"DLK" (space) message & send to 7575

ہریالی کے دشمن

پختونخوا کی زرعی یونیورسٹی کے ماہرین کے 4 دسمبر کو ایک رپورٹ میں تشویش کا اظہار کیا ہے کہ 'ہائوسنگ کالونیاں‘ وادیء پشاور اور صوبے کے دوسرے علاقوں میں ہریالی کو تاراج کر رہی ہیں اور ان کے پھیلائو سے اس خطے کی زرخیز ترین زمینوں کو بنجر بنایا جا رہا ہے۔ اس تحقیق میں یہ حقیقت بھی سامنے آئی کہ زراعت کی اس بربادی سے ماحولیات پر تباہ کن اثرات مرتب ہو رہے ہیں اور یہ تباہی آلودگی میں اضافے کی سب سے بڑی وجہ بن رہی ہے۔ یہ لہلاتی فصلیں اور سرسبز جنگلات آکسیجن پیدا کرنے، سیلابوں سے بچائو اور ماحول کی صفائی میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ اب انہیں تاراج کرکے ان زمینوں کو آلودگی پیدا کرنے والے لوہے اور کنکریٹ کے جنگلات میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔ یہ تحقیق اگرچہ پختونخوا کے بارے میں ہے لیکن یہ مسئلہ پاکستان اور کشمیر کے ہر علاقے میں سنگین شکل اختیار کر چکا ہے‘ اور انسانی زندگی کے لئے مناسب ماحول کو برباد کرتا چلا جا رہا ہے۔ ہمالیہ کی گود میں کشمیر کے سرسبز پہاڑوں سے لے کر شفاف اور تازہ ہوا والے ریگستانوں تک میں بھی بے ہنگم کالونیوں اور پلاسٹک کے لفافوں نے غلاظت کا سیلاب برپا کیا ہوا ہے۔ کوئٹہ جیسے شہر‘ جو کبھی صحت افزا مقامات کے طور پر جانے جاتے تھے‘ آج دنیا کے آلودہ اور غلیظ ترین شہروں میں شمار ہونے لگے ہیں۔ کراچی میں کوڑے کے ڈھیر اب ایک معمول بن چکے ہیں۔ لاہور کے بیشتر غریب علاقوں میں بھی یہی صورتحال ہے۔ اورنج لائن ٹرین کے منصوبے میں رکاوٹیں ڈال کر ان علاقوں کے عوام کو تیزی سے چھاتی کی بیماریوں اور کینسر کا شکار بنا دیا گیا ہے۔ عدالتی فیصلے کی وجہ سے تعمیر کا کام رُکا ہوا ہے اور انتہائی زہریلی دھول پوری فضا پر چھائی ہوئی ہے۔ ماضی کے شاہی خاندانوں کی یادگاریں، جن کی 'حفاظت‘ کے پیش نظر یہ منصوبہ تعطل کا شکار ہے، آج کے انسانوں کی زندگیوں کو بھی عذاب بنائے ہوئے ہیں۔ سندھ میں حکمرانوں کو حصہ دینے والے ٹھیکیداروں اور پراپرٹی ٹائیکونوں کی محلاتی سکیموں نے غریبوں کی بستیاں اجاڑ دی ہیں۔ بمبئی اور دہلی کی جھونپڑ پٹیوں کی طرح یہاں بھی 'بلڈرز‘ نادار ہاریوں‘ غریبوں کے گھروندوں کو بلڈوزروں سے مسمار کرتے جا رہے ہیں۔ 
وسیع بیروزگاری، کام کے اذیت ناک اوقات کار اور انتہائی قلیل اجرتیں، ملازمتوں سے بے دخلی اور انسانی محنت کا بدترین استحصال ایسے موضوعات ہیں‘ جو آج کل کے میڈیا دانشوروں، تجزیہ کاروں اور سول سوسائٹی کے مباحث میں جگہ نہیں پاتے۔ لیکن ماحولیات کا مسئلہ عام طور پر عالمی و ملکی کارپوریٹ میڈیا اور سول سوسائٹی میں اکثر اٹھایا جاتا ہے۔ بات یہ ہے کہ حکمران طبقات اور مڈل کلاس کے بالائی حصوں کے افراد چاہے 'پوش‘ ہائوسنگ سوسائٹیوں میں اونچی اونچی دیواروں کے اندر اپنے محلات میں دنیا کی ہر سہولت اور عیاشی سے لطف اندوز ہوتے رہیں، اِس فضائی آلودگی سے بہرحال بچ نہیں سکتے۔ یہی وجہ ہے کہ ماحولیاتی آلودگی اور ہم جنسیت وغیرہ کے موضوعات پر مغربی ذرائع ابلاغ اور یہاں کی سول سوسائٹی کے ادارے زیادہ زور دیتے ہیں۔ لیکن یہ تمام تجزیہ نگار اور ماہرین بھی اس آلودگی کے خاتمے کے لئے جو حل پیش کرتے ہیں‘ وہ انتہائی سطحی ہیں، جن سے یہ مسئلہ حل ہوا ہے نہ ہو سکتا ہے۔ دوسری جانب قبضہ گروپوں اور چائنہ کٹنگ وغیرہ کا بہت شور ضرور ہے لیکن کوئی ٹھوس اقدام اس لئے نہیں کیا جا سکتا کہ یہ لینڈ اور بلڈرز مافیا سیاست اور ریاست میں اتنی 'سرمایہ کاری‘ کرتا ہے کہ نسلیں گزر جاتی ہیں لیکن اِس نظام انصاف میں کوئی فیصلہ نہیں آتا۔ دولت اور طاقت کی قانون پر اتنی کڑی گرفت ہے کہ یہاں صرف وہی زیر عتاب آتے ہیں‘ جن کی مقتدر قوتوں سے چپقلش ایک حد سے آگے بڑھ جاتی ہے۔ اِس ملک میں معاشی، سماجی، ریاستی، فرقہ وارانہ اور نسلی دہشت گردی تیز ہوتی جا رہی ہے‘ لیکن ذکر صرف ایسے واقعات کا ہی ہوتا ہے جو دھماکہ خیز ہوں۔ یہاں کروڑوں انسان غربت، مہنگائی‘ بیروزگاری، بھوک اور افلاس کی دہشت گردی کا شکار ہیں۔ اس بارے میں شور آلود ٹاک شوز خاموش رہتے ہیں۔ اخباروں میں بھی کم ہی ذکر ہوتا ہے جبکہ وسیع تر خلق نسل در نسل اس دہشت گردی کا شکار ہے۔ اِس دہشت گردی کا ذکر اِس لئے نہیں ہوتا کہ اِس سماج کے ہر شعبے پر وہی طبقات حاوی ہیں جن کی ہوس اِن بربادیوں کا سبب ہے۔ منڈی کی اس معیشت میں ہر ادارہ اور کاروبار دولت سمیٹنے کی اندھی دوڑ میں بھاگ رہا ہے۔ منڈی کا یہ نظام انسانوں کی ضروریات پوری نہیں کرتا بلکہ ان میں سلگتی ہوئی خواہشات پیدا کرکے زندگیوں کا مقصد ان کا تعاقب بنا دیتا ہے۔ اِس کاروبار میں انسانی زندگیاں برباد کی جا سکتی ہیں تو لہلاتے اور سرسبز کھیتوں اور زرخیز زمینوں کی اوقات ہی کیا ہے۔ یہ تعمیرات بھی کسی منصوبہ بندی سے عاری ہیں‘ اور اِن کا مقصد زیادہ سے زیادہ منافع کا حصول ہی ہوتا ہے۔ ہائوسنگ سوسائٹیوں میں ان دھنوانوں کو ایک اور اہم فائدہ بھی حاصل ہے۔ ان میں صبح پلاٹ خرید کر شام کو بیچے جا سکتے ہیں۔ چند گھنٹوں میں لاکھوں کروڑوں اینٹھے جا سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کالے دھن کا بڑا زور اور استعمال اسی شعبے میں ہوتا ہے۔ فوری منافع کی وصولی بھی ہوتی ہے اور اس ڈرائی کلیننگ سے کالا دھن بھی پاکیزہ، سفید اور 'مخیر‘ ہو جاتا ہے۔ لیکن جس طرح یہ اس دھرتی کو بانجھ اور تاراج کر رہے ہیں‘ انہیں اِس نسل کی کوئی فکر نہیں ہے تو آئندہ نسلوں کی کیسے ہو گی۔ آبادی کا بھاری حصہ جن غلیظ شہری محلوں اور دیہاتوں میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے‘ اس سے منڈی کے اِن سوداگروں کو کوئی غرض ہے نہ وہ کوئی شرمندگی محسوس کرتے ہیں۔ جوں جوں اس نظام کا بحران بڑھتا ہے‘ منافع خوری کی ہوس بھی بڑھتی جاتی ہے۔ یہ دھنوان اِس اندھی جارحیت میں پورے خطے کو تاراج کرتے جا رہے ہیں‘ لیکن اس نظام میں نہ اس ہولناک واردات میںکوئی ٹھہرائو آ سکتا ہے نہ اِس کا کوئی سدباب ہو سکتا ہے۔ اِس وقت پاکستان میں جنگلات کاٹنے کی رفتار پورے ایشیا میں سب سے زیادہ ہے، جنگلات کے خاتمے کی شرح 2.1 فیصد سالانہ ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق عالمی سطح پر 18 ملین ایکڑ جنگلات ہر سال برباد کیے جا رہے ہیں۔ یعنی ہر ایک منٹ میں 139 ایکڑ جنگلات کا صفایا کیا جا رہا ہے۔ سیات اور ریاست کے انتشار کی طرح بے ہنگم تعمیرات کا انتشار بھی اس نظام کے موضوعی بحران کی پیداوار ہے۔ جب تک اِس منافع خوری کے نظام اور منڈی کی معیشت کا خاتمہ نہیں ہوتا، کسی شعبے کا ارتقا منصوبہ بندی، ترتیب اور تہذیب کے ساتھ ممکن نہیں ہے۔ منڈی اور منافع سے پاک منصوبہ بندی کے تحت جب تک پیداوار انسانی ضروریات سے ہم آہنگ نہیں ہوتی، یہ معاشرہ کبھی سنور نہیں سکتا، تہذیب اور تمدن کو کبھی جلا نہیں بخشی جا سکتی، انسانی رشتے کبھی مخلص نہیں ہو سکتے اور انسان کے ہاتھوں انسان کے استحصال کا خاتمہ نہیں ہو سکتا۔ حقیقی معنوں میں ایک خوشحال سماج اور سہل اجتماعی زندگی کا حصول صرف ایک منصوبہ بند سوشلسٹ معیشت اور معاشرت سے ہی ممکن ہے۔

اِس وقت پاکستان میں جنگلات کاٹنے کی رفتار پورے ایشیا میں سب سے زیادہ ہے، جنگلات کے خاتمے کی شرح 2.1 فیصد سالانہ ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق عالمی سطح پر 18 ملین ایکڑ جنگلات ہر سال برباد کیے جا رہے ہیں۔ یعنی ہر ایک منٹ میں 139 ایکڑ جنگلات کا صفایا کیا جا رہا ہے۔ سیات اور ریاست کے انتشار کی طرح بے ہنگم تعمیرات کا انتشار بھی اس نظام کے موضوعی بحران کی پیداوار ہے۔ جب تک اِس منافع خوری کے نظام اور منڈی کی معیشت کا خاتمہ نہیں ہوتا، کسی شعبے کا ارتقا منصوبہ بندی، ترتیب اور تہذیب کے ساتھ ممکن نہیں ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں