46 سال قبل آج ہی کے روز جب پلٹن میدان ڈھاکہ میںجنرل امیر عبداللہ نیازی نے جنرل اروڑا کے سامنے ہتھیار ڈالے اور بنگال کی پاکستان سے علیحدگی کے اس پورے عمل میںجو واقعات رونما ہوئے‘ ان کی تشریح اِس خطے کی ریاستوں اور سامراج کے مؤرخین نے اپنے اپنے حکمران طبقات کے مفادات کے تحت کی‘ لیکن بنگال اور پاکستان کے استحصال زدہ عوام کے آپسی رشتوں کو سرکاری مؤرخین نے بڑی مکاری سے نظر انداز کیا۔ چند ہی ایسی تصانیف ہیں جو اِس سارے عمل میں اُس وقت کے مشرقی و مغربی پاکستان میں عوام کی تحریک، قیادت کے فقدان یا انحراف اور نتیجتاً اِس تحریک کی بدلتی سمت، خانہ جنگی، جنگ اور سقوط کا جائزہ لیتی ہیں۔ قیادت کی یہ خطائیں اور نظریاتی کمزوریاں نہ ہوتیں تو آج اِس خطے کی تاریخ اور جغرافیہ بالکل مختلف ہوتا۔ انہی میں سے ایک اہم کتاب 'لارنس لفسشلٹز‘ کی ''Bangladesh: The Unfinished Revolution‘‘ ہے۔
اگر ہم اُس دور کے حالات کا جائزہ لیں تو 1967ء تک پورے خطے میں دھماکہ خیز واقعات جنم لے رہے تھے۔ 1968ء میں پاکستان میں طبقاتی بنیادوں پر ایک انقلابی تحریک ابھری تھی۔ پاکستان کی اُس وقت تک کی 21 سالہ تاریخ میں پہلی مرتبہ مشرقی اور مغربی پاکستان کے محنت کش اور عام لوگ حقیقی معنوں میں یکجا ہوئے تھے۔ اِس تحریک کے اغراض و مقاصد اور مطالبات ان سلگتے ہوئے مسائل کے حل پر مبنی تھے جو برصغیر کی آزادی کے بعد زیادہ اذیت ناک اور گمبھیر ہو گئے تھے۔ یہاں روٹی، کپڑا اور مکان، تعلیم، علاج اور روزگار جیسی بنیادی ضروریات کے حصول کی جنگ شروع ہوئی تھی۔ پشاور سے لے کر چٹاگانگ تک ایک ہی نعرہ گونج رہا تھا: سوشلزم! مشرقی پاکستان میں اس تحریک کے رہنما کے طور پر مولانا عبدالحمید بھاشانی (جو نیشنل عوامی پارٹی کے چیئرمین اور ایک کمیونسٹ تھے) ابھرے جبکہ مغربی پاکستان میں سوشلسٹ انقلاب کا پروگرام دینے والی پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو نے اِس عوامی بغاوت کی قیادت حاصل کر لی۔ ایسے میں ''بھٹو بھاشانی بھائی بھائی‘‘ کا نعرہ اس یکجہتی کی علامت تھا‘ جس نے اس ملک کی وسیع تر آبادی کو طبقاتی جدوجہد میں جوڑ کر ایک روشن مستقبل کی امید بیدار کی تھی۔
جب یہ تحریک پھیل کر ایک انقلابی صورتحال میں ڈھلنے لگی اور ایوبی آمریت اور اس کی سرمایہ دارانہ ریاست کو سنگین خطرہ لاحق ہونے لگا تو خطے کی دوسری طاقتوں نے براہِ راست مداخلت شروع کر دی۔ بھاشانی، جو مائوزے تنگ کا پیروکار تھا، کو بیجنگ (اس وقت کے 'پیکنگ‘) بلایا گیا اور مائو نے اسے تنبیہ کی کہ وہ ''چین کے دوست‘‘ ایوب خان کے خلاف اس تحریک کی قیادت سے دستبردار ہو جائے۔ بھاشانی واپس آیا، دریا میں لنگر انداز اپنی رہائشی کشتی میں چلا گیا اور منظر سے غائب ہو گیا۔ اسی دوران دہلی، ماسکو اور واشنگٹن کے ایوان بھی اس تحریک کے زلزلوں سے لرزنے لگے تھے۔ بھارتی سامراجیوں نے مداخلت کرکے مجیب الرحمان کو ابھارا اور طبقاتی جدوجہد کو ایک سوشلسٹ منزل سے بھٹکا کر نیشنلزم کی جانب موڑنے کی واردات شروع کر دی۔ انہیں ڈر تھا کہ یہ تحریک اگر آگے بڑھی تو مغربی بنگال میں بھی سرایت کر جائے گی اور ایک یکجا 'سرخ بنگال‘ نہ صرف بھارتی ریاست بلکہ خطے کی تمام استحصالی قوتوں اور سامراجیوں کے لئے ہی خطرہ بن جائے گا۔ لیکن نیشنلسٹ بنیادوں پر مجیب الرحمن کے تیزی سے ابھرنے، مقبولیت پانے اور 1970ء کے انتخابات میں فیصلہ کن کامیابی حاصل کرنے کی اہم وجہ یہ بھی تھی کہ مشرقی بنگال کے عوام جہاں طبقاتی استحصال کا شکار تھے وہیں جبر اور تعصب سے دوچار بھی تھے۔ جبر و تشدد نے اس بغاوت کی آگ کو مزید بھڑکا دیا تھا۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر بھاشانی اس تحریک کی قیادت سے دستبردار نہ ہوتا اور عوام کی سلگتی امنگوں کو سوشلسٹ پروگرام سے جوڑتا تو مجیب اتنی مقبولیت حاصل نہ کر پایا‘ اور تحریک قومی بنیادوں پر زائل نہ ہوتی۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب معاشرے میں بسنے والے عام لوگوں کی اکثریت کسی انتظامیہ کا ساتھ نہ دے رہی ہو‘ اور ایک متحارب عمل میں داخل ہو جائے تو دنیا کی بڑی سے بڑی طاقت کے لئے بھی ایسی عوامی بغاوت کو کچلنا کم و بیش ناممکن ہو جاتا ہے۔ اس لئے کچھ مغربی اور بیشتر بھارتی مؤرخین کی جانب سے بنگلہ دیش میں بھارتی افواج کی فتح کا دیا جانے والا تاثر غلط ہے۔ جب بھارتی فوجیں مشرقی بنگال میں داخل ہوئیں تو مقامی گوریلا گروہوں اور باغی بنگالی افسران اور سپاہیوں کی بغاوت گرفت کو پہلے ہی بہت حد تک ڈھیلا کر چکی تھی۔ جب بھی کوئی طاقت عوام کی حمایت سے محروم ہو جائے تو اس کے حوصلے پست ہو جاتے ہیں۔ ایسے میں بھارتی افواج کا بنگال میں داخل ہو کر ڈھاکہ تک پہنچنا کوئی بڑا کارنامہ نہیں تھا۔ لیکن سقوطِ بنگال اور 93 ہزار پاکستانی فوجیوں کے جنگی قیدی بننے کے بعد بھی مشرقی بنگال میں جنگ ختم نہیں ہوئی بلکہ بنگلہ دیش کے قیام کے فوراً بعد بھارتی ریاست کے لئے خطرات بہت بڑھ گئے۔ مکتی باہنی کی گوریلا فورس قوم پرستی پر یقین رکھتی تھی، مجیب کی عوامی لیگ کی شاخ تھی اور بڑی حد تک بھارتی فوجیوں سے تربیت یافتہ تھی‘ لیکن ا س کے علاوہ دوسری قوتیں بھی اِس لڑائی میں برسر پیکار تھیں۔ یہ نیشنلسٹ نہیں بلکہ بھاشانی کے بعد مسلح جدوجہد کا راستہ اختیار کر چکے سوشلسٹ نوجوان اور محنت کش تھے جو 'شکتی باہنی‘ کے ایک نسبتاً ڈھیلے الحاق میں سرگرم تھے۔ جہاں ان کا قبضہ ہوتا تھا وہاں سرمایہ دارانہ ریاست کے اداروں مثلاً تھانوں، عدالتوں اور دوسرے انتظامی امور کو یہ بائیں بازو کے باغی عوامی پنچایتوں یا ایک طرح کی 'سوویتوں‘ کے ذریعے چلانے لگے تھے۔ بھارتی فوج کی بڑی جارحیت درحقیقت پاکستانی فوج کے خلاف نہیں بلکہ ان سوویتوں کو کچلنے اور سرمایہ دارانہ ریاست کے ڈھانچے بحال کرنے کے لئے تھی۔ خلیج بنگال میں بھیجے گئے امریکہ کے بحری بیڑے کا مقصد بھی یہی تھا کہ اگر بھارتی افواج ان تیزی سے پھیلتی عوامی پنچایتوں کو کچلنے میں ناکام ہوتی ہیں تو پھر امریکی افواج براہِ راست مداخلت کریں گی۔
گو مقامی و عالمی سامراجی یہاں سرمایہ داری کو بچانے میں وقتی طور پر کامیاب ہو گئے لیکن بنگلہ دیش میں شورش اور عدم استحکام جاری رہا۔ ان سوشلسٹ قوتوں نے 1972ء میں 'جاتیو سماج تانترک دل‘ (JSD) کو جنم دیا جس کی قیادت کرنل ابو طاہر کے پاس تھی۔ 1975ء میں مجیب الرحمن کے خلاف فوجی بغاوت میں ایسے افسران قیادت میں تھے جو اس سوشلسٹ تحریک کا حصہ رہے تھے‘ جنہیں بھارتی فوجوں کے زور پر مجیب الرحمن نے کچلا تھا۔ اس بغاوت میں مجیب کو قتل کرنے کا مقصد بنگالی قوم پرستوں کے بنگالی سوشلسٹوں پر ظلم کا بدلہ لینا تھا۔
بنگلہ دیش کی ''آزادی‘‘ کے بعد وہاں کے عام انسانوں کے ساتھ وہی ہوا جو ایسے مواقع پر ہوتا آیا ہے۔ استحصال اور جبر کرنے والوں کی رنگت اور قومیت بدلنے سے اس نظام کی اذیتیں کم نہیں ہوتیں۔ ریاستی جبر کے خلاف مظلوم طبقات اور قومیتوں کی بغاوت کو طویل عرصے تک روکا نہیں جا سکتا۔ لیکن سقوطِ بنگال کے المناک تجربے سے یہی سبق حاصل ہوتا ہے کہ ایک حقیقی مارکسسٹ پارٹی اور فعال قیادت کے فقدان سے انقلابات رد انقلابات میں بدل جاتے ہیں۔ بظاہر چھوٹی خطائیں کئی نسلوں تک اس نظام کے استحصال اور ظلم کو طوالت دیتی ہیں۔ خشونت سنگھ نے اسی تناظر میں لکھا تھا:
تاریخ کی گھڑیوں نے وہ وقت بھی دیکھے ہیں
جب لمحوں نے خطا کی تھی، صدیوں نے سزا پائی