دھڑوں کے جنگجو سرداروں کے درمیان بٹی ہوئی ہے۔ بارزانی دو مرتبہ انتخابات ملتوی کرکے اپنی صدارت کے دور کو طوالت دے چکا ہے۔ اس ریفرنڈم کا مقصد بھی قومی شائونزم ابھار کر اپنی حاکمیت کو طول دینا لگتا ہے۔ ریفرنڈم کے بعد بارزانی نے اعلان کیا ہے کہ ''آزادی‘‘ کے حق میں 92 فیصد ووٹ حاصل ہوئے ہیں‘ لیکن اس نے یہ بھی کہا کہ اس کا مقصد حتمی آزادی اور علیحدگی کا اعلان کرنا نہیں‘ بلکہ اس سے اجازت لے کر مذاکرات کے ذریعے مزید خود مختاری بھی حاصل کی جا سکتی ہے۔ امریکی جارحیت سے قبل عراق میں کردوں کا سب سے بڑا شہر بغداد تھا۔ لیکن اس کی بربادی کے بعد جہاں دوسری قومیتوں کے عوام منتشر ہوئے وہاں کُرد آبادی کا بڑا حصہ بغداد سے فرار ہو کر شمال کی جانب ہجرت کر گیا۔ کردستان کے دارالحکومت اربیل میں عرب اور ترکمن باشندوں کی بڑی تعداد قیام پذیر ہے‘ جو نفسیاتی خوف و ہراس کا شکار ہیں۔ پہلے اربیل سے بھرے ہوئے جہاز جاتے رہے لیکن ریفرنڈم پر کرکوک اور اربیل کے ہوائی اڈوں پر پابندیاں لگائی جا رہی ہیں۔ ریفرنڈم ''جیتنے‘‘ کے بعد بارزانی‘ عراق اور کرد آبادیوں والے ممالک سے لین دین کرے گا۔ مغربی سامراجی بھی اسی قسم کی '' ڈیل‘‘ کروانے کی کوششیں کریں گے۔ صوبائی حکومت پر کرکوک کا تیل خود بیچنے پر جو پابندیاں لگائی گئی تھیں‘ ان کو اٹھوانے اور ''پیش مرگہ‘‘ ملیشیا کو شیعہ ملیشیائوں کی طرح عراق کی فوجی تنخواہیں دینے کے مطالبات بھی پیش کرے گا۔ مغربی حکمران آنے والے نومبر میں کردستان کے انتخابات کو ایک بار پھر ملتوی کرنے اور بارزانی جیسے جنگجو سردارکے صدر بنے رہنے کو قبول بھی کر لیں گے۔ 
المیہ یہ ہے کہ کردوں کی قومی آزادی کی تحریک کئی نسلوں پر مبنی ہے اور جس میں بے پناہ قربانیاں ہیں لیکن اب اس ''قومی مسئلہ‘‘ کو کرد حکمران طبقات کے سیاستدان اور سردار اپنے مفادات کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ ان کا مذموم مقصد کرکوک کے تیل کے کنوئوں پر سودے بازی سے بھاری رقوم اینٹھنا ہے۔ بارزانی نے ریفرنڈم چاہے اپنے مفادات کے لئے کروایا تھا‘ لیکن اس سے ترکی، ایران اور دوسرے ممالک میں رہنے والے کرد باشندوں میں ایک نئی ہلچل ابھری ہے۔ ترکی اور ایران کی ریاستوں نے تیل کی سپلائی روکنے اور ہر قسم کی پابندیاں لگانے کی دھمکی دی ہے۔ ایران میں اس ریفرنڈم کے حق میں ہونے والے بڑے مظاہروں پر فضائیہ کے لڑاکا طیاروں نے نیچی پروازیں کرکے ان کو خوفزدہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ جبکہ ترکی نے کرد علاقوں میں بڑی فوجی مشقوں کا شدت سے آغاز کر دیا ہے۔ جہاں یورپ اور امریکی سامراجیوں نے ریفرنڈم کی ظاہری نیم مخالفت کی ہے‘ 
وہاں اسرائیلی صیہونی ریاست نے ریفرنڈم اور ''آزاد کردستان‘‘ کی حمایت کا اعلان کر دیا ہے۔ پہلے سے فرقہ وارانہ اور قومی جنگوں اور بربادیوں کا شکار مشرقِ وسطیٰ اب ایک نئے تضاد سے ابھرنے والی خونریزی اور تصادم کے بھیانک امکان کا سامنا کر رہا ہے۔ کردوں کی قومی آزادی کا جائزہ لیا جائے تو یہ کہیں زیادہ پیچیدہ ہے۔ اس میں ایک ریاست کا جبر نہیں بلکہ چار پانچ ریاستوں کو شکست دے کر ہی کردوں کو ایک قوم کے طور پر اکٹھا کیا جا سکتا ہے اور ایک حقیقی کرد ریاست بنائی جا سکتی ہے۔ اس کے معنی ایک لامتناعی خونریزی کا آغاز ہے۔ پہلے سے موجود ریاستیں اپنے اقتصادی نظاموں کے بحرانوں کی وجہ سے زیادہ سے زیادہ ظالم اور قومی جبر و استحصال کی مرتکب ہو رہی ہیں۔ یہ اقدامات ہی ان ریاستوں کی تاریخی متروکیت کی علامت ہیں۔ پہلے سے موجود ریاستیں کوئی استحکام، خوشحالی اور قومی حقوق دینے سے قاصر ہیں جبکہ نئی ریاستیں جن اقتصادی بنیادوں پر جنم لینے کی کوششیں کر رہی ہیں وہ انتہائی بدعنوانی، لوٹ کھسوٹ اور مختلف سامراجوں کی گماشتگی پر مبنی ہیں۔ اس پس منظر میں ایسے محسوس ہوتا ہے کہ پورے خطے کی ایک نئی سامراجی بندر بانٹ کے عزائم کیے گئے ہیں۔ پہلی عالمی جنگ کے بعد مغربی سامراجیوں نے بندر بانٹ سے پورے خطے کوخوب لوٹا تھا‘ لیکن ان نئی مصنوعی ریاستوں کے قیام کا انجام ہمارے سامنے ہے۔ پورا مشرقِ وسطیٰ آگ اور خون میں ڈوبا ہوا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ آج صرف مغربی نہیں بلکہ مشرقی سامراجی بھی اس بندر بانٹ میں حصہ داری کے لئے برسر پیکار ہیں۔ عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے زوال کے عہد میں سامراجی جس بحران کا شکار ہیں اس کے نتیجے میں ان کی سفارت کاری زیادہ تباہ کن ہے۔ خطے میں سامراجیوں کی باہمی لڑائیوں سے مزید خون خرابہ ہی ہو گا۔ ان سامراجی جارحیتوں کو شکست دینے کے لئے خطے کے محنت کشوں اور عام لوگوں کو مقامی ایجنٹوں اور دولت کے پجاریوں، قوم پرستی اور مذہبی ٹھیکے داری کرنے والے حکمرانوں کے تخت بھی اکھاڑنا ہوں گے۔ یہ انقلابی جنگ مشرقِ وسطیٰ کی تمام قوموں، نسلوں، مذہبوں، فرقوں اور ملکوں کے محنت کش ایک طبقاتی یکجہتی میں باہمی جڑت سے ہی جیت سکتے ہیں۔ ورنہ بربریت کا ننگا ناچ خطے میں شروع ہو چکا ہے جو عظیم تاریخی تہذیب کو نیست و نابود کر سکتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں