"DLK" (space) message & send to 7575

جوہری معاہدے کو لاحق خطرات؟

13 اکتوبر کی شام کو ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ دھمکی دی کہ وہ امریکہ سمیت چھ ''بڑی‘‘ طاقتوں کے ایران کے ساتھ کیے جانے والے جوہری پروگرام کے معاہدے کی سہ ماہی توسیع ہی نہیں کریں گے اور اس کو منسوخ بھی کرسکتے ہیں۔اس سے خطے میںاور بین الاقوامی تعلقات میں مزید تنائو پیداہو گیا ہے ۔ یہ معاہدے 12سال کے طویل مذاکرات کے بعد جولائی2015ء میں آسٹریا کے دارالحکومت ویانا میں طے پائے تھے۔ 16 اکتوبر کو لکسمبرگ کے بند کمرے میں یورپین یونین کے وزرائے خارجہ کے اجلاس کے بعد جاری کردہ اعلامیے میں ان ممالک کی طرف سے 2015ء کے معاہدے کی حمایت کا ایک مرتبہ پھر اعادہ کیاگیاہے ۔ انہوںنے امریکی کانگریس اور ایوانِ بالا‘ سینیٹ کے اراکین پر زور دیا کہ وہ ایران پر دوبارہ ''پابندیاں‘‘ عائدنہ ہونے دیں۔ یورپ کی سب سے بڑی طاقت جرمنی کے وزیر خارجہ سگمار جبریل نے اخبار نویسوں سے کہا کہ یورپی ممالک مجموعی طو رپر اس تشویش کا شکار ہیں کہ'' امریکی صدر کا یہ فیصلہ ایران کے ساتھ عسکری تصادم کے خطرات کو بڑھاوا دے گا‘‘۔یورپی سامراجی اتنے بھی امن کے دلدادہ نہیں ‘ جتنا وہ ناٹک کرتے ہیں۔اس''امن کے معاہدے‘‘ کے پیچھے ان کے مالیاتی مقاصد اور سامراجی اقتصادی عزائم ہیں۔وہ ان معاہدوں کے ذریعے ایران کی 400 ارب ڈالر سے زائدکی منڈی کے کھلنے سے بحران زدہ یورپی سرمایہ داری کو کچھ معاشی آسرا دلوانا چاہتے ہیں ۔ اس معاہدے کے بعد پچھلے 18 ماہ میں فرانس کی تیل کی اجارہ دار کمپنی اور ہوائی جہاز بنانے والی کارپوریٹ فرم 'ائر بس‘ نے ایران میں بھاری سرمایہ کاری کی ہے۔ اسی طرح جرمنی کی دیوہیکل کمپنی 'سیمنز‘جو الیکٹرک آلات سے لے کر جنگی سازوسامان تک کئی مصنوعات بناتی ہے‘ نے اپنے گرتے ہوئے منافعوں کو سنبھالا دینے کے لئے ایران کی منڈی پر سرمایہ کاری کے ذریعے دھاوا بولنے کی کوشش کی ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی یہ ہلڑ بازی بھی اتنی بے معنی اور دیوانگی پر مبنی نہیں ہے جتناتاثروہ خود یا کارپوریٹ میڈیا عوام کو پیش کرتا ہے۔ اس معاہدے سے ایرانی اشرافیہ کی سرمایہ دارانہ معیشت کو بھی آسرا ملا تھا جس سے اس خطے میں ان کے سامراجی عزائم کو تقویت مل رہی تھی۔ ٹرمپ‘ سعودیہ اور مشرقِ وسطیٰ کے پرانے حلیفوں کے ذریعے اپنا پراکسی سامراجی تسلط قائم کرنا چاہتا ہے لیکن ایران کی بڑھتی ہوئی قوت اس کے عزائم کے لئے ایک کانٹا بنی ہوئی ہے۔ ایران کی اس قوت میں مزید اضافہ امریکی سامراجی مفادات کو زیادہ ٹھیس پہنچانے کا سبب بن سکتا ہے۔ حال ہی میں عراق میں شروع ہونے والے نئے تصادموں اور مختلف علاقوں پر متحارب فریقوں کے قبضوں کی کشمکش کا تیز ہوجانا اس کا واضح اظہار ہے۔ داعش کی شکست ابھی مکمل بھی نہیں ہوئی ہے کہ اس کے خلاف لڑنے والے اتحادیوں کے درمیان تصادم شروع ہوگیا ہے۔ اس لڑائی میں ایران کا بڑھتا ہوا عسکری کردار امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے لئے بہت بڑی رخنہ اندازی اور مفادات کے حصول میں ناکامی کا باعث بن رہا ہے ۔ یہ اس تنائو کے شدت پکڑنے کااہم عنصر ہے جس کی وجہ سے ٹرمپ نے اس معاہدے کو کالعدم قرار دینے کی دھمکی دے دی ہے جبکہ انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی (IAEA) نے اپنی حالیہ رپورٹ میں بھی یہ واضح کیا ہے کہ ایران معاہدے کی شرائط پر پورا اتر رہا ہے۔ اقوام متحدہ سمیت بڑی طاقتوں کے اس معاہدے پر دستخط کنندہ ہونے کے باوجود ٹرمپ کی یہ دھمکی عالمی سفارتی تنازعات کو وسیع کررہی ہے۔لیکن ٹرمپ ایران کی
بڑھتی ہوئی مداخلت کو برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں ۔
جب سے کردستان کے ریفرنڈم کا اعلان ہوا ہے اور عراق کے صدر حسن العبادی نے عراقی فوجوں کو بھیج کر کرکوک کے تیل کے کنوئوں، فوجی بیس اور گورنر شپ کے ایوانوں پر قبضہ کروانا شروع کردیاہے۔ امریکی سفارتکاروں نے کردوں کے صدر مسعود بارزانی اور العبادی کے درمیان مذاکرات کی تیز ترین کوششیں جاری رکھی ہوئی ہیں ‘لیکن ٹرمپ کا یہ اعلان ان کاوشوں پر کاری ضرب ثابت ہوا ہے۔ ٹرمپ ایران کی اسلامی انقلابی گارڈز(IRGC) کو بھی ایک دہشت گرد تنظیم قرار دے رہے ہیں۔ ان گارڈز نے جوابی ردعمل کے طور پر کرکوک میں کرد پیش مرگہ ملیشیا کے خلاف لڑائی میں عراقی فوج کے ساتھ سرگرم کردار ادا کرنا شروع کردیا ہے۔ یہ نئی خونریزی نہ جانے مزید کتنی بربادیوں کا سبب بنے گی۔ایرانی جنرل قاسم سلیمانی اس حملے سے قبل عراق پہنچ چکا تھا۔وہ امریکی حمایت یافتہ لوگوں پر حملے کی سربراہی کر رہا ہے۔ جنرل سلیمانی یہ ثابت کرنے کی کوشش کررہا ہے کہ جہاں ٹرمپ زبانی کلامی دھمکیاں دے رہا ہے‘ وہاں ایران تیزی سے عملی اقدامات کرکے اس کا جواب دے رہا ہے۔
ٹرمپ کے اس اعلان سے جہاںیورپی سامراجی ناخوش محسوس ہوتے ہیں وہاں امریکی ریاست کے مختلف دھڑوں کے باہمی تضادات بھی تیزی سے بڑھ رہے ہیں ۔ لیکن اسرائیل اور بعض عرب ممالک ٹرمپ کے اس بیان سے
بہت خوش ہیں‘کیونکہ خطے میںان کے تسلط کا براہ ِ راست ایرانی تسلط سے تصادم بن رہا ہے‘ لیکن چونکہ امریکہ ،یورپ اور ایران سمیت دیگر ممالک میں سرمایہ دارانہ نظام شدید بحران کا شکار ہے اس لیے یہ اقتصادی بحران ناگزیر طور پر سیاسی اور سفارتی انتشار کو جنم دے رہا ہے۔ اس میں الحاق، دوستیاں، دشمنیاں اور وفاداریاں بدلنے میں زیادہ وقت نہیںلگتا ۔ امریکہ کے داخلی تضادات کی طرح ایران کی حاکمیت میں بھی موجود تضادات تنازعات میں بدل سکتے ہیں ۔ ایران کے موجودہ صدر حسن روحانی کا تعلق اصلاح پسند حصے سے ہے۔ ایران دنیا کی واحد ریاست ہے جس میں دو طرز کی حاکمیت ہے۔ ایک طرف انتخابات سے قائم ہونے والی کنٹرولڈ جمہوریہ کی حکومت ہے جبکہ دوسری جانب مذہبی طبقے کا ریاست پر حاوی کنٹرول ہے۔ یہ دونوں ڈھانچے ایک حاکمیت میں چل رہے ہیں۔ 
حکمران دھڑا ایران کی منڈی اور سرمایہ داروں کو عالمی معیشت اور مغرب سے تجارت کے لئے استوار کرناچاہتا ہے‘ جبکہ دوسرا دھڑااس کو ریاستی کنٹرول میں چلانا چاہتا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ اسی نظام کے ہی تحت امریکہ کے محنت کشوں کے حالاتِ زندگی بدتر ہورہے ہیں اور ایران میں بھی بے پناہ غربت ہے۔ حکمرانوں کی تمام تر دوستیاں‘ دشمنیاں اورمختلف سیاسی یا عقائد کے ڈھونگ محض ان تنازعات کے ذریعے محنت کشوں کی یکجہتی کو توڑنے اور معاشرے میں زیادہ سے زیادہ استحصال سے دولت کے اجتماع کے علاوہ کچھ نہیں ہیں۔ 
بڑھتی ہوئی محرومی وذلت میں عام انسان اس سرمائے کے جبر کی آمریت اور لوٹ گھسوٹ کو برداشت نہیں کریں گے۔لیکن اگر ٹرمپ اور امریکی کانگریس دوبارہ پابندیاں عائد کرتے ہیں تو یہ بیرونی دبائو ایران کے حکمران دھڑوں میںاختلافات کو تیزکردے گا۔ اس کو روحانی کی ناکامی قرار دیا جائے گااور سخت گیر حصے کی گرفت''جمہوریہ‘‘ پر بھی مسلط ہوجائے گی۔ ا س سے نہ صرف داخلی جبر بڑھے گا بلکہ بیرونی جارحیتیں اور تصادم بھی ناگزیر طور پر شدت اختیار کریں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں