"DLK" (space) message & send to 7575

عوام اور بے مہر سیاست

15 سے 20 فیصد آبادی کے درمیانے طبقے تک محدود اور وسیع تر عوام سے بے مہر پاکستانی سیاست میں انتشار شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ مجھے کچھ اداروں کے درمیان تضادات کسی بڑے تصادم کی جانب بڑھتے ہوئے محسوس ہو رہے ہیں۔ پچھلی چند دہائیوں سے نان ایشوز پر مبنی اور محنت کش عوام کے حقیقی مسائل اور تلخ زندگیوں سے دور جو سیاسی بازار گرم ہے وہ اتنا بے سبب بھی نہیں ہے۔ نواز شریف کی وزارت عظمیٰ اور پارٹی سربراہی سے نااہلی ایک ایسی صورتحال کی غمازی کرتی ہے‘ جہاں کچھ حلقوں میں کسی مشترکہ پالیسی پر اتفاق نہ ہونے کی وجہ سے باہمی لڑائیاں اتنی تیز ہو گئی ہیں کہ وہ اس منافقانہ پردے کو چاک کر کے باہر آ گئی ہیں‘ جس کے پیچھے پاکستان کے محنت کشوں اور غریبوں پر سرمایہ دارانہ اور جاگیردارانہ طبقات کی حاکمیت کو برقرار رکھنے کی مختلف چالیں اور وارداتیں تشکیل پاتی رہی ہیں۔ ان تضادات کے واضح ہونے کی بڑی وجوہات ہندوستان کے ساتھ تعلقات، سی پیک اور دوسرے بڑے منصوبوں کی حصہ داری پر مقابلہ بازی، داخلی اور خارجی محاذ پر مختلف سامراجی طاقتوں میں تنائو اور اقتصادی و سیاسی حاکمیت کے دوسرے بہت سے جھگڑے ہیں جو اس خلفشار کا باعث بن رہے ہیں۔
نواز شریف پاکستان کی کلاسیکی بورژوازی کا سیاسی نمائندہ ہے۔ اس نے نجکاری اور سامراجی کارپوریشنوں کی سرمایہ کاری کے لئے محنت کشوں کے استحصال پر مبنی پالیسیاں اپنائیں۔ لیکن امریکی، چینی اور دوسرے سامراجی سرمایہ کاروں نے کہیں زیادہ منافع کے حصول اور وسائل و محنت کی وسیع لوٹ مار کے لئے دوسری قوتوں کے ساتھ براہ راست تعلقات استوا ر کر لئے ۔ نواز شریف ایک بزنس مین ہونے کے ناتے اپنے طبقے کا کاروبار پھیلانے کے سلسلے میں ہندوستان اور دوسرے ہمسایہ ممالک سے تجارت بڑھانے کے لئے کوشاں تھے۔ جن قوتیں کو خارجی دشمنوںکی وجہ سے بہت فائدے ملتے رہے‘ وہ اس پالیسی کے خلاف دبائو ڈالتے رہے۔ نواز شریف صاحب‘ جو ماضی میں ہر حوالے سے ان کے بہت تابعدار رہے‘ اب تیسری مرتبہ وزیر اعظم بننے کے بعد اپنی اس ''مقبولیت‘‘ کو کسی حقیقی اقتدار کی طاقت میں بدلنا چاہ رہے تھے۔ شاید ان کے کسی انکار پر یہاں کی جمہوریت اور سویلین اقتدار کو اوقات دکھا دی گئی ہے۔
پچھلے کچھ عرصے سے براہ راست سامراجی عسکری تصادم کی جگہ پراکسی جنگوں کے طریقہ کار نے لے لی ہے۔ اس پالیسی پر اختلافات بھی حکمرانوں کی اس خانہ جنگی میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ دہشت گردی کے معاملے پر پاکستان اور افغانستان میں مچے کہرام پر دنیا کی بڑی طاقتوں کے گہرے اختلافات بھی ظاہر ہو رہے ہیں۔ یہ اظہار ہے کہ سامراجی ریاستوں کی پاکستان کی سیاست اور ریاست کے مختلف حصوں میں نہ صرف دھڑے بندیاں ہیں بلکہ خطے کے وسائل کی لوٹ مار کی گریٹ گیم میں ان کی پراکسی قوتیں بھی کہاں تک سرگرم ہیں۔ اس ٹکرائو کی صورتحال میں بھی بیرونی قوتیں کافی حد تک ملوث ہیں‘ کیونکہ ان پالیسیوں سے ان ممالک کے کاروباری مفادات کو ٹھیس پہنچتی تھی۔ ان ممالک کی دوستیاں محض مفادات پر مبنی ہوتی ہیں۔ مفادات کے علاوہ کوئی وفا نہیں ہوتی۔ ہر امید فیصلہ کن گھڑی میں رسوا ہو جاتی ہے۔
سیاست میں اس انتشار کا عوام کی ضروریات اور ان کے سلگتے ہوئے مسائل سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔ اگر نواز شریف کی سبکی ہو رہی ہے تو اپنی بیٹی مریم کے ساتھ چلائی جانے والی اس کی ظاہری مزاحمت کی مہم بھی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ معاشرے کی نسبتاً پسماندہ پرتیں اور درمیانے طبقے کے کچھ حصے اس مظلومیت سے مرعوب ہو کر ہمدردی جتانے لگے ہیں۔ مقتدر طاقتوں کے کنٹرول میں میڈیا اینکر اور ماہرین جو نفرت کی آگ اگل ر ہے ہیں وہ اپنے الٹ اور منفی نتائج کی حامل ثابت ہو رہی ہے۔ نواز شریف کی پذیرائی کی بنیادی وجہ صرف یہی ہے کہ انصاف اور دوسری بنیادی ضروریات کی اذیت ناک محرومی میں سلگتے ہوئے عوام اس کی اس مظلومیت کے ساتھ اپنے دکھوں کو جوڑ رہے ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ مریم نواز جس زوردار انداز میں سیاست میں ابھری ہیں اور مزاحمتی سیاست کی جس انتہا پر جا رہی ہیں اس کو کسی دھڑے کی سرپرستی حاصل ہو۔ نواز شریف اور مریم صاحبہ کی یہ مہم اس وقت کہیں زیادہ خطرناک ہو سکتی ہے جب وہ روزگار، علاج‘ تعلیم اور دوسری بنیادی ضروریات کو دوسرے دھڑوں کے خلاف اپنی نعرے بازی میں شامل کر لیں۔ اگرچہ نواز شریف کی پارٹی سرمایہ داروں اور تاجروں کی پارٹی ہے اور اس کی مزاحمت اسی نظام زر کی حدود و قیود میں ہی اب تک محدود ہے لیکن بھٹو بننے کی کوشش میں اگر یہ کوئی ایسا اقدام کرتے ہیں تو پھر یہ اسی صورت آگے بڑھ سکتے ہیں جبکہ نواز لیگ میں ایک واضح اور بڑی پھوٹ پیدا ہو جائے۔ یہ پھوٹ بھائیوں اور خاندان میں بھی پھیل جائے گی۔ لیکن میرے خیال میں نواز شریف اس حد تک نہیں جا سکیں گے کیونکہ تاریخی طور پر ان کی نعرے بازی بھی اسی نظام کی حدود میں ہی مقید رہی ہے۔
اس لئے محنت کشوں اور ان کے بائیں بازو کے نمائندوں کی نواز شریف سے کوئی امید یا ان کے بارے میں کوئی خوش فہمی تحریک کے لئے نقصان دہ ہو گی۔ ایسے بہت سے سابقہ بائیں بازو کے دانشور ہیں جو مرحلہ وار انقلاب کے نظریے کے تحت پہلے مرحلے میں ''ترقی پسند ‘‘ بورژوازی کی غیر مشروط حمایت کی سوچ رکھتے ہیں۔ لیکن نواز شریف کی مذہبی اور قومی شائونزم کی سیاست ظاہر کرتی ہے کہ سرمایہ داری کے بحران کی شدت کے اس عہد میں پاکستان تو کیا کسی ترقی یافتہ ملک میں بھی ''قومی بورژوازی‘‘ کا ترقی پسندانہ کردار ممکن ہی نہیں رہا۔ ان کا اپنا نظام ہی اس گنجائش سے عاری ہو چکا ہے۔ لیکن موجود سیاست کے کھلاڑیوں میں نواز شریف کو فوقیت یہ حاصل ہے کہ پیپلز پارٹی کی قیادت سے لے کر عمران خان تک سبھی اسی نظام زر کی معیشت پر مبنی ریاستی اشیرباد پر یقین رکھتے ہیں۔ اس لئے وہ اس سے تجاوز کرنے والی ہر سیاست اور نظریے کو مسترد کر دیتے ہیں۔ لڑائیاں شروع کرنا آسان ہوتی ہیں لیکن ان کو اپنے اختیار میں رکھنا ان کے حاکموں کے قابو میں نہیں رہتا۔ نپولین نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ ''آپ کنٹرول روم میںکسی بھی جنگ کی عظیم جرنیلوں سے اعلیٰ ترین منصوبہ بندی کیوں نہ کروا لیں‘ حتمی حکمت عملی اور لڑائی میں ہار جیت کا فیصلہ میدان جنگ میں ہی ہوتا ہے‘‘۔ یہ لڑائی حکمرانوں کے ہاتھوں سے نکلتی محسوس ہوتی ہے۔ انہوں نے یہ تصادم شروع تو کر دیا لیکن اب اس کی اپنی حرکیات متحرک ہو گئی ہیں اور وہ کوئی بھی سمت اختیار کر سکتی ہیں۔
عدلیہ پر اس نظامِ حاکمیت کا کلیدی انحصار ہے۔ مریم کے بلا واسطہ حملے عوام کو پیغام دے رہے ہیں کہ اس سے موجودہ نظام کا سماجی کنٹرول بھی کمزور ہو رہا ہے۔ اگر نواز شریف اور مریم نواز کو قید کر دیا جاتا ہے یا کوئی اور صورتحال پیدا ہوتی ہے تو بھی حکمرانوں کا یہ بحران کم نہیں ہو گا‘ بلکہ میرے ذاتی خیال میں سماجی اور سیاسی انتشار ہولناک ہو جائے گا‘ کیونکہ تصادم کی وجوہات موجود رہیں گی۔ حکمرانوں کی اس حیرت انگیز لڑائی میں ہو یہ رہا ہے کہ نواز شریف ایک نظام کے مخالف مزاحمتی لیڈر ہونے کا تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں جبکہ پیپلز پارٹی، تحریک انصاف اور مذہبی پارٹیوں کا سرکاری کاسہ لیسی کا تاثر ابھر رہا ہے۔ یہ سیاسی لڑائی کتنی ہی سنسی خیز کیوں نہ ہو جائے‘ عوام کے مفادات کا اس لڑائی میںکوئی فریق نہیں ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ مروجہ پیسے کی سیاست اپنی باہمی لڑائیوں میں اپنے ہی دھڑوں کو مسمار کر لیں اور اس سیاسی خلا کو محنت کشوں کی بائیں بازو کی تحریک ابھر کر پُر کرے۔ لیکن محنت کشوں کی انقلابی تحریکیں حکمرانوں کی باہمی جنگوں سے جنم لینے والے خلا کی محتاج کبھی نہیں ہوا کرتیں۔ وہ جب ابھرتی ہیں تو اس حاکمیت کو ہی چیر کر آگے بڑھ جاتی ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں