"DLK" (space) message & send to 7575

یونیورسٹی میں تشدد

پچھلے کچھ دنوں سے تشدد کی ایک نئی لہر نے پنجاب یونیورسٹی لاہور کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ 1970ء کی دہائی کے وسط سے اس تاریخی ادارے پر ایک جماعت کے طلبہ ونگ کا تسلط رہا ہے جس نے ادارے کے ماحول کو برباد کر کے رکھ دیا ہے۔ کافی عرصے سے یونیورسٹی کیمپس میں اس کے جبر کو کسی سنجیدہ مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا‘ لیکن حالیہ دنوں میں کچھ تنظیموں سے تعلق رکھنے والے طلبہ کی مزاحمت نے پنجاب یونیورسٹی پر ان کے غلبے کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔
سوموار 22 جنوری کو یونیورسٹی کے الیکٹریکل انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ میں مذکورہ طلبہ ونگ اور ان تنظیموں کے درمیان جھڑپوں کے نتیجے میں ایک درجن سے زائد طلبا زخمی ہوئے۔ پولیس نے متعدد طلبہ کو گرفتار کر لیا۔ ڈیپارٹمنٹ میں توڑ پھوڑ ہوئی اور ایک کمرے کو آگ لگا دی گئی۔ سرائیکی سٹوڈنٹس کونسل نے کہا ہے کہ ان کے تین طلبہ کو طلبہ ونگ والے اغوا کر کے لے گئے اور تشدد کا نشانہ بنایا۔ پچھلے سال بہار میں اس ونگ نے پشتون طلبہ کے ایک ثقافتی پروگرام پر حملہ کیا تھا‘ حالانکہ یونیورسٹی انتظامیہ نے اس پروگرام (21مارچ 2017ء ) کی اجازت دے رکھی تھی۔ اس ونگ کے حملے میں متعدد طلبہ زخمی اور کم از کم پانچ ہسپتال داخل ہوئے تھے۔
مذکورہ طلبہ ونگ دائیں بازو کی ایک رجعتی اور بنیاد پرست تنظیم ہے جس کے پیچھے ایسے ہتھکنڈوں کی پوری تاریخ ہے۔ یہ تعلیمی اداروں میں ایک طرح کی غیر رسمی اخلاقی پولیس کا کام کرتی ہے۔ اداروں میں ہر طرح کی ثقافتی سرگرمیوں، ترقی پسند رجحانات اور تعمیری بحث و مباحث کو روکنا اس تنظیم کا شیوہ رہا ہے۔ ایک یونیورسٹی اہلکار کے مطابق پنجاب یونیورسٹی کی انتظامیہ نے وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف سے 'یونیورسٹی کیمپس میں اس طلبہ ونگ کی منفی سرگرمیوں‘ کے حوالے شکایت بھی کی ہے‘ لیکن حکومت نے ان کو روکنے کے لئے کبھی مؤثر اقدامات نہیں کئے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ بالخصوص ضیاالحق کے دور سے اس طلبہ ونگ کو ریاست اور انتظامیہ کے کچھ حصوں کی پشت پناہی ہمیشہ حاصل رہی ہے۔ 
بدھ 24 جنوری 2018ء کو انسداد دہشت گردی کی ایک عدالت نے پنجاب یونیورسٹی کی حالیہ جھڑپوں میں شمولیت کے الزام میں 13 طلبہ کو سات روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا اور مزید 183 طلبہ کو 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیاتھا۔ پولیس ذرائع کے مطابق انہوں نے مجموعی طور پر 225 طلبہ کو گرفتار کیا تھا۔ اگرچہ حکام نے گرفتار طلبہ کی شناخت اور ان کی تنظیمی وابستگیوں کو چھپایا ہے لیکن پولیس کے ایک اعلیٰ افسر نے غیر جانبداری کا دکھاوا کرنے کی کوشش میں کہا کہ ''ہم نے بغیر تفریق کے ایکشن لیا اور پشتون اور بلوچ کونسل کی اعلیٰ قیادت کو گرفتار کیا ہے‘‘۔ جب اس طلبہ ونگ کے خلاف اقدامات کے حوالے سے سوال کیا گیا تو اس کا کہنا تھا کہ ''بہت جلد اس طلبہ ونگ کے سربراہ اور کیس میں نامزد دیگر عہدے داروں کو بھی گرفتار کیا جائے گا‘‘۔
میرے خیال میں پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی اس طلبہ ونگ کی پس پردہ حمایت 23 جنوری کو اس وقت واضح ہو گئی جب یونیورسٹی کیمپس سے دور لاہور پریس کلب کے سامنے اپنے ساتھیوں کی رہائی کے لیے احتجاج کرنے والے بلوچ، پشتون، سرائیکی کونسل اور این ایس ایف کے طلبہ کو گرفتار کر لیا گیا۔ اس کے برعکس اس طلبہ ونگ کے دھرنوں اور 'احتجاجوں‘ میں کسی کو بھی گرفتار نہیں کیا گیا۔ 
اس طلبہ ونگ کو 1974ء کے بعد اس وقت کچھ مقبولیت ملنا شروع ہوئی جب بھٹو حکومت کی اصلاحات طلبہ، نوجوانوں اور محنت کشوں کی توقعات پر پورا نہ اتریں۔ اس سے پہلے سوویت چین تنازع کی وجہ سے بائیں بازو کی طلبہ تنظیموں پر منفی اثرات مرتب ہوئے اور ایک خلا پیدا ہونا شروع ہو گیا تھا۔ اس طلبہ ونگ نے بائیں بازو کی نقالی میں 'سٹڈی سرکلوں‘ کا انعقاد شروع کیا۔ ان نام نہاد سٹڈی سرکلوں میں نئے طلبہ کو ایک خاص مکتب فکر کی تحریریں اور نظریات پڑھائے جاتے تھے۔ وہ طلبہ اور طالبات زیادہ تر دیہی علاقوں اور لوئر مڈل کلاس سے تعلق رکھتے تھے۔ شہری زندگی ان کے لیے کسی حد تک نئی تھی۔ طبقاتی فرق کے اسی احساس کمتری سے چھٹکارا پانے کے لیے وہ اس تنظیم کا حصہ بننے لگے۔ دوسری طرف بائیں بازو کے طلبہ نالاں تھے کہ بھٹو نے 1973ء میں پیپلز پارٹی سے بائیں بازو کے سخت گیر عناصر کو نکال دیا تھا اور بعد میں بلوچستان میں باغیوں کے خلاف فوج بھیجی۔ انہوں نے محسوس کیا کہ بھٹو پیپلز پارٹی کے حقیقی سوشلسٹ منشور کو پس پشت ڈال رہا ہے، 1974ء کے بعد کی کابینہ میں جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کو لا کر بائیں بازو کو کنارے سے لگا رہا ہے اور بنیاد پرستوں کے دبائو میں آ رہا ہے۔ یوں پیپلز پارٹی کی حمایت کرنے والی واحد طلبہ تنظیم پارٹی کا اپنا طلبہ ونگ پی ایس ایف ہی بچا۔ یہ وہ معروضی اور موضوعی وجوہات تھیں جن کی بنا پر اس طلبہ ونگ نے کسی حد تک طلبہ میں اپنی بنیادیں بنائیں۔
جب ضیاالحق نے ''پاکستان کو اسلامی بنانے میں معاونت‘‘ کے لئے اپنی پہلی کابینہ میں ایک مذہبی جماعت کے ارکان کو شامل کیا تو اس طلبہ ونگ کے ''تھنڈر سکواڈ‘‘، جسے 1960ء کی دہائی میں لاہور اور کراچی کی یونیورسٹیوں میں بائیں بازو کے طلبہ سے مقابلے کے لیے بنایا گیا تھا، نے وحشت کی انتہا کر دی۔ ضیا کی آمریت کی مکمل حمایت اور تعاون سے اس طلبہ ونگ نے کیمپسوں میں 'شریعت‘ نافذ کی اور بالخصوص طالبات کو نشانہ بنایا۔ یہ افغان جہاد کا وہ دور تھا جب امریکہ سے ''مجاہدین‘‘ کے لیے خوب اسلحہ اور مال آ رہا تھا۔ یہی ہتھیار اس طلبہ ونگ کو بھی دئیے گئے اور ریاست اور امریکی سامراج نے بائیں بازو اور ٹریڈ یونین کارکنان کو کچلنے کے لیے اسے اپنی 'بی‘ ٹیم کے طور پر استعمال کیا۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ یہ ونگ اپنی مدر پارٹی کے قابو سے بھی باہر ہو گیا۔ تاہم اس جبر کے خلاف ردعمل بھی سامنے آیا۔ 1983ء میں پورے ملک میں طلبہ یونین کے انتخابات میں اس طلبہ ونگ کو بدترین شکست ہوئی۔ ضیا آمریت نے پہلے 1979ء میں طلبہ یونین پر پابندی لگائی تھی لیکن بعد میں اس حکم نامے کو ختم کر دیا تھا۔ تاہم 1983ء میں طلبہ یونین پر مستقل پابندی لگا دی گئی۔ یہ وہ آخری سال تھا جب پاکستان میں ملکی سطح پر طلبہ یونین کے انتخابات ہوئے۔ اس طرح پاکستان میں طلبہ یونین کے اس درخشاں عہد کا اختتام ہوا‘ جب طلبہ سیاسی جدوجہد کرتے ہوئے اپنے مطالبات منواتے تھے۔ 
اسی وقت سے ترقی پسند طلبہ تنظیموں پر پابندی ہے لیکن یہ طلبہ ونگ پنجاب یونیورسٹی پر مسلط ہے۔ اس کی مدر تنظیم ہمیشہ پنجاب میں مختلف حکومتوں سے بات چیت کرتی ہے اور اس طلبہ ونگ پر ہاتھ نہیں ڈالا جاتا۔ اس کے سابق اراکین ریاستی بیوروکریسی اور دائیں بازو کی پارٹیوں میں اہم عہدوں پر موجود ہیں۔ میرے خیال میں ان دوغلے معیاروں کی وجہ سے پشتون، سرائیکی اور بلوچ طلبہ مشتعل ہیں اور ان کی قومی محرومی میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ لیکن اس جبر کو تمام قومیتوں کے ترقی پسند طلبہ کی مشترکہ قوت ہی شکست دے سکتی ہے۔ نام نہاد جمہوری حکومتوں میں سے کسی نے بھی نہ تو طلبہ یونین کو بحال کیا نہ ہی ضیا کی رجعتی آئینی ترامیم کا خاتمہ کیا۔ ان بدعنوان سیاسی ٹولوں کے ہوتے ہوئے اس طرح کی تبدیلی ناممکن ہے۔ اِس نظام کے خلاف طلبہ کی جدوجہد درکار ہے جو 1968-69ء کی طرح ملک گیر انقلاب کا نقطہ آغاز بنے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں