اس ملک کے حکمرانوں اور سرمایہ دارانہ ریاست کے ہر ادارے کا تقدس عوام پرواجب ہے تاہم بعض اوقات آواز بلند کرنا ایک جرم بن جاتا ہے۔ اگر جمہوریت کے تحت ہونے والے استحصال اور معاشی تشدد کے خلاف آواز اٹھائی جائے تو توہینِ جمہوریت ہو جاتی ہے۔ غرضیکہ حکمرانوں نے اپنے ظلم و استحصال کو جاری رکھنے کے لئے آئین، قانون، اخلاقیات اور اقتدار کے ایسے جال بچھا رکھے ہیں کہ محنت کش عوام کو سر جھکا کر ہر ظلم‘ ہر اذیت‘ ہر ذلت کو برداشت کرتے رہنے پر مجبور کر دیا گیا ہے ۔
اگر یہاں کسی کی توہین کی آزادی ہے تو وہ محنت کش عوام ہیں۔ دن رات ہر طرف ان کی توہین لامتناہی طور پر جاری ہے۔ ان کی محنت کو لوٹ کر‘ ان کی اجرت کو لوٹ کر، ان کی توہین اس معاشرے کا شیوہ ہے۔ محنت کرنے والے ہاتھ جو اس سماج کو چلاتے ہیں، بلند و بالا عمارات تعمیر کرتے ہیں، فیکٹریوں میں پیداوار کرتے ہیں، ریل چلاتے ہیں، اس ملک کا ہر پہیہ گھماتے ہیں‘ جن کی محنت کے بغیر کوئی بلب نہیں جل سکتا، کوئی فون کی گھنٹی نہیں بج سکتی‘ جن کی محنت سے ہر معاشرہ چلتا ہے۔ انہی آہنی ہاتھوں کو حکمران سرکاری اور نجی بھیک کے آگے‘ پھیلانے پر مجبور کر دیتے ہیں ۔ کیا یہ توہین نہیں ہے؟ جس معاشرے میں روز 1132 بچے بھوک سے مر جاتے ہیں، ہر تین منٹ میں ایک خاتون صحت کی سہولیات کے فقدان کی وجہ سے نئی زندگی کو جنم دیتے ہوئے خود زندگانی سے محروم ہو جاتی ہے۔ جہاں ہر روز ہزاروں افراد غربت کی اتھاہ گہرائیوں میں گر رہے ہیں! جہاں لاکھوں بزرگ اپنے وقت سے پہلے‘ علاج کے فقدان سے چل بستے ہیں! جہاں بے روزگاری کے شکار اس ذلت کی پراگندگی میں خود کشیاں کر بیٹھتے ہیں یا پھر جرائم‘ دہشت گردی اور منشیات کے عفریت کا نوالہ بن جاتے ہیں۔
تعلیم کے کاروبار سے علم کا اندھیرا تاریک سے تاریک تر ہوتا چلا جا رہا ہے‘ اس میں کتنے ننھے چراغ گل ہو رہے ہیں۔ گندگی اور غلاظت کی بیماریوں کی وبائیں‘ اب ہر موسم کا معمول بن گئی ہیں۔ دہشت گردی اور جنگوں کی یہ بھی خصلت ہے کہ زیادہ تر غریبوں کا ہی لہو بہاتی ہیں۔ ٹیلی وژن پر لامتناہی بے معنی اور بے ہودہ بحثوں کے تماشوں سے معاشرہ اکتا چکا ہے۔ زندگی ایک بوجھ‘ ایک بیزاری بن کر رہ گئی ہے۔
فیکٹریاں بند ہو رہی ہیں‘ معیشت ڈوبتی چلی جا رہی ہے۔ اگر کوئی کاروبار بچ گیا ہے اور جو چل رہا ہے تو وہ کالے دھن کی معیشت پر ہی مبنی ہے۔ اور اس کاروبار میں تعلیمی ڈگریاں اتنا کام نہیں دیتیں جتنا اسلحہ اور بارود کا استعمال دیتا ہے، لیکن پھر حکمرانوں نے تو صرف مال بنانا ہے۔ فیکٹریوں سے منافع حاصل نہیں ہوتا تو نہ ہو‘ ان کو بند کر دیں گے۔ زرعی اور صنعتی پیداوار گرتی ہے‘ تو گرتی رہے، ان کو تو سروکار صرف دولت اور غرض صرف شرح منافع سے ہے۔ سماجی و صنعتی انفراسٹرکچر ٹوٹتا بکھرتا ہے‘ تو ان کی بلا سے۔ ان کی شاہراہیں‘ گاڑیاں‘ جنریٹر موجود ہیں۔ ان کو بنانے اور چلانے کے لیے تو صرف پیسہ ہی درکار ہے ۔ اور یہ ان کے پاس بہت ہے۔ چند لوگوں کے ہاتھ میں ساری دولت جمع ہے‘ جن کے مقدر میں ساری عیاشیاں ہیں باقی کے کروڑوں عوام بھاڑ میں جائیں!
یہ نظام اور اس کا سماج کیا قابلِ توہین اور قابلِ حقارت نہیں ہے؟ لیکن یہاں کے عوام کی اکثریت کی توہین کو کون پوچھتا ہے؟ دولت کی ہوس پر مبنی اخلاقیات اقدار اور ریت و رواج میں غرق یہ معاشرہ‘ اندر سے سلگ رہا ہے! سسک رہا ہے! غربت، مہنگائی، بے روزگاری کی ذلت بجلی، گیس اور پانی کی قلت کی اذیت‘ تعلیم، علاج، ٹرانسپورٹ، رہائش، نکاسی آب کے نظام کے فقدان کے عذابوں کے خلاف جو لاوا پک رہا ہے، وہ جو آتش فشاں پھٹے گا وہ توہین، اس ظلم وجبر اور اس جکڑ کو توڑ کر‘ اسے مٹا کر ہی دم لے گا۔ صدیوں سے نسلوں کی توہین کا انتقام‘ محنت کشوں اور نوجوانوں نے اس نظام ، اس کے حاکموں، اس کے دلالوں، اس کے حواریوں، اس کا پرچار کرنے والوں، اس کا جواز فراہم کرنے والوں اور توہمات اور عوام کے اعتقادی جذبات سے کھلواڑ کرنے والوں کہ جنہوں نے ان کو اس محکومیت کو تسلیم کرنے پر مجبور کیا ہے، سے لینا ہے... لیکن آج کے دانشوروں کو پھر بھی شکوہ غریبوں اور محنت کشوں سے ہی ہے کہ اس ناانصافی اور سیاسی وسماجی استحصال کے خلاف اٹھتے کیوں نہیں؟ بغاوت کیوں نہیں کرتے؟
یہاں کے عوام کی آخر اصل حالت کیا ہے؟ ان کی کیفیت کیا ہے۔ جہاں بھوک اور مہنگائی ان کے لیے عذابِ مسلسل ہیں‘ وہاں جب ان کی نوکری چلی جاتی ہے تو ان کی سالمیت قتل ہو جاتی ہے۔ جس دن وہ بیمار ہو جاتے ہیں‘ اس دن ان کی عزتِ نفس مر جاتی ہے۔ جس دن محنت کش خواتین اور بچیاں مجبور ہو جاتی ہیں‘ اس دن ان کا تقدس مٹ جاتا ہے۔ ہر روز یہ ستم بڑھ رہے ہیں‘ کم نہیں ہوتے۔ نہ ہی اس نظام میں ہوں گے۔ ان زخموں نے روح، احساس اور جسم پر جو گھاؤ لگائے ہیں‘ جن کے درد اور تکلیف سے یہ معاشرہ کراہ رہا ہے (لیکن یہ ہمیشہ کراہتا، سسکتا اور تڑپتا نہیں رہے گا) یہ غم، یہ درد، یہ دکھ‘ یہ اذیت، جو ایک غصے اور بغاوت کے لاوے کی طرح ان کے ذہن اور ضمیر میں کھول رہی ہے‘ ضرور پھٹے گی، ضرور! اس مرتبہ یہ محنت کش طبقات ہر پارٹی کی قیادت کو بھانپ چکے ہیں۔ ہر ریاستی ادارے کے کردار کو جان چکے ہیں۔ دولت کی جمہوریت کو بھانپ چکے
ہیں۔ آمریت کو برداشت کر چکے ہیں۔ ملاؤں کے فریب کو جانچ گئے ہیں۔ قوم پرستی کے دھوکے بے نقاب ہو چکے ہیں۔ اس نظام کا ہر رجحان ہر ہتھکنڈہ ننگا ہو چکا ہے۔ محنت کشوں کو جتنا بددل اور برباد کیا گیا‘ اس کا انتقام بھی اتنا ہی شدید ہو گا۔ حکمران طبقات اور ان کی ریاست کا انجام بھی بہت عبرت ناک ہو گا۔ یہ انتقام مثبت اور خوش آئند انجام کو صرف ایک انقلاب کے ذریعے ہی پہنچ سکتا ہے۔ جہاں پھر کسی غریب اور کمزور کی تضحیک نہیں ہو گی‘ جہاں انصاف بکاؤ اور دولت کا محتاج نہیں ہو گا، جہاں ریاست اس میں رہنے والوں پر جبر نہیں کرے گی، جہاں غدار لوٹنے والے نہ ہوں گے۔ جہاں تعلیم، علاج، روزگار، بجلی اور دوسری سہولیات کی فراہمی انسان کی مراعات نہیں ہوں گی بلکہ حق ہوں گی۔ جہاں محنت کشوں کی یکجہتی کا سُرخ پرچم پورے خطے کی آزاد فضا میں لہرائے گا۔ یہ نظام انسانوں کو انسانوں سے نفرتوں کی بجائے عالمی بھائی چارے کی نوید دے گا۔ اس کا آج کے عہد میں ممکن ہونا ہمیں ساری دنیا میں ابھرنے والی تحریکیں بار بار دکھا رہی ہیں۔ ایک بار اس انقلابی لہر کی‘ تاریخ کے میدان میں آمد کی دیر ہے پھر... کس کے روکے رکا ہے سویرا!!! فیکٹریاں بند ہو رہی ہیں‘ معیشت ڈوبتی چلی جا رہی ہے۔ اگر کوئی کاروبار بچ گیا ہے اور جو چل رہا ہے تو وہ کالے دھن کی معیشت پر ہی مبنی ہے۔ اور اس کاروبار میں تعلیمی ڈگریاں اتنا کام نہیں دیتیں جتنا اسلحہ اور بارود کا استعمال دیتا ہے، لیکن پھر حکمرانوں نے تو صرف مال بنانا ہے۔ فیکٹریوں سے منافع حاصل نہیں ہوتا تو نہ ہو‘ ان کو بند کر دیں گے۔ زرعی اور صنعتی پیداوار گرتی ہے‘ تو گرتی رہے، ان کو تو سروکار صرف دولت اور غرض صرف شرح منافع سے ہے۔ سماجی و صنعتی انفراسٹرکچر ٹوٹتا بکھرتا ہے‘ تو ان کی بلا سے۔ ان کی شاہراہیں‘ گاڑیاں‘ جنریٹر موجود ہیں۔