ایران میں ایک مظاہرے کو ختم کرنے کی کوشش میں 2 جنوری کی شام تک 25 افراد جاں بحق اور 600 سے زائد گرفتار ہو چکے تھے۔ جمعرات 28 دسمبر کو ایران کے شہر مشہد میں مہنگائی، بیروزگاری اور مختلف سطح پر معاشی بدعنوانیوں کے خلاف ایک چھوٹے سے مظاہرے کا اہتمام کیا گیا تھا۔ بعض رپورٹوں کے مطابق اس مظاہرے کا اہتمام سابق صدارتی امیدوار ابراہیم رئیسی کے حامیوں نے کیا تھا‘ جو پاسدارانِ انقلاب اور سپریم لیڈر آیت اللہ خمینی کے قریب تصور کیے جاتے ہیں۔ مظاہرے کا مقصد مبینہ طور حسن روحانی کی 'اصلاح پسند‘ حکومت پر دبائو بڑھانا تھا۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے حقیقی مسائل‘ جیسے بیروزگاری، مہنگائی اور پے در پے کرپشن کے سکینڈلز‘ کا سہارا لیا۔ آغاز میں صرف حسن روحانی اور ان کی حکومت کے خلاف ہی نعرے لگ رہے تھے‘ لیکن شاید مظاہرے کے منتظمین کے وہم و گمان میں بھی نہ ہو گا کہ ان کا یہ اقدام معاشی تنگ دستی سے تنگ آئے ہوئے عوام کے لیے اپنے غم و غصے کے اظہار کے حوالے سے ایک ایسا پلیٹ فارم ثابت ہو گا جو بعد میں ان کے اپنے قابو سے باہر ہو جائے گا۔
مشہد سے شروع ہونے والے مظاہرے اگلے دن ایران کے دوسرے شہروں میں بھی پھیل گئے۔ جھڑپوں میں آنسو گیس کا بھرپور استعمال کیا گیا۔ مظاہروں میں اب نعرے زیادہ ریڈیکل اور واضح تھے۔ جمعہ کے دن کے مظاہروں میں زیادہ سیاسی شعور کی حامل نعرے لگے جیسے ''زندانی سیاسی آزاد باید گردد‘‘ (سیاسی قیدیوں کو آزاد کیا جائے)، ''نہ غزہ، نہ لبنان، جانم فدای ایران‘‘ (نہ غزہ، نہ لبنان، میری جان ایران پر قربان)، ''شام کو چھوڑو، ہماری فکر کرو‘‘۔ بنیادی طور پر یہ نعرہ خطے میں بالا دستی کے لیے مداخلت اور خارجہ پالیسی سے بیزاری کا اظہار تھا‘ کیونکہ اربوں ڈالر عراق، شام، لبنان، غزہ، یمن اور دوسرے ملکوں میں معاملات کو اپنے حق میں کرنے کے لیے خرچ کیے جاتے ہیں‘ جبکہ مہنگائی، بیروزگاری اور معاشی بدحالی سے تنگ عوام کے لیے کچھ نہیں۔
تیزی سے پھیلتے ان مظاہروں نے حکومت کو سکتے میں ڈال دیا ہے۔ آغاز میں کچھ حکومت مخالفین نے عوام کی معاشی مشکلات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ان مظاہروں کو برحق قرار دیا‘ لیکن اب جبکہ یہ مظاہرے دوسرے شہروں میں بھی پھیل گئے ہیں‘ اور حسن روحانی کو پس پشت ڈالتے ہوئے پورے سرمایہ دارانہ نظام اور اس کی پروردہ ریاست کو للکار رہے ہیں‘ حکومت مخالف ان مظاہروں کو حکومت کی جانب سے عوام کی معاشی حالت سدھارنے میں ناکامی کا شاخسانہ قرار دے رہے ہیں‘ جبکہ صدر حسن روحانی کے نائب صدر اسحاق جہانگیری حکومت مخالفین کو مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں۔ غلام علی جعفر زادہ ایمن آبادی، جو رشت سے پارلیمنٹ کا ممبر ہے، نے حالیہ مظاہروں کے حوالے سے کہا، ''ہم سب ایک کشتی پر سوار ہیں۔ جو کوئی بھی اس میں چھید ڈالے گا تو ہم سب غرق ہو جائیں گے۔ اس لیے مجھے امید ہے جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ عوام کو حکومت سے بد ظن کیا جائے‘ انہیں یہ جان لینا چاہیے کہ عوام حکومت، اقتدار اور نظام میں کوئی فرق روا نہیں رکھتے۔ اگر وہ بدظن ہو گئے تو ہم سب سے بدظن ہوں گے۔ اس لیے کوئی کوشش نہ کرے کہ اس (نظام کی) کشتی میں چھید ڈالا جائے‘‘۔
ایران کے سپریم لیڈر علی خامنہ ای نے ان احتجاجی مظاہروں کا الزام ''بیرونی قوتوں‘‘ پر ایسے لگا دیا‘ جیسے ایران کے محنت کش اور نوجوان کسی کے خلاف جدوجہد کی صلاحیت سے عاری ہوں۔
حسب توقع امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مظاہرین کی ''حمایت‘‘ میں بیان داغتے ہوئے کہا، ''ایرانی عوام حکومت کی بد عنوانی اور کرپشن سے تنگ آ چکے ہیں جو ان پیسوں کو دہشت گردی کے لیے استعمال کرتی ہے‘‘ اور یہ کہ ''پوری دنیا جانتی ہے کہ ایران کے عوام تبدیلی چاہتے ہیں۔ ایرانی قیادت عوام کی طاقت سے خوفزدہ ہے‘‘۔ ہیلری کلنٹن اور نیتن یاہو جیسے سامراجی بھی ان مظاہروں کے حق میں ''ہمدردانہ‘‘ بیانات دے رہے ہیں، جو ایرانی ریاست کو ردِعمل کا جواز فراہم کرتے ہیں۔ سامراجی ممالک کے ان وحشی نمائندوں کے یہ بیانات دراصل ایرانی اشرافیہ کو یہ جواز فراہم کرتے ہیں کہ وہ اس شاندار تحریک کو امریکی مداخلت قرار دے کر بے رحمی سے کچل دے۔ دائیں بازو کے اخبارات بالخصوص 'کیہان‘ جیسے اخبار پہلے ہی ان مظاہروں کو بیرونی مداخلت قرار دے رہے ہیں۔ لہٰذا ایرانی عوام کو ایک طرح سے دوہری مخالفت کا سامنا ہے۔ ایک طرف حکومت ہے جو ان کے بقول ان کے لیے کچھ نہیں کر رہی‘ دوسری طرف سامراجی ممالک ہیں جو اپنی منافقانہ سفارت کاری، معاشی اور سیاسی فوائد اور بالادستی کے لیے ان مظاہرین کے حق میں بیانات دے کر تحریک کو کچلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ایرانی عوام کو ٹرمپ اور اس جیسے دوسرے سامراجی نمائندوں کے بیانات کو مسترد کر دینا چاہیے اور ان سامراجیوں کو اپنے نعروں اور تحریک کا ہدف قرار دینا چاہیے۔
2013ء میں پہلی دفعہ صدر منتخب ہونے کے بعد حسن روحانی نے عالمی اقتصادی پابندیوں کی جکڑ میں آئی ایرانی معیشت کو سدھارنے اور سماجی و ثقافتی آزادی کے وعدے کیے تھے۔ انہوں نے سامراجی اقتصادی پابندیوں کو ایرانی عوام کی معاشی مشکلات کی وجہ قرار دیا تھا۔ جولائی 2015ء میں عالمی قوتوں کے ساتھ ایٹمی معاہدے کے بعد جنوری 2016ء میں ایران پر عائد بیشتر اقتصادی پابندیاں ہٹا دی گئیں۔ اگرچہ آج ایرانی حکومت کے مطابق معاشی نمو کے اعداد و شمار حوصلہ افزا ہیں‘ لیکن عملی طور پر صورتحال یہ نہیں‘ عوام کے بقول ان کی زندگیاں اجیرن ہوتی جا رہی ہیں۔ مہنگائی برق رفتاری سے بڑھ رہی ہے۔ بیروزگاری سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 12 فیصد بتائی جاتی ہے جبکہ غیر سرکاری اعداد و شمار 25 سے 40 فیصد کے درمیان ہیں۔ تیل کی قیمتوں کے گرنے کی وجہ سے حکومتی آمدنی اور سبسڈی میں بھی گراوٹ آئی ہے۔ اشیائے خور و نوش کی قیمتیں روز افزوں ہیں۔ حسن روحانی کا معاشی پروگرام معیشت کو عالمی اجارہ داریوں کے لیے کھولنے اور اسے ڈی ریگولیٹ کرنے، نجکاری اور نجی شعبے کو زیادہ سے زیادہ کردار دینے اور سبسڈیز کے خاتمہ کا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کو مسلط رکھنے کے پروگرام نے پہلے ہی عوام کو مشکلات میں مبتلا کر رکھا ہے۔ اس صورت حال میں صرف معاشی اشاریے ہی بہتر ہو سکتے ہیں‘ عوام کی معاشی حالت نہیں۔
پابندیوں کے اٹھنے پر ایران میں ایک جشن منایا گیا تھا کیونکہ عالمی میڈیا اور ایرانی اشرافیہ نے ''پابندیوں‘‘ کے خاتمے سے بہت سی امیدیں وابستہ کروا دی تھیں‘ لیکن دو سال بعد آج عوام کی حالت بد سے بدتر ہی ہوتی جا رہی ہے۔ اس خلش اور جستجو کا پیمانہ اب لبریز ہو کر محنت کشوں کی ایک تحریک بن رہی ہے۔ حاکمیت کا عوام کو مسلسل بیرونی خوف سے ڈرانے اور اپنے کنٹرول میں رکھنے کا سلسلہ ٹوٹتا ہوا محسوس ہو رہا ہے۔ سامراجیوں کی تحریک کے لیے حمایت یہاں جدلیاتی طور پر اشرافیہ کی حاکمیت کے وسیلہ کا موجب بن رہی ہے‘ کیونکہ ایران کے عوام میں امریکی سامراج کے خلاف شدید نفرت آج بھی موجود ہے۔
1979ء میں شاہ ایران کے خلاف انقلابی تحریک کو ابھارنے اور چلانے میں سب سے کلیدی کردار ایران کی کمیونسٹ پارٹی''تودہ‘‘ کا تھا۔ اصفہان اور بندر عباس کے صنعتی مزدوروں نے کمیونسٹ پارٹی کی قیادت میں پورے ملک میں عام ہڑتال میں ہراول دستے کا کردار ادا کیا تھا‘ لیکن پارٹی نے ایک الگ اقدام کر دیا۔ اشرافیہ نے اقتدار میں آ کر سب سے پہلے ایرانی کمیونسٹوں کا ہی قتل عام کیا۔ لیکن ایران میں بائیں بازو کی عظیم روایات موجود ہیں اور یہ روایات ایک انقلابی پارٹی کی صورت میں تحریک سے نمودار ہو سکتی ہیں۔ ایک حقیقی کمیونسٹ پارٹی سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے سرمایہ داری کا خاتمہ کرکے ایران کے محنت کش عوام کا مقدر سنوار سکتی ہے۔ اس سے پورے مشرق وسطیٰ کا نقشہ بدل سکتا ہے۔ جنوب ایشیائی برصغیر پر بھی اس کے اہم اثرات مرتب ہوں گے اور یہاں انقلابی تحریکوں کا پیش خیمہ ثابت ہو گی۔